کوٹھی شیخ نیاز احمد

وزیرآباد کی مبہوت کردینے والی عمارت اور اس کے مکینوں کی کہانی


Hasan August 31, 2012
کوٹھی شیخ نیاز احمد۔ فوٹو: فائل

پَرانوں میں اس سٹرک کو اترپتھا (شمال کا راستہ) کہا جاتا ہے، کہ ہند سندھ کے شمال سے بنگال کے مغرب تک ایسا راستہ قریب قریب ایک عجوبہ تھا۔ پشتونوں کے فرید خان نے جب اپنا نام بدلا تو اس سٹرک کا نام بھی بدل گیا اور اسے راہ اعظم کہا جانے لگا۔ انگریز سرکار نے اس خطے اور اس سڑک پر توجہ دی ۔ فوجی رسد کا سامان یہاں سے وہاں آنے جانے لگا، تو یہ شاہراہ جرنیلی سڑک کے نام سے مشہور ہوئی اور بالآخر رڈیارڈ کپلنگ کی کہانیوں میں اسے Grand Trunk روڈ کے نام سے پکارا جانے لگا۔

ایمن آباد سے تھوڑا آگے بائی پاس، اس سڑک کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں اور پھر رنجیت سنگھ کا گوجرانوالہ، Avitella (رنجیت سنگھ کا ایک جرنیل) کا وزیرآباد اور رام پیاری کا گجرات کہیں اندر ہی گم ہو جاتے ہیں۔ ترقی کا راستہ باہر ہی باہر فرنیچر کی بے حساب دوکانوں پر لا کھڑا کرتا ہے اور کھاریاں سے جی ٹی روڈ پھر جی ٹی روڈ بن جاتی ہے۔

اس ایک عالم پرانی شاہ راہ کے دونوں طرف یوں تو سربستہ سفید ے کے درخت، سی این جی کے پمپ اور انواع و اقسام کی دکانیں ہیں، مگر سڑک سے ذرا اتریں تو گویا آپ وقت کے پاتال میں اترنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کوٹھی شیخ نیاز احمد ایک ایسی سمے گپھا (WARP ZONE) ہے، جہاں وقت رُک کر سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔

وزیرآباد کے صدیوں پرانے شہر میں ثمن برج سے لے کر گروکوٹھہ تک ہر سو تاریخ ہی تاریخ بکھری ہے ۔ کہیں تو گزرا ہوا وقت شکست و ریخت کی چادر اوڑھ کے سو گیا ہے، مگر کہیں عہد رفتہ کے کچھ کچھ نشان اب بھی باقی ہیں۔ ضلع کچہری کے عین سامنے، سنگِ مرمر کے ایک تختے پر عارف شہید روڈ کے اشارے ملتے ہیں۔ اس سڑک پر چند سو میٹر چلیں تو سامنے کو ٹھی شیخ نیاز احمد واقع ہے۔ برطانوی راج کی نشانیوں کی مانند، اس عمارت کا ابتدائی تاثر مبہوت کن ہے۔

1929؁ء میں مکمل ہونے والی یہ عمارت اس وقت ایک لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوئی، جب ایک عام مزدور چار آنے اور راج مستری آٹھ آنے معاوضہ لیا کرتے تھے۔ 32 کنال کے رقبے پر محیط اس بنگلے سے زیادہ دل چسپ، بنگلے والوں کی کہا نی ہے۔

متحدہ ہندو ستان کے اس خطے میں دیوان سکندر لال داس اورگور بخش سنگھ جیسے ''مایا داس'' لوگوں کا ڈنکا بجتا تھا۔ مسلمان کاروبار میں خال خال ہی نظر آتے تھے۔ ان حالات میں شیخ نیاز احمد کا شمار صف اول کے تاجروں میں ہونا ایک منفرد بات تھی۔ برصغیر میں اس وقت چمڑے کے دو کارخانے (وزیرآباد اور کانپور ) ہوا کرتے تھے۔ شیخ نیاز احمد، انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والی Waziarabad Tannery کے مالک تھے۔ اس دور میں چمڑے کو قابل استعمال بنانے کے لیے درکا ر تمام کیمیکل برطانیہ سے برآمد کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں جب ضرورت نہ رہی تو شیخ نیاز احمد نے وہ لائسنس واپس کردیا۔ ملکہ برطانیہ نے ان کی اس ایمان داری سے خوش ہو کر انہیں طلائی گھڑی بھجوائی، جو آج بھی اس کوٹھی کے مکینوں کے پاس موجو د ہے۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں 1930؁ء کے وسط میں انہیں آنریری مجسٹریٹ بنایا گیا۔ آبادی کی اکثریت چوںکہ غریب تھی، لہذا آپ نے اپنے پورے دور میں نہ کسی کو جیل بھیجا او ر نہ ہی جرمانہ ادا کرنے دیا۔

ایک بار ایک انگریز افسرنے ڈپٹی کمشنر کو شیخ نیاز احمد کے خلاف درخواست دی کہ چمڑے کی بو سے اس کا جینا دوبھر ہو گیا ہے لہذا اس کارخانے کو کہیں اور منتقل کیا جائے۔ آپ کو لوگوں سے پتا چلا تو آپ نے کہا کہ اس گورے نے اپنے DC کو چٹھی لکھی ہے، میں اپنے رب کو عرضی ڈالوں گا۔ تین دن بعد وہ درخواست خارج ہوگئی ۔ فیض کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ وزیرآباد میں مقیم ایڈووکیٹ سلمان آصف نے بتا یا کہ کوٹھی والے (مقامی لوگوں میں اس خاندان کو کوٹھی والوں کے تعارف سے جانا جاتا ہے)، اب تک کوئی مقدمہ نہیں ہارے اور ایک طرح کی خوش بختی ہے، جو ہمہ وقت ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔
وزیر آباد شہر سے باہر نظام آباد کی بستی ہے، جو اب اپنے چھری چاقوؤں کی نسبت مشہور ہے۔ اس علاقے کے لوگ، بلا تفریق مذہب، ضرورت کے اوقات میں شیخ نیاز احمد سے پیسے لے کر اپنے گھروں کی رجسٹریاں امانت رکھوا د یا کرتے تھے۔ اپنے انتقال سے قبل آپ نے وہ تمام رجسٹریاں منگوائیں اور جلا دیں۔

بتانے والے بتاتے ہیں کہ طب میں مہارت ا ور کلام الہیٰ کے کثرت سے ورد کی باعث جب بھی آپ کی سواری گھر سے نکلتی تو ہندو اور مسلمان آپ کو روک کر دم ؍ تعویز ؍ دوا کی درخواست کیا کرتے تھے۔ آپ کی تہجد گزاری اور تلاوت میں با قاعدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ ہر روز ایک سپارہ پڑھا کر تے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں جب بصارت جواب دینے لگی، تو آپ نے ایک حافظ صاحب سے درخواست کی جو ہر روز ایک سپارہ سنا جایا کرتے تھے۔ بیماری کے دنوں میں بھی یہ معمول جاری رہا اور آخری دن بھی سپارہ سنا۔ حافظ صاحب کے اصرار پر آپ کے جنازے کے ساتھ بھی معمول کا سپارہ پڑھا گیا۔

آپ کے انتقال کے موقع پر انگلستان کے اخباروں میں ایک سر خی لگی The King of Leather has Died ۔ بھٹو دور میں قومیائے جانے والے اداروں میں وزیرآباد ٹینری بھی شامل تھی۔
کوٹھی کے سب سے بوڑھے مکین نیاز احمد کے بڑے بیٹے ممتا زاحمد ہیں۔ شیخ ممتازاحمد فروری 1927؁ء میں پیدا ہوئے اور 2 سال بعد اس کوٹھی میں منتقل ہوئے۔ اس گھر میں آنے سے پہلے یہ لوگ ثمن برج میں رہا کرتے تھے۔ اسی گھر میں لیفٹیننٹ عارف کی ولادت ہوئی ۔ 1971 ؁ء کے فرید پور (بنگلا دیش) میں جوانسال لیفٹیننٹ عارف، اپنے دادا کا پاکستان سنبھالتے سنبھالتے کسی ایسے مشرقی پاکستانی کی گولی کا نشانہ بنا، جو اپنے دادا کا بنگال سنبھال رہا تھا۔

بیرونی پھاٹک پار کریں تو سب سے پہلے دائیں جانب سرونٹ کوارٹر ہے۔ محراب دار ڈیوڑھی کے پیچھے بنے وسیع کمروں پر مشتمل یہ حصہ، گھر سے علیحدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں یہ حصہ شہر میں تعینات جج صاحبان کی عارضی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ گھر میں پانی کی رسدو نکاس کا نظام، معمولی تبدیلیوں سے قطع نظر، اب تک وہی ہے جو 1929میں تھا۔
نالہ پلکھو میں آنے والے سیلاب میں وزیرآباد کے لوگ، ہر دوسرے تیسرے مون سون میں سامان چھتوں پر لے جاتے ہیں، مگر اس کوٹھی میں ابھی تک صرف 1971کے سیلاب کا پانی داخل ہو سکا ہے۔
پرکار سے کھینچے گئے نصف دائرے ایسے ڈرائیو وے پر پورچ ایستادہ ہے۔ اسی ڈیوڑھی سے اندر جانے والی سیڑھیاں، گھر میں داخل ہونے والے کو، وکٹورین طرز کے نو دروازے والی پہیلی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔

مرکزی دروازے سے ایک راہداری گھر کو چار برابر حصوں میں تقسیم کر تی ہے۔ اندر آتے ہی درجۂ حرارت میں ایک واضح فرق محسوس ہوتا ہے۔ اونچی چھتوں اور لمبی راہداریوں والے برآمدے دل آویز ہیں ۔ چھتوں سے آویزاں لمبے لمبے پنکھوں کی وجہ سے در ودیوار، ایئرکنڈیشن کی خاموش خنکی سے فی الحال نا آشنا ہیں۔ اس گھر میں بجلی پچاس سال پہلے آئی ۔ ممتاز صاحب کو گویا کل کا واقعہ لگتا ہے کہ بجلی آنے سے پہلے سیالکوٹ سے خاص طور پر کاریگر منگوائے گئے اور انہوں نے بجلی کی وائرنگ کی ۔ سولہ دسمبر 1958 ؁ء کو شیخ نیاز احمد نے اپنے ہاتھوں سے پہلا سوئچ آن کیا۔ یہ وائرنگ آج بھی استعمال ہورہی ہے۔ ان پنکھوں کی آمد سے پہلے گھر میں باقاعدہ لکڑی کے بڑے بڑے پنکھے ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل سے چلنے والا فریج بھی موجود تھا۔ گھر میں موجود فرنیچر کی تمام چیزیں اب بھی قابل استعمال ہیں ۔

اوپر جانے والی سیٹرھیوں پر لکٹری کے تختے چڑھے ہیں۔ سیڑھیوں سے باہر نکلنے پر کبوتروں کی بے تحاشا پھڑ پھڑاہٹ ہر نووارد کا استقبال کرتی ہے۔ چھت پر موجود تمام چمنیاں اب بھی دھواں اگلتی ہیں ۔ انہیں حشرات سے بچانے کے لیے ان کے ارد گرد جالی لپیٹی گئی تھی، جو اب تک قائم ہے۔ گھر کے اوپر والے حصے میں دیگ، کفگیر وغیرہ جیسی وہ تمام چیزیں موجو د ہیں، جن سے کسی تقریب کا اہتمام بہ آسانی ہوسکے۔ اس گھر کے مکین چوںکہ صرف دینے پر آمادہ اور مانگنے کے فن سے ناآشنا ہیں، سو انہوں نے یہاں تمام ضروریات زندگی کا اہتمام کر رکھا ہے۔ کوٹھی کی چھت سے شہر کا منظر اس قدر خوب صورت دکھائی دیتا ہے کہ گویا کسی نے وقت کی چرخی پچھلی طرف گھما دی ہو۔

گھر کے دوسرے حصے میں ڈرائنگ ہال ہے، جو بڑے اور اہم مواقع پر استعمال ہوتا ہے۔ مرکزی عمارت سے دائیں طرف اور سرونٹ کوارٹر سے پرے پرانے دور کا ایک باورچی خانہ ہے، جس کو اب بدل کر مہمان خانہ بنا دیا گیا ہے۔ کوٹھی کی دو سو سے زاید کھڑکیاں اور دروازے ہیں، جنہیں صبح کھولا اور شام کو بند کردیا جاتا ہے۔ زیر استعمال رہنے کی وجہ سے گھر کا کوئی کونا بھی عدم توجہی کا شکا ر نہیں ہے۔ مرکزی راہداری سے گزریں تو جلتی بجھتی چھوٹی چھوٹی بتیاں آپ کی نگاہیں تھام لیتی ہیں۔ Wi-Fi Deviceکے یہ رنگین جگنو، دراصل نئی نسل اور پرانی نسل کا نقطہ ء اتصال ہیں۔

احاطے میں موجود تمام درخت لگ بھگ 70 سال پرانے ہیں، مگر سب سے قدیم درخت ، بیرونی دیوار کے ساتھ ہے، جس کی عمر 100 برس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ برگد کا یہ درخت اور اس کے ساتھ گھوڑوں کی ناند، اس گھر کے بننے سے پہلے یہاں موجو د تھے۔ سڑک کی دوسری طرف موجود سو سے زاید جانور ابھی بھی اس خاندان کی چمڑے کے کاروبار سے وابستگی کی یاد دلاتے ہیں ۔

کوٹھی میں آنے والے قابل ذکر مہمانوں میں ڈسٹرکٹ جج ، انگریز افسر اور Lord Headley بھی شامل ہیں، جنہوں نے شیخ نیاز احمد کی زندگی میں یہاں قیام کیا۔

اچھے وقتوں میں یہ کوٹھی، شہر سے ذرا پرے نظام آباد کو جانے والے راستے پر بنائی گئی تھی، مگر آبادی کے عفریت نے آہستہ آہستہ اس کے گردا گرد بھی عمارتوں کا جنگل بُن دیا ہے۔ پاس پڑوس کے گھر اور ان کے شوخ رنگ، مکینوں کے بیرون ملک مقیم ہونے کا ثبوت ہیں، مگر رنگ و روغن سے عاری یہ کوٹھی گویا کسی مقامی روایت کی طرح ایک باوقار مگر اجلی سادگی میں ملبوس ہے۔

کوٹھی شیخ نیاز احمد، ڈاکیے کی یا دداشت سے اس طرح چپکی ہے جیسے دور دیس سے آنے والے ایئرمیل کے لفافے پر رنگین ٹکٹ ۔ ایکڑوں سے سرسائیوں تک یہ عمارت، قدامت کا طلسم ہوش ربا ہے۔ وقت جیسے ان دیواروں کو ٹٹول ٹٹول اور تھام تھام کر چلتا ہے۔ یہ وہ مکان ہے، جس میں نہ تو غلط پتے کی چٹھی آتی ہے، نہ ہی کوئی راستہ بھولتا ہے اور جو کوئی مسافر آ جائے تو مکین ایسے ہیں کہ اسے گھر کا فرد سمجھتے ہیں۔ سنت ابراہیمی پہ تیقن سے کاربند، خلوص میں بھیگے ہوئے یہ لوگ ، ہمہ وقت خوان بچھائے رب کی رحمت کا انتظار کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں