پشاور رواں سال دہشتگردی کے 61 واقعات 280 افراد لقمہ اجل بنے
گذشتہ8 دن میں دہشت گردی کے3 انتہائی خوفناک واقعات میں 150 سے زائد افرادجاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے
رواں سال 2013ء دہشت گردی کے حوالے سے پشاور پر انتہائی بھاری ثابت ہورہا ہے، خاص طور پر ستمبرکے آخری عشرے نے تو قیامت ہی ڈھادی۔
گذشتہ8 دن میں دہشت گردی کے3 انتہائی خوفناک واقعات میں 150 سے زائد افرادجاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔مجموعی طور پر رواں سال پشاورشہر اور مضافات میں اب تک دہشت گردی کے چھوٹے بڑے61 واقعات ہوئے ہیں جن میں280افراد جاں بحق اور650 سے زیادہ زخمی ہوئے۔دوسری جانب وفاق و صوبائی حکومتوں کی طرف سے مذمتوں اور ایک دوسرے پر برتری لے جانے کیلیے الزام تراشیوں کا سلسلہ زوروں پر رہا۔ اعدادوشمار کے مطابق پہلا دھماکا2 جنوری کو ہوا جس میں5 افراد زخمی ہوئے۔ 4 جنوری کو بڈھ بیر دھماکے میں 2 افراد لقمہ اجل بنے۔ 18فروری کو پشاور صدر میں خود کش دھماکے میں8 جاں بحق اور5 زخمی ہوئے۔21 فروری کو ہشت نگری مارکیٹ میں دھماکے سے2افراد مارے گئے،17زخمی ہوئے۔ 9مارچ کو مسجد میں دھماکے سے6 جاں بحق اور30 زخمی ہوئے۔
19 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس دھماکے میں5 افراد کی زندگیاں گئیں جبکہ49 زخمی ہوئے۔29 مارچ کو دھماکے میں12 ہلاک اور35 زخمی ہوئے۔13اپریل کو متنی میں9 افراد کی جانیں گئیں۔16 اپریل کو منڈابیری دھماکا کیا گیا جس میں16جاں بحق ، 35 زخمی ہوئے۔ 29 اپریل کو یونیورسٹی روڈ پر11 افراد نشانہ بنے۔8 مئی کو رشید گڑھی، 12مئی کو بڈھ بیر،16 مئی کو کوہاٹ روڈ،24 مئی کو سعید آباد اور28 مئی کو امامیہ کالونی میں دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 18جانیں ضائع ہوئیں۔21 جون کوگلشن کالونی دھماکے سے16جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے۔30 جون کو بڈھ بیر دھماکے میں 18افراد لقمہ اجل بنے اور46 زخمی ہوئے۔22 ستمبر کو کوہاٹی گیٹ چرچ میں2 خود کش دھماکوں میں85 لقمہ اجل اور145 زخمی ہوئے۔27 ستمبر کو چارسدہ روڈ پر سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکیسے19 افراد جان سے گئے جبکہ گزشتہ روز قصہ خوانی پھر دھماکے سے لرز اٹھا اور 40سے زائد افراد مارے گئے۔
گذشتہ8 دن میں دہشت گردی کے3 انتہائی خوفناک واقعات میں 150 سے زائد افرادجاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔مجموعی طور پر رواں سال پشاورشہر اور مضافات میں اب تک دہشت گردی کے چھوٹے بڑے61 واقعات ہوئے ہیں جن میں280افراد جاں بحق اور650 سے زیادہ زخمی ہوئے۔دوسری جانب وفاق و صوبائی حکومتوں کی طرف سے مذمتوں اور ایک دوسرے پر برتری لے جانے کیلیے الزام تراشیوں کا سلسلہ زوروں پر رہا۔ اعدادوشمار کے مطابق پہلا دھماکا2 جنوری کو ہوا جس میں5 افراد زخمی ہوئے۔ 4 جنوری کو بڈھ بیر دھماکے میں 2 افراد لقمہ اجل بنے۔ 18فروری کو پشاور صدر میں خود کش دھماکے میں8 جاں بحق اور5 زخمی ہوئے۔21 فروری کو ہشت نگری مارکیٹ میں دھماکے سے2افراد مارے گئے،17زخمی ہوئے۔ 9مارچ کو مسجد میں دھماکے سے6 جاں بحق اور30 زخمی ہوئے۔
19 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس دھماکے میں5 افراد کی زندگیاں گئیں جبکہ49 زخمی ہوئے۔29 مارچ کو دھماکے میں12 ہلاک اور35 زخمی ہوئے۔13اپریل کو متنی میں9 افراد کی جانیں گئیں۔16 اپریل کو منڈابیری دھماکا کیا گیا جس میں16جاں بحق ، 35 زخمی ہوئے۔ 29 اپریل کو یونیورسٹی روڈ پر11 افراد نشانہ بنے۔8 مئی کو رشید گڑھی، 12مئی کو بڈھ بیر،16 مئی کو کوہاٹ روڈ،24 مئی کو سعید آباد اور28 مئی کو امامیہ کالونی میں دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 18جانیں ضائع ہوئیں۔21 جون کوگلشن کالونی دھماکے سے16جاں بحق اور 25 زخمی ہوئے۔30 جون کو بڈھ بیر دھماکے میں 18افراد لقمہ اجل بنے اور46 زخمی ہوئے۔22 ستمبر کو کوہاٹی گیٹ چرچ میں2 خود کش دھماکوں میں85 لقمہ اجل اور145 زخمی ہوئے۔27 ستمبر کو چارسدہ روڈ پر سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکیسے19 افراد جان سے گئے جبکہ گزشتہ روز قصہ خوانی پھر دھماکے سے لرز اٹھا اور 40سے زائد افراد مارے گئے۔