جوڈیشل کمیشن نے حسین حقانی کو میمو اسکینڈل کا ذمے دار قرار دیا

مقدمے کی آخری سماعت رواں برس 3 جون کو ہوئی تھی، 23 ماہ گزرنے کے باوجود زیرالتوا میمو گیٹ کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا

سابق سفیر حسین حقانی میمو کیس میں سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ میںایک سال اور 11ماہ سے زیر التوا میمو گیٹ کیس کا فیصلہ تاحال نہیں ہوسکا۔

مقدمے کی آخری سماعت اس سال 3جون کوہوئی تھی اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 9رکنی لارجربینچ نے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ امریکا میںپاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو ملک واپس لانے کے لیے تمام قانونی ذرائع استعمال کیے جائیں اوراگلی سماعت پر انکی موجود گی کو یقینی بنایا جائے تاہم عدالت کے حکم کے باوجود انھیں لانے کے لیے ابھی تک ڈپلومیٹک چینل استعمال نہیںکیے گئے ۔حسین حقانی عدالت عظمیٰ میں بیان حلفی جمع کراکر ملک سے باہر گئے تھے جس میں انھوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ عدالت کے نوٹس پر 4 دن کے اندرملک واپس آجائیں گے تاہم عدالت کے بار بار احکامات کے باوجود وہ واپس نہیں آئے، اپنی وکیل عاصمہ جہانگیر کے ذریعے جمع کرائے گئے ایک جواب میں انھوں نے آنے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیا کیاکہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے اور ناکردہ گناہ کے لیے وہ اپنی جان کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے۔




وزارت داخلہ نے انھیں ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کرنے اور ایئر پورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر لانے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن حسین حقانی ہر حالات میں پاکستان آنے سے انکاری ہیں۔میمو اسکینڈل اس وقت منظرعام پر آیا تھاجب امریکی شہری منصور اعجاز کا ایک آرٹیکل اکتوبر 2011میں فنانشل ٹائمز میں شائع ہواجس میں انھوں نے دعوٰی کیا تھا کہ 2 مئی 2011کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد حکومت پاکستان شدید دبائو میں تھی اور فوج حکومت گرانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، اس ضمن میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر حسین حقانی نے امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو ایک میمورنڈم لکھا جس میںپاک فوج کو کسی مہم جوئی سے روکنے کے لیے کہا گیا تھا۔



منصوراعجازنے دعویٰ کیا تھا کہ میمو انھوں نے امریکی نیشنل سیکیورٹی کے ایڈوائزر جنرل جیمز جونز کے ذریعے مائیک مولن تک پہنچایا تھا،اس آرٹیکل کے شائع ہونے کے بعد پاکستان میں ایک بحث شروع ہوئی اور اس میں شدت اس وقت پید اہوئی جب موجودہ وزیر اعظم اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف میاں محمد نواز شریف اس معاملہ کو عدالت عظمیٰ میں لے گئے۔صدر مملکت نے حسین حقانی کو طلب کیا اور 22 نومبر 2011کو ایوان صدر میں ایک اجلاس ہواجس میںاس وقت کے صدرزرداری،وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی،چیف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا شریک تھے۔ اس اجلاس میں حسین حقانی سے انکوائری ہوئی،سپریم کورٹ نے نواز شریف کی درخواست پر جوڈیشل انکوائری کمیشن قائم کیا ،کمیشن نے 12جون 2012کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کر ادی اورمیمو کو درست قراردیتے ہوئے تمام ترذمہ داری حسین حقانی پر عائد کر دی۔ عدالت عظمٰی نے فیصلہ کرنے سے پہلے حسین حقانی کوصفائی کا موقع دیتے ہوئے انھیں طلب کیا لیکن وہ پیش ہونے سے انکاری ہیں ۔

Recommended Stories

Load Next Story