صلۂ رحمی جوہر انساں
نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘
اللہ کی توحید اور والدین کی اطاعت کے حکم کے ساتھ جس چیز کا حکم دیا گیا وہ صلۂ رحمی ہی ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: '' اللہ کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور قرابت داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔'' ( النساء)
نبی اکرمؐ نے عبادات میں توحید الہی اور نماز و زکوۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے۔ ابُو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنّت میں داخل کر دے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: '' اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور صلۂ رحمی ( رشتوں کو قائم ) کرو۔''
ہم سے پہلی امّتوں کو بھی رشتوں کو قائم و بحال رکھنے کا حکم تھا۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: '' اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور قرابت داریوں کو بحال رکھنا۔'' ( البقرہ )
نبی اکرم ﷺ نے صلۂ رحمی کی وصیت فرمائی تھی۔ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں: میرے خلیل ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلۂ رحمی کروں اگرچہ رشتے دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں۔'' ( معجم طبرانی کبیر )
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلۂ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد کا مفہوم ہے : ''جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔''
صلۂ رحمی قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو اپنے والدین کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کریں۔ ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! والدین کے فوت ہوجانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ہاں، ان کے لیے رحمت کی دعائیں مانگو، ان کے لیے اللہ سے مغفرت و بخشش کرو اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرو، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتے قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے۔'' (ابوداؤد )
اللہ تعالی نے رحم کو پیدا فرمایا اور اس کا نام اپنے اسم گرامی سے نکالا اور ہمارے رب نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص صلۂ رحمی کرے گا میں اسی سے اپنا تعلق رحمت قائم رکھوں گا اور جس نے اس ذات رحیم نے تعلق پیدا کرلیا اس کے گھر میں ہر طرح کی بھلائیاں جمع ہوگئیں۔ اور اس سے کوئی اس تعلق کو ختم نہیں کروا سکتا۔ اور جسے اللہ جبار نے بے تعلق و دم کٹا کر دیا۔ اسے کوئی شخص بلندی و سُرخ روئی نہیں دے سکتا اور وہ ذلت و خواری (غم و اندوہ) میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم ہے : '' جسے اللہ ذلیل کردے اسے کوئی عزت و تکریم نہیں دے سکتا۔''
اللہ تعالی نے رشتے داروں کے ساتھ بھی اسی طرح نرمی، شفقت و محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: ''اور قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو۔''
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائے گا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنا باغ صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو نبی کریمؐ نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو تو حضرت طلحہؓ نے وہ باغ اپنے رشتے داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا۔'' ( متفق علیہ)
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام کا مستحق ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: '' اور قرابت دار ہمسائے سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھ ( ہم نشیں) سے بھی حسن سلوک کرو۔'' ( النساء)
صلۂ رحمی کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے ثمرات و برکات بہت زیادہ ہیں جو تعمیر حیات میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اہل و عیال اور اہل خاندان کے ساتھ محبت کرنا رزق میں کشادگی اور عمر میں درازی کا باعث ہے۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ''صلۂ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت، مال میں فراوانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے۔'' ( مسند احمد) اور بخاری و مسلم میں ہے: '' جسے یہ بات خوش گوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو، اسے صلۂ رحمی کرنا چاہیے۔'' (بخاری و مسلم)
امام ابن التین کہتے ہیں: ''صلۂ رحمی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہیں۔''
احسان کا بدلہ احسان سے دینا برابری کا معاملہ اور مکافات عمل ہے، جب کہ صلۂ رحمی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رشتہ دار پر بدلے کی خواہش و انتظار کے بغیر احسان کرے۔ نبی اکرمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے، بل کہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتے دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے۔'' ( صحیح بخاری )
ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں۔ میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر تُو ایسے ہی ہے جیسے تُو بتا رہا ہے تو انہیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہوگے۔ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار مقرر رہے گا۔'' (صحیح مسلم)
قطع رحمی ذلّت و رسوائی، ضعف و کم زوری اور تنہائی کا باعث ہے اور یہ غم و اندوہ اور پریشانیاں لاتی ہے۔ قطع رحمی کرنے والا اخوّت و بھائی چارے پر قائم نہیں رہتا، نہ ہی اس سے وفا کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی اخوّت میں صدق و سچائی کی توقع کی جاسکتی ہے، وہ اپنی حالت سے اس بات کی طرف اشارہ دے رہا ہوتا ہے کہ اس سے اللہ تعالی نے تعلق رحمت توڑ رکھا ہے۔ لوگوں کی حقارت آمیز نظریں اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں، بہ ظاہر چاہے اسے کتنا ہی اعزاز و اکرام سے نوازا جا رہا ہو۔ صحابہ کرامؓ قطع رحمی کرنے والے ساتھ بیٹھنے سے وحشت محسوس کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: '' قطع رحمی کرنے والا شخص جب ہمارے پاس سے اٹھ کر چلا جاتا تو ہمیں خوشی محسوس ہوتی۔'' عبداللہ بن مسعودؓ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقۂ درس میں بیٹھے ہوتے تو فرماتے: '' میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہم سے اٹھ کر چلا جائے کیوں کہ اب ہم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں۔''
جس کی کسی رشتے دار کے ساتھ کوئی عداوت و دشمنی چل رہی ہو اسے چاہیے کہ فوری طور پر صلۂ رحمی شروع کردے، اسے معاف کردے اور اس کی طرف سے اپنے دل کو صاف کرلے، پس جس نے معاف کردیا اور صلح و صفائی کرلی اس کا اجر و ثواب اللہ کے پاس ہے۔ جس نے اپنی زبان کی حفاظت کرلی اس نے اپنے نفس کو راحت و سکون میں رکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صلۂ رحمی کے فضائل سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور قطع رحمی سے بچائے رکھے۔ آمین
نبی اکرمؐ نے عبادات میں توحید الہی اور نماز و زکوۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے۔ ابُو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنّت میں داخل کر دے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: '' اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور صلۂ رحمی ( رشتوں کو قائم ) کرو۔''
ہم سے پہلی امّتوں کو بھی رشتوں کو قائم و بحال رکھنے کا حکم تھا۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: '' اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اور قرابت داریوں کو بحال رکھنا۔'' ( البقرہ )
نبی اکرم ﷺ نے صلۂ رحمی کی وصیت فرمائی تھی۔ حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں: میرے خلیل ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلۂ رحمی کروں اگرچہ رشتے دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں۔'' ( معجم طبرانی کبیر )
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلۂ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد کا مفہوم ہے : ''جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔''
صلۂ رحمی قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو اپنے والدین کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کریں۔ ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! والدین کے فوت ہوجانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ہاں، ان کے لیے رحمت کی دعائیں مانگو، ان کے لیے اللہ سے مغفرت و بخشش کرو اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرو، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتے قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے۔'' (ابوداؤد )
اللہ تعالی نے رحم کو پیدا فرمایا اور اس کا نام اپنے اسم گرامی سے نکالا اور ہمارے رب نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص صلۂ رحمی کرے گا میں اسی سے اپنا تعلق رحمت قائم رکھوں گا اور جس نے اس ذات رحیم نے تعلق پیدا کرلیا اس کے گھر میں ہر طرح کی بھلائیاں جمع ہوگئیں۔ اور اس سے کوئی اس تعلق کو ختم نہیں کروا سکتا۔ اور جسے اللہ جبار نے بے تعلق و دم کٹا کر دیا۔ اسے کوئی شخص بلندی و سُرخ روئی نہیں دے سکتا اور وہ ذلت و خواری (غم و اندوہ) میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم ہے : '' جسے اللہ ذلیل کردے اسے کوئی عزت و تکریم نہیں دے سکتا۔''
اللہ تعالی نے رشتے داروں کے ساتھ بھی اسی طرح نرمی، شفقت و محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: ''اور قرابت داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو۔''
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائے گا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں۔ حضرت ابوطلحہؓ نے اپنا باغ صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو نبی کریمؐ نے فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو تو حضرت طلحہؓ نے وہ باغ اپنے رشتے داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا۔'' ( متفق علیہ)
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام کا مستحق ہے۔ ارشاد الہی کا مفہوم ہے: '' اور قرابت دار ہمسائے سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھ ( ہم نشیں) سے بھی حسن سلوک کرو۔'' ( النساء)
صلۂ رحمی کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے ثمرات و برکات بہت زیادہ ہیں جو تعمیر حیات میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اہل و عیال اور اہل خاندان کے ساتھ محبت کرنا رزق میں کشادگی اور عمر میں درازی کا باعث ہے۔ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ''صلۂ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت، مال میں فراوانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے۔'' ( مسند احمد) اور بخاری و مسلم میں ہے: '' جسے یہ بات خوش گوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو، اسے صلۂ رحمی کرنا چاہیے۔'' (بخاری و مسلم)
امام ابن التین کہتے ہیں: ''صلۂ رحمی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہیں۔''
احسان کا بدلہ احسان سے دینا برابری کا معاملہ اور مکافات عمل ہے، جب کہ صلۂ رحمی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رشتہ دار پر بدلے کی خواہش و انتظار کے بغیر احسان کرے۔ نبی اکرمؐ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے، بل کہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتے دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے۔'' ( صحیح بخاری )
ایک آدمی نبی اکرمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں۔ میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں، مگر وہ میرے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر تُو ایسے ہی ہے جیسے تُو بتا رہا ہے تو انہیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہوگے۔ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار مقرر رہے گا۔'' (صحیح مسلم)
قطع رحمی ذلّت و رسوائی، ضعف و کم زوری اور تنہائی کا باعث ہے اور یہ غم و اندوہ اور پریشانیاں لاتی ہے۔ قطع رحمی کرنے والا اخوّت و بھائی چارے پر قائم نہیں رہتا، نہ ہی اس سے وفا کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کی اخوّت میں صدق و سچائی کی توقع کی جاسکتی ہے، وہ اپنی حالت سے اس بات کی طرف اشارہ دے رہا ہوتا ہے کہ اس سے اللہ تعالی نے تعلق رحمت توڑ رکھا ہے۔ لوگوں کی حقارت آمیز نظریں اس کا پیچھا کرتی رہتی ہیں، بہ ظاہر چاہے اسے کتنا ہی اعزاز و اکرام سے نوازا جا رہا ہو۔ صحابہ کرامؓ قطع رحمی کرنے والے ساتھ بیٹھنے سے وحشت محسوس کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: '' قطع رحمی کرنے والا شخص جب ہمارے پاس سے اٹھ کر چلا جاتا تو ہمیں خوشی محسوس ہوتی۔'' عبداللہ بن مسعودؓ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقۂ درس میں بیٹھے ہوتے تو فرماتے: '' میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہم سے اٹھ کر چلا جائے کیوں کہ اب ہم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں۔''
جس کی کسی رشتے دار کے ساتھ کوئی عداوت و دشمنی چل رہی ہو اسے چاہیے کہ فوری طور پر صلۂ رحمی شروع کردے، اسے معاف کردے اور اس کی طرف سے اپنے دل کو صاف کرلے، پس جس نے معاف کردیا اور صلح و صفائی کرلی اس کا اجر و ثواب اللہ کے پاس ہے۔ جس نے اپنی زبان کی حفاظت کرلی اس نے اپنے نفس کو راحت و سکون میں رکھ لیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صلۂ رحمی کے فضائل سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور قطع رحمی سے بچائے رکھے۔ آمین