پرندہ افسانے

پیش لفظ میں مصنف نے اپنے افسانے کو عصری تاریخ قرار دیتے ہوئے بغیر ڈرے سچ بیان کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔


Agha Gul August 31, 2012
پرندہ۔ فوٹو: فائل

لاہور: زیر تبصرہ کتاب اردو کے معروف ادیب، آغا گل کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ''پرندہ'' سے قبل اُن کے افسانوی مجموعے اور ناول ناقدین سے قبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔

یہ مجموعہ بارہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا عنوان مجموعے میں شامل افسانے سے لیا گیا ہے۔ اندرونی صفحات میں اظہر جاوید اور سرور سکھیرا کی، آغا گل کے فن سے متعلق رائے موجود ہے۔ ''فلیپ'' عابد میر نے لکھا ہے، جن کے بہ قول، آغا گل کی تحریر، خوف کے ماحول میں نڈر بن کر رہنا سِکھاتی ہے۔ پیش لفظ میں مصنف نے اپنے افسانے کو عصری تاریخ قرار دیتے ہوئے بغیر ڈرے سچ بیان کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

فنّی نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے، تو افسانہ نگار نے مہارت، گرفت اور دلیری کے ساتھ بلوچستان کی معاشرت، وہاں کے حالات اور مسائل بیان کیے ہیں۔ کتاب میں شامل پہلا افسانہ ''بدروچ'' تقسیم سے قبل کوئٹہ میں سرگرم انقلابی نوجوانوں کی کہانی ہے، جو جبر کے خلاف ایک اخبار نکالنے کا ارادہ باندھتے ہیں۔ ''قبرستان کی موت'' شفقت پدری سے محروم بچے کی داستان ہے، جو اقلیتوں کے مسائل کا گواہ بنتا ہے۔ ''گونگا پہاڑ'' میں علامت اور حقیقت نگاری کا اثرانگیز امتزاج نظر آتا ہے۔ مجموعے میں شامل آخری افسانہ ''اجنبی'' ہندوستان سے ہجرت کرکے کوئٹہ میں سکونت اختیار کرنے والے خاندان کی کہانی ہے۔

مقصدیت، شستہ زبان، مضبوط کردار نگاری، بیان کی روانی آغا گل کا خاصہ ہے۔ مجموعے میں شامل افسانوں میں بہ وقت ضرورت استعاروں، علامتوں کا برمحل برتائو مطالعیت کے عنصر کو مہمیز کرتا ہے۔ کتاب تقاضا کرتی ہے کہ اِس کی ملک بھر کے قارئین تک رسائی ممکن بنائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں