بلوچستان کے مسلح علیحدگی پسند امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ
شدید متاثرہ علاقوں میں رسائی نہ ہونے سے نقصانات کا درست تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکا
بلوچستان کے مسلح علیحدگی پسندوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پرکیے جانے والے حملے لاکھوں زلزلہ متاثرین تک امدادکی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
بلوچ قوم پرست جماعتیں بدترین حالات میں بھی سیزفائرکیلیے تیار نہیں ، شدید متاثرہ علاقوں میں ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسزکوبھی رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب تاحال نقصانات کادرست تخمینہ بھی نہیں لگایاجاسکا ہے، فلاحی ادارے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اپنی سرگرمیاں محدودرکھنے پرمجبورہیں۔ بلوچستان کے ضلع آواران کاشمارصوبے کے پسماندہ ترین ضلعوں میں کیا جاتاہے اورگزشتہ چند سال کے دوران مسلح علیحدگی پسندوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسزپرحملوں کے بعد اس علاقے کو بلوچستان کے دیگرچند اضلاع کی طرح غیربلوچ پاکستانیوںکیلیے انتہائی خطرناک تصورکیاجاتاہے،بلوچ علیحدگی پسنداس ساری صورتحال کی ذمے داری سیکیورٹی فورسزکوقرار دیتے ہیں۔
24 ستمبرکوپاکستان کے بیشتر حصوں میں محسوس کیے جانے والے طاقتورزلزلے کے بعدصحافیوں نے بلوچستان کے شدیدمتاثرہ ضلع آواران جانے کا فیصلہ کیا توایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس فیصلے کی مخالفت کی تاہم صحافیوں نے ہرصورت جانے کا فیصلہ کیا تاہم معاملے کی سنگینی کاپہلا درست اندازہ اس وقت ہوا جب کراچی سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پرضلع بیلہ میں جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے رضاکار اپنی گاڑیوں پرچھپے لفظ پاکستان پراسپرے کرتے دکھائی دیے، جب ان سے دریافت کیاکہ وہ ایساکیوں کررہے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ان کے مقامی کارکنوں نے ایسا کرنے کا مشورہ دیاہے کیونکہ انھیں بتایا گیاہے کہ آواران میں لفظ پاکستان اگرگاڑی پر لکھا ہوگا تو اس پرعلیحدگی پسند حملہ کرسکتے ہیں، بیلہ سے آواران کیلیے سفرپرفرنٹیئر کانسٹیبلری کی پہلی چیک پوسٹ پرصحافیوں ناموں کے اندراج کے بعداہلکار نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی گاڑیاں آدھے کلومیٹرکے فاصلے سے چلائیں وجہ پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک گاڑی پرحملہ ہوا توکم از کم دوسری گاڑی محفوظ رہے گی۔
اس ساری صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے بیلہ میں ملنے والے کوئٹہ کے چندصحافی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنی کار کو کراچی واپس بھیج دیں اورمقامی لوگوں کی جانب سے سفر کیلیے استعمال کی جانے والی ان کی ہائی ایس میں سوار ہوجائیں جس کا ڈرائیور بھی مقامی بلوچ تھا،راستے میں ایف سی کے اہلکار شدید دھوپ میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعینات دکھائی دیے، ساڑھے 3گھنٹے بعد آواران میں داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ ضلعی سطح کا ایک اسپتال 3 ڈاکٹروں اور ایکسرے مشین، پیرامیڈیکل اسٹاف، ادویہ اور لیبارٹری کے بغیر بھی چلایا جاسکتا ہے، ڈپٹی کمشنر آواران کے دفتر میں سیکڑوں مظاہرین امداد نہ ملنے پر احتجاج کررہے تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر آفس کے گودام پاکستان آرمی اور مختلف سیاسی و فلاحی اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد سے بھرے ہوئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر عبدالرشید نے بتایاکہا کہ وہ اب تک امدادی اشیا پانچ مختلف مقامات پر روانہ کرچکے ہیں تاہم وہ ان مقامات کے نام بتانے سے قاصر تھے،علیحدگی پسندبلوچ قوم پرستوں کاموقف تھاکہ وہ کسی بھی حالت میں ایف سی اورفوج کے ساتھ سیزفائرنہیں کریںگے انھوں نے اعلان کیا کہ فلاحی ادارے اپنی سرگرمیاں اسی صورت میں کرسکتے ہیں اگر وہ سیکیورٹی فورسز کی مددحاصل نہ کریں، علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر امدادی سرگرمیاں تاحال صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہیں،ضرورت اس امرکی ہے کہ فوری طورسیز فائرکااعلان کیاجائے تاہم علیحدگی پسنداس معاملے پر تیاردکھائی نہیں دیتے۔
بلوچ قوم پرست جماعتیں بدترین حالات میں بھی سیزفائرکیلیے تیار نہیں ، شدید متاثرہ علاقوں میں ڈسٹرکٹ انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسزکوبھی رسائی حاصل نہ ہونے کے سبب تاحال نقصانات کادرست تخمینہ بھی نہیں لگایاجاسکا ہے، فلاحی ادارے اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی اپنی سرگرمیاں محدودرکھنے پرمجبورہیں۔ بلوچستان کے ضلع آواران کاشمارصوبے کے پسماندہ ترین ضلعوں میں کیا جاتاہے اورگزشتہ چند سال کے دوران مسلح علیحدگی پسندوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسزپرحملوں کے بعد اس علاقے کو بلوچستان کے دیگرچند اضلاع کی طرح غیربلوچ پاکستانیوںکیلیے انتہائی خطرناک تصورکیاجاتاہے،بلوچ علیحدگی پسنداس ساری صورتحال کی ذمے داری سیکیورٹی فورسزکوقرار دیتے ہیں۔
24 ستمبرکوپاکستان کے بیشتر حصوں میں محسوس کیے جانے والے طاقتورزلزلے کے بعدصحافیوں نے بلوچستان کے شدیدمتاثرہ ضلع آواران جانے کا فیصلہ کیا توایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس فیصلے کی مخالفت کی تاہم صحافیوں نے ہرصورت جانے کا فیصلہ کیا تاہم معاملے کی سنگینی کاپہلا درست اندازہ اس وقت ہوا جب کراچی سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پرضلع بیلہ میں جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے رضاکار اپنی گاڑیوں پرچھپے لفظ پاکستان پراسپرے کرتے دکھائی دیے، جب ان سے دریافت کیاکہ وہ ایساکیوں کررہے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ان کے مقامی کارکنوں نے ایسا کرنے کا مشورہ دیاہے کیونکہ انھیں بتایا گیاہے کہ آواران میں لفظ پاکستان اگرگاڑی پر لکھا ہوگا تو اس پرعلیحدگی پسند حملہ کرسکتے ہیں، بیلہ سے آواران کیلیے سفرپرفرنٹیئر کانسٹیبلری کی پہلی چیک پوسٹ پرصحافیوں ناموں کے اندراج کے بعداہلکار نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی گاڑیاں آدھے کلومیٹرکے فاصلے سے چلائیں وجہ پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک گاڑی پرحملہ ہوا توکم از کم دوسری گاڑی محفوظ رہے گی۔
اس ساری صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے بیلہ میں ملنے والے کوئٹہ کے چندصحافی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنی کار کو کراچی واپس بھیج دیں اورمقامی لوگوں کی جانب سے سفر کیلیے استعمال کی جانے والی ان کی ہائی ایس میں سوار ہوجائیں جس کا ڈرائیور بھی مقامی بلوچ تھا،راستے میں ایف سی کے اہلکار شدید دھوپ میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعینات دکھائی دیے، ساڑھے 3گھنٹے بعد آواران میں داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ ضلعی سطح کا ایک اسپتال 3 ڈاکٹروں اور ایکسرے مشین، پیرامیڈیکل اسٹاف، ادویہ اور لیبارٹری کے بغیر بھی چلایا جاسکتا ہے، ڈپٹی کمشنر آواران کے دفتر میں سیکڑوں مظاہرین امداد نہ ملنے پر احتجاج کررہے تھے جبکہ ڈپٹی کمشنر آفس کے گودام پاکستان آرمی اور مختلف سیاسی و فلاحی اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد سے بھرے ہوئے تھے۔
ڈپٹی کمشنر عبدالرشید نے بتایاکہا کہ وہ اب تک امدادی اشیا پانچ مختلف مقامات پر روانہ کرچکے ہیں تاہم وہ ان مقامات کے نام بتانے سے قاصر تھے،علیحدگی پسندبلوچ قوم پرستوں کاموقف تھاکہ وہ کسی بھی حالت میں ایف سی اورفوج کے ساتھ سیزفائرنہیں کریںگے انھوں نے اعلان کیا کہ فلاحی ادارے اپنی سرگرمیاں اسی صورت میں کرسکتے ہیں اگر وہ سیکیورٹی فورسز کی مددحاصل نہ کریں، علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر امدادی سرگرمیاں تاحال صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہیں،ضرورت اس امرکی ہے کہ فوری طورسیز فائرکااعلان کیاجائے تاہم علیحدگی پسنداس معاملے پر تیاردکھائی نہیں دیتے۔