ریلوے میں تبدیلی نہ ہونے کا اعتراف

وزیر ریلوے کی توجہ اپنے محکمے کی بجائے سیاست پرہوگی توریلوے کی بدحالی، تاخیر اوربوگیوں کی شکستہ حالی پرکون توجہ دے گا۔

محکمہ ریلوے میں گزشتہ دو مہینوں سے ٹرینوں کی تاخیر اور ایک سال سے ہونے والے حادثات اور شدید تنقید کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اعتراف کرلیا ہے کہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی ریلوے میں انقلابی تبدیلی نہیں لاسکے ہیں۔ شیخ رشید پہلی بار وزیر نہیں بنے، وہ آٹھویں مرتبہ وفاقی وزیر بنے ہیں اور ریلوے کے پہلے بھی وزیر رہ چکے ہیں۔

ان کے گزشتہ دور میں ریلوے میں نہ صرف تبدیلیاں آئی تھیں بلکہ ان کے سابقہ دور میں چلائی جانے والی ٹرینیں اب بھی چل رہی ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک کی آبادی جس طرح بڑھی اس میں دور دراز سفرکرنے والی اے سی اور نان اے سی بسوں کی تعداد نجی شعبے میں بڑھی ہے جب کہ پہلے صوبوں میں طویل اور دوردراز سفر کے لیے نان اے سی سرکاری بسیں چلائی جاتی تھیں۔

جن میں لمبے سفرکرنے والے مسافروں کی بھرمار ہوتی تھی اور یہ بسیں زیادہ طور پر رات کو چلتی تھیں اورکامیاب تھیں۔ سرکاری بسوں میں بے انتہا کرپشن کے باعث طویل سفرکی ان بسوں سے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کب کی ختم ہوچکی مگر نجی ٹرانسپورٹ نے بے انتہا فروغ پایا اور آج ملک کے کونے کونے میں نجی بسوں کا کاروبار بے انتہا فروغ پا چکا ہے۔

نجی شعبے میں ایک بس سے بڑھتے بڑھتے اس کے مالکان کئی کئی بسوں کے مالکان بن گئے اورحکومتی شعبے میں کہیں کوئی سرکاری بس نظر نہیں آتی۔ پہلے سرکاری بسوں کے قبرستان آباد کیے گئے پھر سرکاری بسوں کے جو اڈے تھے وہ بھی ختم ہوکر رہ گئے۔

ملک میں تبدیلی حکومت ایک سال مکمل کرچکی ہے اور وزیر اعظم نے اپنے حلیف شیخ رشید کو شاید اس لیے ریلوے کی وزارت دی تھی کہ وہ اپنے تجربے کے باعث محکمہ ریلوے کے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے بہتر طور پر چلائیں گے۔ خواجہ سعد رفیق پہلی بار وزیر ریلوے بنے تھے اور ان کے پیش روسابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور ریلوے کو مکمل تباہی کی حالت میں چھوڑکرگئے تھے، جس کی بحالی اور بہتری کے لیے خواجہ سعد رفیق نے سیاست سے زیادہ توجہ ریلوے کی حالت زار پر دی اور پانچ سال میں ریلوے پر مسافروں کا اعتماد بحال کرکے دکھایا اور ریلوے کی چار سالہ کارکردگی کی مکمل تفصیلات لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں قوم کے سامنے رکھ کر اپنی کارکردگی کا ثبوت دیا تھا۔

شیخ رشید کو چلتی ہوئی ریلوے ملی تو انھوں نے ابتدا میں نئی ٹرینیں چلا کر وزیر اعظم کی خوشنودی کے لیے میانوالی ایکسپریس چلائی اور ریلوے کی ناکارہ بوگیوں اور کچھ دیگر گاڑیوں سے بوگیاں کم کرکے نئی ٹرینیں چلانے کو اپنا مشن بنایا اور پرانی چلتی ہوئی ٹرینوں جن میں پرانی بوگیاں اکثر لگائی جاتی تھیں ان کی بہتری اور ضروری مرمت کو نظراندازکیا۔ وزیر اعظم سے نئے نام کی ٹرینوں کے افتتاح شروع کرائے تو ریلوے کے حقائق سے لاعلم وزیر اعظم نے شیخ رشیدکی تعریفیں شروع کردیں اور نئی ٹرینوں کو ہی ریلوے کی ترقی سمجھ لیا جب کہ ایسا نہیں تھا۔


شیخ رشید کی چلائی جانے والی میانوالی ایکسپریس اورکراچی میں دھابیجی ایکسپریس بوجوہ ناکام رہ کر ریلوے کا خسارہ بڑھانے لگیں اور دیگر چھوٹے روٹ کی ٹرینیں ریلوے کے مزید خسارے کا سبب بن گئیں۔ راقم کو جولائی میں لاہور سے راولپنڈی کے سفر کے دوران جعفر ایکسپریس میں ڈیوٹی پر موجود افسران نے بتایا کہ حالیہ اقدامات سے ریلوے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ریلوے کے ہر ڈویژن کو یہ اختیار تھا کہ وہ ہر ٹرین کی ضرورت کے مطابق ریلوے سامان کی لوکل خریداری کر لیتے تھے۔

جس سے ٹرینوں میں خراب ہوجانیوالے پرزہ جات کی فوری تبدیلی ہوجاتی تھی مگر بعد میں ریلوے ڈویژنوں سے لوکل خریداری کا اختیار لے لیا گیا اور سارے اختیارات ریلوے ہیڈ کوارٹر کو دے دیے گئے جس سے ریلوے کارکردگی متاثر اور ٹرینیں خرابی کے باعث تاخیرکا شکار ہونے لگیں۔بہرحال یہ ان کا ذاتی موقف تھا ۔یہ حکومت ہی بہتر جانتی ہے کہ اس نے ایسی تبدیلی کیوں کی۔

نئی ٹرینیں چلانے کے لیے پرانی بوگیوں کی تفصیلی مرمت پر توجہ دینے کی بجائے جلدبازی میں بوگیوں کی دیواروں اور فرش کی مرمتوں پر توجہ دی گئی مگر بوگیوں کی شکستہ چھتوں کی مرمت کو نظراندازکیا گیا جب کہ چھت پر بنے واٹر ٹینکس سے بہنے والے پانی کے روکنے پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے بوگیوں کی چھتیں ٹپکتی ہیں تو مسافر متعلقہ افسروں سے شکایتیں کرتے ہیں تو بے اختیار ریلوے افسر جواب نہیں دے پاتے۔

بوگیوں کی چھتیں ٹپکنے کا ثبوت راقم کو تین اگست کو لاہور سے کراچی واپس آتے ہوئے اے سی بزنس کلاس کے کوپے میں ملا۔ باہر بارش نہیں تھی اور ٹرین میں ملتان سے پانی بھرا گیا اور ایک گھنٹے بعد بھاولپورکے بعد ٹرین کے کوپے کی چھت ٹپکنا شروع ہوگئی جو روہڑی تک جاری رہی اور کوپے میں سفر کرنیوالے 6 مسافر ہی رات بھر بھیگتے رہے اور ان کا سامان بھی خراب ہوا۔ یہ بزنس کلاس کا حال تھا تو اکانومی کلاس کا کون پرسان حال ہوگا۔

4 ستمبر کو کراچی سے لاہور جانیوالی قراقرم ایکسپریس میں ملت ایکسپریس کی پرانی شکستہ بوگیاں لگائی گئیں اورکسی بھی بوگی میں لائٹیں نہیں جل رہی تھیں اور پانچ گھنٹوں میں قراقرم نے بن قاسم اسٹیشن کراس کیا اور مسافر باہر پلیٹ فارم پر شدید پریشان رہے مگر کوئی سننے نہیں آیا جس پر مشتعل مسافروں نے ٹریک کو تمام ٹرینوں کے لیے بند کردیا اور دھرنا دیا گیا۔ ملک بھر میں ایک سال سے ٹرینوں کے بڑے چھوٹے تقریباً ایک سو حادثات ہوچکے ہیں۔

ریلوے بوگیوں کی حالت بہت خراب ہے اور امیروں کے لیے چلائی جانے والی وی آئی پی سرسید ایکسپریس، جناح ایکسپریس جن میں اکانومی کلاس نہیں رکھی گئی بوگیاں بہتر حالت میں ہیں اور ان میں مسافروں کو کھانے، پانی، وائی فائی، تکیے چادروں کی مفت سہولتیں تو ہیں مگر ان اے سی وی آئی پی ٹرینوں کے کرائے اتنے زیادہ ہیں کہ غریب ان میں سفر ہی نہیں کرسکتے۔

مہنگے کرائے پر سفر کرنے والوں کو تو ریلوے سہولتیں دے رہی ہے مگر کم کرائے پر اکانومی کلاس میں سفر کرنے والے مسافروں کو ٹرینوں میں کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ وزیر ریلوے کی ریلوے سے زیادہ توجہ سیاست اور اپنے سابق محسنوں شریفوں پر ہے اور وہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھی سیاست پر آجاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں گروپ بننے والے ہیں۔ جب وزیر ریلوے کی توجہ اپنے محکمے کی بجائے سیاست پر زیادہ ہوگی تو ریلوے کی بدحالی، تاخیر اور بوگیوں کی شکستہ حالی پرکون توجہ دے گا اور مسافر ان کی وزارتی ذمے داری پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
Load Next Story