پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات دوستی کا نیا دَر وا ہو سکتا ہے

سب ہی دانشوروں کا اس پر اتفا ق ہے کہ مذاکرات ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے ۔

وزیراعظم نوازشریف اپنےبھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے مصافحہ کررہے ہیں پاک بھارت وفود بھی موجود ہیں۔فوٹو: اے ایف پی

سبھی دانشوروں کا اس پر اتفا ق ہے کہ مذاکرات ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے ۔

پاکستان اور بھارت بھی اسی لئے ہمیشہ سے یہی کوشش کرتے آئے ہیں کہ گزشتہ 66سال سے دونوں ملکوں میں موجود دوریوں کو کسی طرح سے ختم کیا جائے اور تمام معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی کہا کہ وہ دونوں ملکوں میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ ان کی طرف سے یہ عندیہ دیا جانا تھا کہ چند ہی روز بعد کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات پیش آنے لگے، جس میں دونوں ملکوں کے جوان جاں بحق بھی ہوئے ۔ بھارتی فوج کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ پاکستان کی طرف سے پہلے فائرنگ کی گئی جس کے جواب میں انھوں نے فائرنگ جبکہ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ بھارتی فوجیوں نے بلا اشتعال فائرنگ کی جس سے پاکستانی فوجی شہید ہوئے ۔ پھر بھارت کی طرف سے الزامات لگائے کہ پاکستان فوج کی طرف سے اس لئے فائرنگ کی جاتی ہے تا کہ دراندازوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کیا جا سکے ۔

جبکہ پاکستانی فوج نے اس الزام کو بالکل بے بنیا د قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والے خود وہاں کے رہنے والے کشمیر ی ہی ہیں ، پاکستان کی طرف سے کسی بھی قسم کی در اندازی نہیں ہوتی۔ پھر اسی پر بس نہیں ہوا ، بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور حکومت کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اعلان اور ان کے بعض رہنمائوں کو آزاد کئے جانے کے باوجود دہشت گردانہ حملے جاری رہے اور دہشت گرد معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے ، دہشت گردوں نے ہر مکتبہ فکر اور ہر مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایا ، گزشتہ ہفتے پشاور میں چرچ پر حملہ کیا گیا جس میں مسیحی برادری کے درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں اور مسیحی برادری اب تک سراپا احتجاج ہے۔



سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خود کش حملے اس وقت کیوں کئے گئے جب ملک کا وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے روانہ ہونے والا تھا ، یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی خفیہ طاقت اس موقع پر پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، پھر اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بعد سرکاری ملازمین کی بس کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس کا مقصد ظاہر ہے خوف و دہشت کی فضا طاری کرنا تھا ، پھر عین اتوارکے روز جب پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات ہونا تھی پشاور کے قصہ خوانی بازار میں کار بم دھماکہ کیا گیا ۔

دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ کر کے بھارتی کرنل سمیت کئی اہلکاروں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ یوں دکھائی دے رہا ہے جیسے یہ سب ہتھکنڈے پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کو روکنے کے لئے آزمائے گئے۔ مگر تمام تر دہشت گردانہ کاروائیوں کے باوجود دونوں ممالک کے وزرائے اعظم شائد یہ عزم کئے بیٹھے تھے کہ نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بہانے ملاقات کا ملنے والا یہ موقع وہ کسی صورت گنوانا نہیں چاہتے۔ حالانکہ ملاقات کرنے کا پروگرام طے ہو چکا تھا مگر آخری دن تک بے یقینی کی کیفیت دکھائی دے رہی تھی ۔ یوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعظم من موہن سنگھ بالآخر نیویارک میں آپس میں ملاقات کرنے میں کامیاب ہوئے ۔




وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے یہ ملاقات نیویارک کے ایک ہوٹل میں ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں دونوں طرف سے چھ ، چھ افراد نے شرکت کی ۔ وزیرا عظم نواز شریف کی طرف سے امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز اور دیگر سینئر وزراء اور بیوروکریٹ شریک تھے جبکہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی طرف سے وزیر خارجہ سلمان خورشید ، قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن اور خارجہ سیکرٹری سجاتا سنگھ نے شرکت کی ۔ ملاقات میں دونوں رہنما کنٹرل لائن پر سیز فائر پر متفق ہوئے ، اور طے پایا کہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے ڈی جی ایم او ایس میں مذاکرات کئے جائیں گے ۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ممبئی حملوں کے ملزموں کے خلاف کچھ نہ کئے جانے کے حوالے سے شکوہ کیا تو وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں بتایا کہ ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے بھارت بھیجا جانے والا جوڈیشل کمیشن واپس آئے گا تو اس کی طر ف سے تیار کی گئی سفارشات کی روشنی میں صحیح اقدامات کئے جائیں گے۔ اسی طرح ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے پر بھی اتفاق ہوا ۔ دونوں وزرائے اعظم کی طرف سے ایک دوسرے کو دورے کی دعوت دی گئی جو دونوں نے قبول کر لی تاہم اس بارے میں ابھی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔

پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات میں سب سے اہم پیش رفت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی بندش اور اعلٰی سطح پر فوجی مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ ہے، اس سے قبل لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کے بعد رابطے کر کے فائرنگ پر پابندی تو ضرور لگائی جاتی رہی مگر اعلٰی سطح پر فوجی مذاکرات کی بات اس بار طے ہوئی ہے۔ جب فوجی مذاکرات ہوں گے تو ظاہر ہے اس میں صرف لائن آف کنٹرول پر ہی بات نہیں ہو گی بلکہ سیاچن،سرکریک ، سرحدوں پر دراندازی ، بلوچستان اور دہشت گردی کے معاملات بھی زیر بحث آئیں گے اور ہو سکتا ہے کہ انٹیلی جنس کا کوئی ایسا مشترکہ نیٹ ورک بنانے کا معاملہ طے پا جائے جس سے دونوں ممالک میں ہونے والی تخریب کاری اور دہشت گردی کی کاروائیوں پر زد پڑ سکے ، کیونکہ اس چیز کی اب بہت سخت ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے دونوں ممالک میں غلط فہمیاں پھیلانے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے خطاب کے دوران جو کہا تھا کہ دونوں ملکوں نے اپنے جو وسائل فوجی تیاری میں صرف کئے وہ دونوں ملکوں کی اقتصادی ترقی پر خرچ کئے جاتے تو دونوں ملکوں کو بہت فائدہ ہوتا ۔ اگر ان کی یہی بات بھارتی وفد کے دل و دماغ میں اتر گئی تو شائد اعلیٰ سطح پر شروع ہونے والے فوجی مذاکرات آگے چل کے دوستی کی نئی راہیں کھول دیں ۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے دونوں طرف سے کھلے دل کا مظاہر ہ کیا جائے اور پرانی رنجشوں کو بھلا دیا ۔



بھارتی وزیر اعظم نے ممبئی حملوں کے حوالے سے جو شکوہ کیا ہے اس حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے شافی جواب موقع پر ہی دے دیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن جو رپورٹ مرتب کرے گا اس کی روشنی میں صحیح اقدامات کئے جائیں گے ۔ اور یہی بالکل صحیح بھی کیونکہ صرف الزامات کی بنیاد پر تو کسی قسم کی کاروائی نہیں کی جا سکتی جب تک ٹھوس ثبوت حوالے نہیں کئے جاتے آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔ اس لئے بھارتی وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ بھارت آنے والے جوڈیشل کمیشن کو مکمل معلومات فراہم کرے اور اسے انکوائری کی مکمل سہولتیں بہم پہنچائے کیونکہ اس سے قبل یہی ہوتا آیا ہے کہ پاکستان سے بھیجے جانے والے جوڈیشل کمیشن کو تحقیق کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔

دونوں وزرائے اعظم نے باہمی تجارت اور اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے، یہ بڑی خوش آئند بات ہے کیونکہ دونوں ملکوں کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ دونوں ملک ترقی کی منزلیں طے کرنے لگیں ، تاہم ایسا اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب دونوں ممالک کے عوام ہی نہیں حکمران کلاسیں بھی باہم شیر و شکر ہوں ، دونوں طرف سے گلے شکوے جاتے رہیں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ دونوں ممالک کے تمام طبقات کے افراد کے دلوں سے کدورتیں جاتی رہیں۔ اگر لائن آف کنٹرول پر کشیدگی ، سیاچن میں جنگ، اور دونوں طرف تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہیں گے تو باہمی تجارت کے فوائد سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ دونوں ملک ایک ہی خطے کے دو ٹکڑے ہیں جتنا یہ دونوں ایک دوسرے کو فائدہ دے سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں دے سکتا ۔ اس لئے تمام معاملات کو اچھے طریقے سے طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک جلد از جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔
Load Next Story