دعوتِ دین میں داعی کے اوصاف

’’ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کاموں کا حکم دیتے اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں۔‘‘


راحیل گوہر September 13, 2019
’’ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کاموں کا حکم دیتے اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں۔‘‘ فوٹو: فائل

اس لیے اس کی تعلیمات پر خود عمل کرنا اور بندگانِ خدا کو اس کی دعوت دینا، تمام نیکیوں اور خیر کے کاموں کی کفایت کرنے کا مترادف ہے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام بلاشبہہ امن و سلامتی، رواداری اور بھائی چارے کا دین ہے، تو سارے انسانی رویے، انسانی خدمت اور فلاحی کام دین کا ہی حصہ بن جاتے ہیں۔ گویا معاملہ انفرادی سطح کا ہو یا اجتماعی اعتبار سے پوری انسانیت کا، ان سب کا ایک ہی حل ہے، اور وہ ہے اسلام کا پھیلاؤ اور اس پر شعوری ادراک کے ساتھ عمل پیہم!

چناں چہ تمام احسن و اعلیٰ اور قابل تحسین اعمال کا صدور اسی وقت ممکن ہے جب انسان خود بھی دین کی تقاضوں پر عمل کرتا رہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا رہے اور یہ کام محض ایک مشغلہ یا وقت گزاری کے طور پر نہیں بل کہ بہ حیثیت ایک مسلمان اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کرے۔

ارشاد ربانی کا مفہوم ہے: (مسلمانوں!) '' تم بہترین اُمّت ہو جنہیں لوگوں کی (اصلاح و ہدایت) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور بُرے کاموں سے روکتے ہو۔'' ( آلِ عمران)

اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ جبھی ادا ہوسکتا ہے کہ جب ہر مسلمان اپنے آپ کو دین اسلام کا داعی سمجھے اور اللہ نے اسے جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے اس کی فضیلت اور اہمیت کا احساس رکھے اور اس فرض کی ادائی میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔

سورۃ التوبہ میں ارشاد پاک کا مفہوم ہے: '' مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو بھلے کاموں کا حکم دیتے اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں۔''

نیکی کے کاموں کی تلقین اور بُرے کاموں سے روکنے سے غفلت پر رسول اکرم ﷺ نے سخت سرزنش فرما ئی ہے۔

آپؐ نے فرمایا، مفہوم: (اے اہلِ ایمان!) '' قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے اور تم کو تاکید ہے کہ امر بالمعروف اور عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو، یا پھر ایسا ہوگا کہ (اس معاملے میں کوتاہی کی وجہ سے) اللہ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا۔ پھر تم اس سے دعائیں کروگے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔'' (جامع ترمذی)

ایک اور موقع پر رسول کریم ﷺ نے اس فریضے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: '' جس بندے نے کسی نیکی کے راستے کی طرف (لوگوں کو) دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے اجر کے مطابق اجر ملے گا جو اس کی بات مان کر اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور عمل کریں گے۔ اور اس کی وجہ سے ان کے عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ (اور اسی طرح) جس نے (لوگوں کو) کسی گم راہی (اور بدعملی) کی دعوت دی تو اس داعی کو ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جو اس کی دعوت پر اس گم راہی اور بدعملی کے مرتکب ہوں گے اور اس کی ان لوگوں کے گناہوں میں (اور ان کے عذاب میں) کوئی کمی نہ ہوگی۔'' (صحیح مسلم)

جس طرح دنیا میں ہر کام کرنے اور اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اسی طرح اقامت دین اور اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے بھی کچھ اصول و قواعد مقرر ہیں جو دین کے داعی کو سمجھنا ضروری ہیں۔ دعوت دین کے کام میں ایک داعی کے فکر و عمل، اس کے عقائد کی پختگی، اس کا ذاتی کردار، اس کی نشست و برخواست، معاملات میں شفافیت، اس کے قلب و ذہن کا ترفع اور اس کے قول و فعل میں مطابقت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ بعض اوقات انسان کا محض اپنا راست عمل ہی ایک قسم کی خاموش تبلیغ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ نیکی اور بُرائی دونوں ہی متعدی ہوتے ہیں۔

جب ہم دین کے داعی بن کر کھڑے ہوتے ہیں تو لوگوں کی دوررس نگاہیں ہماری حرکت و سکون کا بہ غور جائزہ لے رہی ہوتی ہیں۔ چناں چہ دعوت دین کی اس کٹھن راہ میں استقامت سے کھڑے رہنا، تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی اختیار کرنا اور اس راہ میں پیش آنے والے کسی بھی امتحان کے موقع پر ایک مجاہد کا کردار ادا کرنا، ساتھ ہی اللہ سے اپنے لیے ہمت و استقامت کی دعا بھی کرتے رہنا ایک داعی کا لازمی عمل ہونا ضروری ہے۔

داعی کے اوصاف میں ایک اہم چیز حکمت و موعظت کا اندازِ بیان ہے۔ رسول کریم ﷺ کو بھی اس اندازِ سخن کی تعلیم دی گئی تھی۔ ارشاد خداوندی کام مفہوم ہے:

(اے نبیؐ!) آپؐ ( لوگوں کو) اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجیے اور ان سے ایسے طریقے سے مباحثہ کیجیے جو بہترین ہو۔'' (النحل)

دعوت ِ دین کے لیے داعی کے اندر جذبۂ محبت، ایثار و قربانی، لب و لہجے میں مٹھاس اور مخاطب کی تکلیف دہ باتوں سے درگزر کر نا ضروری ہے۔ کیوں کہ اصل خوبی ہی حسنِ اخلاق ہے۔ یہ حسنِ اخلاق ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے کٹر دشمن بھی آپؐ کے سلوک اور رویے سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوجاتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: '' مسلمانوں میں زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے۔

جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔'' گویا ایمان اور اخلاق لازم و ملزوم ہیں۔ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے کچھ تلخ باتوں اور ناخوش گوار رویّوں کا مظاہرہ ہوجاتا ہے، ایسے موقع پر ایک داعی کا فرض ہے کہ اجتماعی مفادات کے پیش نظر اعلیٰ ظرفی اور تحمل سے کام لیتے ہوئے ان چیزوں سے صرفِ نظر کرے ۔ ویسے بھی معاف کردینا اور درگزر کا رویہ اختیار کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: '' اور جو غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کر تے ہیں، اور اللہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے۔'' (آلِ عمران)

یہ اختیار اللہ ہی کے پاس ہے کہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے ہدایت سے محروم رکھے۔ اور بلاشبہہ اللہ ہدایت تو اسی کو دیتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ ایک داعی کے ذمے تو اللہ کے دین کو اخلاص نیّت، رضائے الٰہی کے حصول اور اقامت دین کی تڑپ کے ساتھ، بلا کم و کاست اس کے بندوں تک پہنچا دینا ہے۔ تاہم کسی کا دعوت قبول کرلینا، داعی کے لیے نہ کسی قسم کے فخر و مباہات کا باعث بنے اور نہ کسی کی ردّ دعوت پر اس کو دل برداشتہ ہونا چاہیے۔ بس وہ تو رسول کریم ﷺ کے اس قولِ مبارک پر نظر رکھے: '' پہنچاؤ میری طرف سے خواہ ایک ہی آیت ہو۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں