سانحہ بلدیہ دل دہلا دیتا ہے
فیکٹری کے گرد ہزاروں لوگ مجمع لگا کر نظارہ دیکھتے رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ دوزخ کا نظارہ کرنے آئے ہیں۔
آج سے سات برس قبل گیارہ ستمبرکوکراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی۔ اس فیکٹری میں ایک ہی دروازہ ہونے اور حادثات کے وقت کوئی متبادل گیٹ نہ ہونے کی وجہ سے 268 مزدور جل کرکوئلہ بن گئے تھے۔ فیکٹری میں آگ کا شعلہ اپنی بلندیوں کو چھوتا رہا اور دوسری جانب مزدوروں کی آہ وبکا اور چیخ و پکار آسمان کی بلندیوں تک جا رہی تھی۔
فیکٹری کے گرد ہزاروں لوگ مجمع لگا کر نظارہ دیکھتے رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ دوزخ کا نظارہ کرنے آئے ہیں۔ فیکٹری کے اندر سے آوازیں آ رہی تھیں کہ ہمیں بچاؤ مگرکسی نے بھی دیوار توڑکر انھیں بچانے کی تگ ودو نہیں کی۔
ایک ٹرک ڈرائیور نے دیوار کو ٹکر مارکر توڑنا چاہا، لیکن ایک انتظامی افسر نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ شاید ٹرک ڈرائیور پوچھے بغیر دیوار توڑ دیتا تو کچھ مزدور زندہ بچ سکتے تھے، مگر اسے یہ ہمت نہیں ہوئی، اگر وہ ایسا کرگزرتا تو آج مز دوروں کا نجات دہندہ اور ہیرو ہوتا۔ ایسے واقعات مزدوروں کے ساتھ آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔
ڈھاکہ میں رانا پلازہ ، کراچی شپ بریکنگ اورکوئٹہ میں کوئلے کی کان میں دھنس کر مزدوروں کی ہلاکت ایک عام سا واقعہ ہے، اگر صاحب جائیداد طبقات کے لوگ مرتے ہیں تو قومی پرچم سرنگوں کر دیا جاتا ہے، وزراء تعزیت کرتے ہیں، جنازے میں نوکر شاہی اور نامور افراد شرکت کرتے ہیں، قبروں پرگلدستے رکھ کر سلامی دی جاتی ہے مگر مزدوروں کے مرنے پر نہ شہداء کا رتبہ دیا جاتا ہے ، نہ سلامی اور نہ ستارہ جرأت۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی مزدور سب کو پالتے پوستے ہیں ، اگر پیداوار نہ کریں تو سب بھوکے مر جائیں اور انھیں کے مرنے پرکہا جاتا ہے کہ ''مر گئے ''ہاں یہ تو ضرور ہے کہ ان کی شہادت کے بعد این ٹی ایف ، پائیلر اور دیگر مزدور فیڈریشنز نے جدوجہد کے ذریعے مزدوروں کے لواحقین کو معاوضہ دلوایا اور ہر سال شمع بھی روشن کرتے ہیں، گلوکار جواد احمد ان پر انقلا بی گیت لکھے اور لیبر اسکوائر سائیٹ میں گایا بھی۔ اس گیت میںکہا گیا کہ اب ایسا نہ ہونے دیں گے مگر اس کے بعد بھی رانا پلازہ ، کوئٹہ کے کانکن پھر شہید ہوئے۔
ایسا کیوں؟ اس لیے کہ اس طبقاتی نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ تحفظات کی وجہ سے کہیں کم او کہیں زیادہ اموات ہوتی ہیں، مگر مزدور ہر جگہ مرتا ہی رہتا ہے۔ لندن میں ہو، ترکی میں ہو یا چین میں۔ کوئی وزیر، نوکر شاہی یا اعلیٰ افسرکیا کبھی کان میں دب کر، فیکٹری میں پھنس کر یا ماہی گیری کرتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر مرتا ہے؟ کبھی نھیں ، اس لیے کہ ریاست کا وجود ہی صاحب جائیداد طبقات کی تحفظ کے لیے آیا ہے، جب تک ریاست کا وجود ہے۔
اس وقت تک مزدوروں، کسانوں ، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہاں مگر ہم جدوجہد کے ذریعے ان کے کچھ مطالبات منوا سکتے ہیں۔ جیساکہ کراچی شپ بریکنگ ، علی انٹر پرائز ، پورٹ قاسم ، یا نرسیزکے مطالبات وغیرہ، مگر سا نحہ بلدیہ ٹاؤن کے قاتلوں کو سات سال گزرنے کے باوجود سزا نہیں ہوئی۔
ہاں مگر عدالتوں کے ذریعے، میڈیا کے ذریعے اور انٹرنیشنل خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہ پتہ چلتا رہتا ہے کہ فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں رو پے کی بھتہ خوری اور پھر پورے پیسے نہ ملنے سے قاتلوں نے کیمیکل ڈال کر فیکٹری میں آگ لگائی۔ کیسے یہ سب کارروائی ہوئی، کیسے آگ لگائی گئی اورکیسے فرار اختیارکیا گیا اور ملک سے باہرکیسے اسمگل کیا گیا؟ ان کے نام ، پتہ ، تعلق ،کارروائی کے طریقہ کار اور وجوہات، ماسٹر مائنڈ ، سہو لت کار ان سب کے با رے میں عدالتی کارروائی کے ذریعے میڈیا میں تفصیل آ چکی ہے، جو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے کچھ معصوم ، بھولے اور نیک نیت انسان جو اس نظام سے یہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں کہ قاتلوں کو سزا ہو گی اور مزدوروں کے ساتھ اب ایسا نہ ہو گا۔ سات سال گزرگئے ۔ چیف جسٹس بدلتے گئے، وزرائے اعظم بدلتے گئے، وزرائے اعلیٰ بدلتے گئے لیکن مزدوروں کے قاتلوں کو سزا ہوئی اور نہ اب تک قطعی نشاندہی ہوئی کہ قاتل کون ہے اور سہولت کار کون ہے۔
اس موقعے پر جو مزدور رہنما ساری زندگی مزدوروں کے لیے جدوجہد کرتے رہے ، ہم سے جدا ہو گئے ان کا تذکرہ آنا، آج ناگزیر ہے۔ ان میں طفیل عباس ، بی ایم کٹی اور علی یاور جو حال ہی میں ہم مزدوروں سے جدا ہوگئے، وہ انتقال توکرگئے لیکن ان کے کمیونسٹ نظریات اور جدوجہد کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی ادوار یا ہمیشہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور مزدور تحریک سے وابستہ تھے۔ یہ بستر مرگ پہ بھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے شہید مزدوروں کے قاتلوں کی نشان دہی کرتے رہے اور اس انتظار میں رہتے ہوئے کہ کب ان کے قاتلوں کو سزا ہو اس دنیا سے ہی رخصت ہو گئے۔
ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں توکل پاکستان کی مزدور تحریک شکاگوکی مزدور تحریک، وال اسٹریٹ قبضہ تحریک اور آج کی فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک کی طرح پھر یکبار متحرک ہو گی اور اپنے مطالبات منوائے گی۔ جیسا کہ انیس سو اڑسٹھ ، انیس سو بہتر اور تہتر میں منوائے تھے ۔
آج اگر دنیا بھرکے اہم ممالک میں انتہائی رجعتی اور عوام دشمن حکمران عوام پر مسلط ہیں تو ساتھ ساتھ یورپ، افریقہ ، جنوبی امریکا اورایشیا کے عوام اپنے حقوق کی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں، اگر امریکا ، برطانیہ ، بھارت ، پا کستان ، برازیل اور فرانس میں دائیں بازوکی حکومتیں عوام پر مسلط ہیں تو وہاں کے عوام بھی زیر دست عوامی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست ۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالیوں کے پھول کھلیں گے۔
فیکٹری کے گرد ہزاروں لوگ مجمع لگا کر نظارہ دیکھتے رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ دوزخ کا نظارہ کرنے آئے ہیں۔ فیکٹری کے اندر سے آوازیں آ رہی تھیں کہ ہمیں بچاؤ مگرکسی نے بھی دیوار توڑکر انھیں بچانے کی تگ ودو نہیں کی۔
ایک ٹرک ڈرائیور نے دیوار کو ٹکر مارکر توڑنا چاہا، لیکن ایک انتظامی افسر نے ایسا کرنے سے روک دیا۔ شاید ٹرک ڈرائیور پوچھے بغیر دیوار توڑ دیتا تو کچھ مزدور زندہ بچ سکتے تھے، مگر اسے یہ ہمت نہیں ہوئی، اگر وہ ایسا کرگزرتا تو آج مز دوروں کا نجات دہندہ اور ہیرو ہوتا۔ ایسے واقعات مزدوروں کے ساتھ آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔
ڈھاکہ میں رانا پلازہ ، کراچی شپ بریکنگ اورکوئٹہ میں کوئلے کی کان میں دھنس کر مزدوروں کی ہلاکت ایک عام سا واقعہ ہے، اگر صاحب جائیداد طبقات کے لوگ مرتے ہیں تو قومی پرچم سرنگوں کر دیا جاتا ہے، وزراء تعزیت کرتے ہیں، جنازے میں نوکر شاہی اور نامور افراد شرکت کرتے ہیں، قبروں پرگلدستے رکھ کر سلامی دی جاتی ہے مگر مزدوروں کے مرنے پر نہ شہداء کا رتبہ دیا جاتا ہے ، نہ سلامی اور نہ ستارہ جرأت۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی مزدور سب کو پالتے پوستے ہیں ، اگر پیداوار نہ کریں تو سب بھوکے مر جائیں اور انھیں کے مرنے پرکہا جاتا ہے کہ ''مر گئے ''ہاں یہ تو ضرور ہے کہ ان کی شہادت کے بعد این ٹی ایف ، پائیلر اور دیگر مزدور فیڈریشنز نے جدوجہد کے ذریعے مزدوروں کے لواحقین کو معاوضہ دلوایا اور ہر سال شمع بھی روشن کرتے ہیں، گلوکار جواد احمد ان پر انقلا بی گیت لکھے اور لیبر اسکوائر سائیٹ میں گایا بھی۔ اس گیت میںکہا گیا کہ اب ایسا نہ ہونے دیں گے مگر اس کے بعد بھی رانا پلازہ ، کوئٹہ کے کانکن پھر شہید ہوئے۔
ایسا کیوں؟ اس لیے کہ اس طبقاتی نظام میں ایسا ہی ہوتا ہے، یہ تو ہو سکتا ہے کہ کچھ تحفظات کی وجہ سے کہیں کم او کہیں زیادہ اموات ہوتی ہیں، مگر مزدور ہر جگہ مرتا ہی رہتا ہے۔ لندن میں ہو، ترکی میں ہو یا چین میں۔ کوئی وزیر، نوکر شاہی یا اعلیٰ افسرکیا کبھی کان میں دب کر، فیکٹری میں پھنس کر یا ماہی گیری کرتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر مرتا ہے؟ کبھی نھیں ، اس لیے کہ ریاست کا وجود ہی صاحب جائیداد طبقات کی تحفظ کے لیے آیا ہے، جب تک ریاست کا وجود ہے۔
اس وقت تک مزدوروں، کسانوں ، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ہاں مگر ہم جدوجہد کے ذریعے ان کے کچھ مطالبات منوا سکتے ہیں۔ جیساکہ کراچی شپ بریکنگ ، علی انٹر پرائز ، پورٹ قاسم ، یا نرسیزکے مطالبات وغیرہ، مگر سا نحہ بلدیہ ٹاؤن کے قاتلوں کو سات سال گزرنے کے باوجود سزا نہیں ہوئی۔
ہاں مگر عدالتوں کے ذریعے، میڈیا کے ذریعے اور انٹرنیشنل خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہ پتہ چلتا رہتا ہے کہ فیکٹری کے مالکان سے کروڑوں رو پے کی بھتہ خوری اور پھر پورے پیسے نہ ملنے سے قاتلوں نے کیمیکل ڈال کر فیکٹری میں آگ لگائی۔ کیسے یہ سب کارروائی ہوئی، کیسے آگ لگائی گئی اورکیسے فرار اختیارکیا گیا اور ملک سے باہرکیسے اسمگل کیا گیا؟ ان کے نام ، پتہ ، تعلق ،کارروائی کے طریقہ کار اور وجوہات، ماسٹر مائنڈ ، سہو لت کار ان سب کے با رے میں عدالتی کارروائی کے ذریعے میڈیا میں تفصیل آ چکی ہے، جو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام میں رہتے ہوئے کچھ معصوم ، بھولے اور نیک نیت انسان جو اس نظام سے یہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں کہ قاتلوں کو سزا ہو گی اور مزدوروں کے ساتھ اب ایسا نہ ہو گا۔ سات سال گزرگئے ۔ چیف جسٹس بدلتے گئے، وزرائے اعظم بدلتے گئے، وزرائے اعلیٰ بدلتے گئے لیکن مزدوروں کے قاتلوں کو سزا ہوئی اور نہ اب تک قطعی نشاندہی ہوئی کہ قاتل کون ہے اور سہولت کار کون ہے۔
اس موقعے پر جو مزدور رہنما ساری زندگی مزدوروں کے لیے جدوجہد کرتے رہے ، ہم سے جدا ہو گئے ان کا تذکرہ آنا، آج ناگزیر ہے۔ ان میں طفیل عباس ، بی ایم کٹی اور علی یاور جو حال ہی میں ہم مزدوروں سے جدا ہوگئے، وہ انتقال توکرگئے لیکن ان کے کمیونسٹ نظریات اور جدوجہد کوکبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی ادوار یا ہمیشہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور مزدور تحریک سے وابستہ تھے۔ یہ بستر مرگ پہ بھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے شہید مزدوروں کے قاتلوں کی نشان دہی کرتے رہے اور اس انتظار میں رہتے ہوئے کہ کب ان کے قاتلوں کو سزا ہو اس دنیا سے ہی رخصت ہو گئے۔
ہمیں یقین ہے کہ آج نہیں توکل پاکستان کی مزدور تحریک شکاگوکی مزدور تحریک، وال اسٹریٹ قبضہ تحریک اور آج کی فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک کی طرح پھر یکبار متحرک ہو گی اور اپنے مطالبات منوائے گی۔ جیسا کہ انیس سو اڑسٹھ ، انیس سو بہتر اور تہتر میں منوائے تھے ۔
آج اگر دنیا بھرکے اہم ممالک میں انتہائی رجعتی اور عوام دشمن حکمران عوام پر مسلط ہیں تو ساتھ ساتھ یورپ، افریقہ ، جنوبی امریکا اورایشیا کے عوام اپنے حقوق کی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں، اگر امریکا ، برطانیہ ، بھارت ، پا کستان ، برازیل اور فرانس میں دائیں بازوکی حکومتیں عوام پر مسلط ہیں تو وہاں کے عوام بھی زیر دست عوامی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست ۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالیوں کے پھول کھلیں گے۔