ایران میں آزادیٔ نسواں کی گونج
کیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کے لیے چیخنے والی زبانیں ایران پر آکر خاموش ہوجاتی ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ آئے دن ایران میں عورتوں کے حقوق کے نام پر افراتفری اور ہلچل مچی رہتی ہے؟ آخرکیوں ایران میں عورتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی برتی جا رہی ہے اورکیا وجہ ہے کہ پوری دنیا میں عورتوں کے حقوق کے لیے چیخنے والی زبانیں ایران پر آکر خاموش ہوجاتی ہیں؟ آخر ایران کی سڑکوں پر اس وقت بھی عورتیں اپنے کس بنیادی حق کے لیے سر پھوڑرہی ہیں ؟ خود کو یوںرول رہی ہیں۔ جیلوں میں ٹھونسی اور گھروں میں نظربندکی جارہی ہیں۔ عمر قید اورکوڑوں کی سزا وار بنائی جا رہی ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے کی ہی تو بات ہے کہ سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ کی اجازت پر شادیانے بجائے جا رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ خوشی کی خبر بھی اس لیے باعثِ افسوس تھی کہ بھلا کب تک عورتوں کو اپنے ایک ایک حق کی خاطر یوں طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنی پڑے گی؟ لیکن دنیا دیرآید درست آید کے مقولے کے تحت خوشیاں منا رہی تھی کہ چلو بہت دیر سے سہی،ایک اور نسوانی حق تو تسلیم ہوا۔
لیکن ایران میں عورتیں اپنے جن جن بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پریشانیاں اٹھا رہی ہیں انھیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ابھی ایران میں عورتوں کے مکمل حقوق کی فراہمی کا جشن دور بلکہ شاید بہت زیادہ دور ہے۔ یہاں دیر آیدکا مقولہ مستقبل بعید میں بھی استعمال ہونا ممکن نہیں لگتا۔
حقوقِ نسواں کے ضمن میں ایران کو موضوع بحث بنانے کی وجہ زبانِ خلق نہیں،کیوں کہ زبانیں اکثر مذہبی، مسلکی،گروہی،سرحدی اورسفارتی تعصبات میں لپٹ کر غیر جانبدار نہیں رہتیں۔ ایرانی عورتوں کے حقوق پر قلم گھسیٹنے کی وجہ تو وہ کہانیاں ہیں جو ایران کی سرحدوں سے پروازکرتی باہر آرہی ہیں۔ یہ کہانیاں دوچارکی تعداد میں ہوتیں تو انھیں میں ایران دشمن عناصرکا منفی پروپیگنڈا سمجھ کر نظر انداز کردیتی ، نیا موضوع ڈھونڈتی اور الفاظ سے تحریرکا پیٹ بھرتی، لیکن کیا کروں اس موضوع پر ذرا سی تحقیق نے ہی وہ راز افشا کیے کہ اگر ان پہ قلم نہ اٹھاؤں تو یہ عورتوں کے پورے قبیلے سے بغاوت ہوگی۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ ایران میں حقوقِ انسانی کی مشہور وکیل اور حقوق نسواں کی علم بردار نسرین ستودہ کو اڑتیس سال قید اور ایک سو اڑتالیس کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے ایران میں حجاب کے لازمی استعمال کے خلاف ہونے والے مظاہرے کی قیادت کی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر ذیلی سرخیوں میں تھی اور اس کی گونج زبانوں سے لے کر چینلوں تک کہیں نہ تھی۔ دنیا کے ہرکونے میں ظلم کی مذمت کرنے والے چیدہ چیدہ لوگ بھی اس پر خاموش نظر آئے۔ یہ سزا اسلام کے نام پر سنائی گئی، پھر بھی دنیا بھر سے کسی عالم ِ دین کی چوںتک نہ سنائی دی۔ نسرین ستودہ کی خبرکے بعد یوں خاموشی طاری رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
اس بات سے کون واقف نہیں کہ ایران کے تاریخی انقلاب میں ، ایرانی عورتوں نے برابر کی ذمے داری نبھائی تھی لیکن افسوس انھیں اپنے ہی ملک میں امتیازی رویوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ شاہ سے آزادی لینے والے ایران میں اب بھی عورتیں حقیقی آزادی کے لیے ترس رہی ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ چالیس سال کے عرصے کے مقابلے میں اس وقت ایران میں عورتوں کے حقوق پر سب سے زیادہ تحفظات موجود ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انقلابِ ایران کے بعدلازمی ڈریس کوڈ بنایا جانے والا حجاب اب عورتوں کی برداشت کی حدوں کو چھوچکا ہے۔
2017ء سے جاری کردہ مہمwhite wednesday میں حصہ لینے والی عورتوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایرانی عورتیںخود کو حجاب کی پابندی سے آزاد کروا کے اس گھٹن سے باہر آنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مہم میں حصہ لینے والی عورتوں کو منتشرکرنے کے لیے نہ صرف بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے بلکہ گرفتارکی جانے والی خواتین کے ساتھ خطرناک مجرموں جیسا سلوک بھی کیا جاتا ہے ، حتی کہ انھیں وکیل تک رسائی بھی نہیں دی جاتی۔ ٹوئٹرکی ایک ایرانی صارف خاتون یاسمین محمدکا کہنا ہے کہ ایک ایسی صبح کا تصورکیجیے جب آپ اٹھیں تو یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں کہ آپ کو پہننا کیا ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ یہ تصور آپ سب کے لیے بے شک حقیقی ہے لیکن ایرانی عورتوں کے لیے نہیں، کیوں کہ ان کے جسم ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔
اس وقت بھی دس ایرانی عورتیں حجاب کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں قیدکی سزا ئیں بھگت رہی ہیں۔ جن میں سے چھے کو ایک سو نو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وائٹ ویڈنس ڈے مہم میں شامل ایرانی عورتیں پوری دنیا کی خواتین سے اپیل کر رہی ہیں کہ وہ ان کی حمایت کریں تاکہ عورتوں کو اس جبری حجاب سے آزادی حاصل ہو سکے۔ انقلابِ ایران کے بعد ایرانی عورتوں کے اوپر ایک اور پابندی کا اطلاق کیا گیا۔
جس میں ان کی فٹ بال کا میچ اسٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کی ممانعت تھی۔گزشتہ سال فیفا کی مداخلت سے ایرانی عورتوں پر سے اس پابندی کو ہٹا تو لیا گیا لیکن معاشرہ اور ریاست اب تک عورتوں کے اس حق کو تسلیم نہ کرسکے اور ان کے اسٹیڈیم میں داخلے کو شوہر کی موجودگی کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔
اسی وجہ سے حالیہ فیفا ورلڈ کپ میںایران اور شام کے درمیان ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں داخل ہونے والی خواتین کو سیکیورٹی عملے نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ٹکٹس بھی چھینے،اس کے بر خلاف شامی عورتوں نے بنا کسی رکاوٹ کے میچ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ رواں سال فرانس میں ہونے والے فیفا وومن ورلڈکپ کے مقابلے میں ایشیا کی چیمئین شپ جیتنے کے باوجود ایرانی خواتین کھلاڑیوں کو شرکت سے روک دیا گیا۔
سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ایران میں خواتین کے کھیلوں کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک خبر جوچار ستمبرکے اخبارات میں شایع ہوئی وہ یہ تھی کہ والی بال مقابلے کو دیکھنے کے شوق میں سحر نامی ایک ایرانی عورت مرد کے بھیس میں اسٹیڈیم میں داخل ہوتے وقت پکڑی گئی ، اس پر مقدمہ چلا اور اسے عدالت نے چھے ماہ کی قید کی سزا سنائی ۔ اس عورت نے سزا سننے کے بعد احاطہ عدالت میں ہی خود کو آگ لگا لی، جس سے اس کے جسم کا نوے فی صد حصہ جھلس گیا ، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔کھیلوں سے ہٹ کر ایرانی سیاست کی بات کریں تو اس میدان میں بھی خواتین کی نمائندگی شرم ناک حد تک کم ہے۔
یہ جاننے کے باوجود کہ ایران کے انقلابی قوانین عورتوں کے لیے کیا حدود مقرر کرتے ہیں ، ایرانی عورتیں ان پابندیوں سے باہر آنے کے لیے تمام خطرات مول لے رہی ہیں۔ وہ کبھی موٹر سائیکل پر سواری کرتی پکڑی جاتی ہیں،کبھی سائیکل چلاتے ہوئے گرفتار ہوتی ہیں تو کبھی پھٹی ہوئی جینز پہننے کے جرم میں پولیس کی طرف سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
قوانین کی خلاف ورزی پرکڑی سزائیں مقرر ہونے کے باوجود ایرانی عورتیں قوانین توڑنے پر تیارہیں۔کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنی زندگی کو ریاست کے بجائے اپنی مرضی کا تابع بنانا چاہتی ہیں۔اسی خواہش میں وائٹ ویڈنس ڈے مہم کے تحت اب تک دو سو سے زائد ویڈیو منظر عام پر آچکی ہیں جو ایرانی عورتوں نے حجاب کے بٖغیر سڑکوں پر گھومتے ہوئے خود بنائی ہیں ، یہ ویڈیوز پانچ لاکھ سے زائد صارفین تک مختلف ذرایع سے پہنچ چکی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی عورتیں اپنے اس بنیادی حق کے حصول کی خاطر اب کوئی بھی رسک اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
یعنی یہ اب تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی عورت پابندیوں سے باہر آنے کے لیے بے تاب ہے۔اس کی خواہش بے حجاب ہونا نہیں بلکہ یہ اپنی مرضی سے اوڑھنا پہننا اور جینا چاہتی ہے۔ حجاب علامت ہے حیا کی، لیکن قانون کے تحت اس کا اطلاق اسے جبرکی علامت بنا دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی عورتیں اندرکہیں اس بات کی خواہش رکھتی ہیں کہ جبرکا وہ دور کبھی لوٹ کر نہ آئے جس نے انھیں بڑے بڑے برقعوں میں زبردستی قید کر دیا تھا۔اس بات سے بھلا کس کو انکار ہے کہ حجاب عورت اپنی رضا سے کرے تو یہی اس کی طاقت اور معاشرے کی خوبصورتی بن جائے گا دوسری صورت میں وہی ہوگا جو اس وقت ایران کی سڑکوں پرہو رہا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے کی ہی تو بات ہے کہ سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ کی اجازت پر شادیانے بجائے جا رہے تھے۔ میرے نزدیک یہ خوشی کی خبر بھی اس لیے باعثِ افسوس تھی کہ بھلا کب تک عورتوں کو اپنے ایک ایک حق کی خاطر یوں طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنی پڑے گی؟ لیکن دنیا دیرآید درست آید کے مقولے کے تحت خوشیاں منا رہی تھی کہ چلو بہت دیر سے سہی،ایک اور نسوانی حق تو تسلیم ہوا۔
لیکن ایران میں عورتیں اپنے جن جن بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پریشانیاں اٹھا رہی ہیں انھیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ابھی ایران میں عورتوں کے مکمل حقوق کی فراہمی کا جشن دور بلکہ شاید بہت زیادہ دور ہے۔ یہاں دیر آیدکا مقولہ مستقبل بعید میں بھی استعمال ہونا ممکن نہیں لگتا۔
حقوقِ نسواں کے ضمن میں ایران کو موضوع بحث بنانے کی وجہ زبانِ خلق نہیں،کیوں کہ زبانیں اکثر مذہبی، مسلکی،گروہی،سرحدی اورسفارتی تعصبات میں لپٹ کر غیر جانبدار نہیں رہتیں۔ ایرانی عورتوں کے حقوق پر قلم گھسیٹنے کی وجہ تو وہ کہانیاں ہیں جو ایران کی سرحدوں سے پروازکرتی باہر آرہی ہیں۔ یہ کہانیاں دوچارکی تعداد میں ہوتیں تو انھیں میں ایران دشمن عناصرکا منفی پروپیگنڈا سمجھ کر نظر انداز کردیتی ، نیا موضوع ڈھونڈتی اور الفاظ سے تحریرکا پیٹ بھرتی، لیکن کیا کروں اس موضوع پر ذرا سی تحقیق نے ہی وہ راز افشا کیے کہ اگر ان پہ قلم نہ اٹھاؤں تو یہ عورتوں کے پورے قبیلے سے بغاوت ہوگی۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ ایران میں حقوقِ انسانی کی مشہور وکیل اور حقوق نسواں کی علم بردار نسرین ستودہ کو اڑتیس سال قید اور ایک سو اڑتالیس کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے ایران میں حجاب کے لازمی استعمال کے خلاف ہونے والے مظاہرے کی قیادت کی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ خبر ذیلی سرخیوں میں تھی اور اس کی گونج زبانوں سے لے کر چینلوں تک کہیں نہ تھی۔ دنیا کے ہرکونے میں ظلم کی مذمت کرنے والے چیدہ چیدہ لوگ بھی اس پر خاموش نظر آئے۔ یہ سزا اسلام کے نام پر سنائی گئی، پھر بھی دنیا بھر سے کسی عالم ِ دین کی چوںتک نہ سنائی دی۔ نسرین ستودہ کی خبرکے بعد یوں خاموشی طاری رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
اس بات سے کون واقف نہیں کہ ایران کے تاریخی انقلاب میں ، ایرانی عورتوں نے برابر کی ذمے داری نبھائی تھی لیکن افسوس انھیں اپنے ہی ملک میں امتیازی رویوں کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ شاہ سے آزادی لینے والے ایران میں اب بھی عورتیں حقیقی آزادی کے لیے ترس رہی ہیں۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ چالیس سال کے عرصے کے مقابلے میں اس وقت ایران میں عورتوں کے حقوق پر سب سے زیادہ تحفظات موجود ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انقلابِ ایران کے بعدلازمی ڈریس کوڈ بنایا جانے والا حجاب اب عورتوں کی برداشت کی حدوں کو چھوچکا ہے۔
2017ء سے جاری کردہ مہمwhite wednesday میں حصہ لینے والی عورتوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایرانی عورتیںخود کو حجاب کی پابندی سے آزاد کروا کے اس گھٹن سے باہر آنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مہم میں حصہ لینے والی عورتوں کو منتشرکرنے کے لیے نہ صرف بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے بلکہ گرفتارکی جانے والی خواتین کے ساتھ خطرناک مجرموں جیسا سلوک بھی کیا جاتا ہے ، حتی کہ انھیں وکیل تک رسائی بھی نہیں دی جاتی۔ ٹوئٹرکی ایک ایرانی صارف خاتون یاسمین محمدکا کہنا ہے کہ ایک ایسی صبح کا تصورکیجیے جب آپ اٹھیں تو یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں کہ آپ کو پہننا کیا ہے۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ یہ تصور آپ سب کے لیے بے شک حقیقی ہے لیکن ایرانی عورتوں کے لیے نہیں، کیوں کہ ان کے جسم ریاست کے کنٹرول میں ہیں۔
اس وقت بھی دس ایرانی عورتیں حجاب کے خلاف آواز اٹھانے کے جرم میں قیدکی سزا ئیں بھگت رہی ہیں۔ جن میں سے چھے کو ایک سو نو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وائٹ ویڈنس ڈے مہم میں شامل ایرانی عورتیں پوری دنیا کی خواتین سے اپیل کر رہی ہیں کہ وہ ان کی حمایت کریں تاکہ عورتوں کو اس جبری حجاب سے آزادی حاصل ہو سکے۔ انقلابِ ایران کے بعد ایرانی عورتوں کے اوپر ایک اور پابندی کا اطلاق کیا گیا۔
جس میں ان کی فٹ بال کا میچ اسٹیڈیم میں جا کر دیکھنے کی ممانعت تھی۔گزشتہ سال فیفا کی مداخلت سے ایرانی عورتوں پر سے اس پابندی کو ہٹا تو لیا گیا لیکن معاشرہ اور ریاست اب تک عورتوں کے اس حق کو تسلیم نہ کرسکے اور ان کے اسٹیڈیم میں داخلے کو شوہر کی موجودگی کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔
اسی وجہ سے حالیہ فیفا ورلڈ کپ میںایران اور شام کے درمیان ہونے والے میچ کو دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں داخل ہونے والی خواتین کو سیکیورٹی عملے نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ٹکٹس بھی چھینے،اس کے بر خلاف شامی عورتوں نے بنا کسی رکاوٹ کے میچ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ رواں سال فرانس میں ہونے والے فیفا وومن ورلڈکپ کے مقابلے میں ایشیا کی چیمئین شپ جیتنے کے باوجود ایرانی خواتین کھلاڑیوں کو شرکت سے روک دیا گیا۔
سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ایران میں خواتین کے کھیلوں کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک خبر جوچار ستمبرکے اخبارات میں شایع ہوئی وہ یہ تھی کہ والی بال مقابلے کو دیکھنے کے شوق میں سحر نامی ایک ایرانی عورت مرد کے بھیس میں اسٹیڈیم میں داخل ہوتے وقت پکڑی گئی ، اس پر مقدمہ چلا اور اسے عدالت نے چھے ماہ کی قید کی سزا سنائی ۔ اس عورت نے سزا سننے کے بعد احاطہ عدالت میں ہی خود کو آگ لگا لی، جس سے اس کے جسم کا نوے فی صد حصہ جھلس گیا ، جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔کھیلوں سے ہٹ کر ایرانی سیاست کی بات کریں تو اس میدان میں بھی خواتین کی نمائندگی شرم ناک حد تک کم ہے۔
یہ جاننے کے باوجود کہ ایران کے انقلابی قوانین عورتوں کے لیے کیا حدود مقرر کرتے ہیں ، ایرانی عورتیں ان پابندیوں سے باہر آنے کے لیے تمام خطرات مول لے رہی ہیں۔ وہ کبھی موٹر سائیکل پر سواری کرتی پکڑی جاتی ہیں،کبھی سائیکل چلاتے ہوئے گرفتار ہوتی ہیں تو کبھی پھٹی ہوئی جینز پہننے کے جرم میں پولیس کی طرف سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
قوانین کی خلاف ورزی پرکڑی سزائیں مقرر ہونے کے باوجود ایرانی عورتیں قوانین توڑنے پر تیارہیں۔کیوں؟ صرف اس لیے کہ وہ اپنی زندگی کو ریاست کے بجائے اپنی مرضی کا تابع بنانا چاہتی ہیں۔اسی خواہش میں وائٹ ویڈنس ڈے مہم کے تحت اب تک دو سو سے زائد ویڈیو منظر عام پر آچکی ہیں جو ایرانی عورتوں نے حجاب کے بٖغیر سڑکوں پر گھومتے ہوئے خود بنائی ہیں ، یہ ویڈیوز پانچ لاکھ سے زائد صارفین تک مختلف ذرایع سے پہنچ چکی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی عورتیں اپنے اس بنیادی حق کے حصول کی خاطر اب کوئی بھی رسک اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
یعنی یہ اب تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی عورت پابندیوں سے باہر آنے کے لیے بے تاب ہے۔اس کی خواہش بے حجاب ہونا نہیں بلکہ یہ اپنی مرضی سے اوڑھنا پہننا اور جینا چاہتی ہے۔ حجاب علامت ہے حیا کی، لیکن قانون کے تحت اس کا اطلاق اسے جبرکی علامت بنا دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی عورتیں اندرکہیں اس بات کی خواہش رکھتی ہیں کہ جبرکا وہ دور کبھی لوٹ کر نہ آئے جس نے انھیں بڑے بڑے برقعوں میں زبردستی قید کر دیا تھا۔اس بات سے بھلا کس کو انکار ہے کہ حجاب عورت اپنی رضا سے کرے تو یہی اس کی طاقت اور معاشرے کی خوبصورتی بن جائے گا دوسری صورت میں وہی ہوگا جو اس وقت ایران کی سڑکوں پرہو رہا ہے۔