نئی حلقہ بندیاں سندھ حکومت قواعد وضوابط طے نہیں کرسکی
الیکشن کمیشن، ادارہ شماریات کے 98 کی مردم شماری کے تحت حدبندیوں پرتحفظات
سندھ حکومت صوبے میںبلدیاتی حلقہ بندیوں کیلیے قواعد وضوابط طے نہیں کرسکی ہے،ضلعی کمشنرز،الیکشن کمیشن اوربیوروآف شماریات نے98ء کی مردم شماری کی بنیاد پربلدیاتی حلقوں کی حدبندی پرشدیدتحفظات کا اظہارکرتے ہوئے تجویزدی ہے کہ2011میں ہونے والی خانہ شماری کے چارجزاورانتخابی فہرستوں کو بنیاد بناتے ہوئے نئی حدبندیاں تشکیل دی جائیں۔
صوبے میں بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے اب تک ابہام دورنہیں ہوا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں پرعملی کام کاآغازاب تک شروع نہیں کیاجاسکاہے، ضلعی ڈپٹی کمشنرز نے اب تک صرف الیکشن کمیشن، بیوروآف شماریات اوردیگرمتعلقہ اداروں کے افسران کے ساتھ چند اجلاس کیے ہیں جس میں قواعدوضوابط نہ ہونے کے باعث کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی جاسکی، سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے5روز قبل جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں صرف ڈپٹی کمشنرزکوحلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے ذمے داریاں تفویض کی گئی ہیں جبکہ کمشنرزکو ٹریبونل ڈویژنز کے سربراہ بنایا گیا ہے ، متعلقہ ڈپٹی کمشنرزنے بتایاکہ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی نوٹیفکیشن میں بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے کوئی قواعد وضوابط نہیں بھیجے گئیجس کے باعث تمام متعلقہ ادارے ابہام کا شکار ہیں۔
ڈپٹی کمشنرزنے بتایا کہ جمعے کو سندھ لوکل گورنمنٹ کوخط بھیجا گیا ہے کہ بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے Terms of Reference(ٹی او آر) بھیجاجائے۔ذرائع نے بتایاکہ ڈپٹی کمشنرزکی زیرصدارت اجلاس میں الیکشن کمیشن اور بیوروآف شماریات نے اپنی تجاویزدیتے ہوئے کہاکہ اگر بلدیاتی حلقے 98ء کی مردم شماری کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں تویہ فیصلہ عوام کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہوگااورحلقہ بندیوں کی تشکیل آبادی کے حساب سے نہیں ہوسکے گی،متعلقہ افسران نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ شہری ودیہی آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے تاہم مردم شماری نہ ہونے کے باعث آبادی کادرست تعین نہیں کیاجاسکتا ، اس لیے بہتر یہ ہے کہ 2011 میں ہونے والی خانہ شماری کوبنیاد بناتے ہوئے بلدیاتی حلقے طے کیے جائیں،نئی انتخابی فہرستیں بھی انہی بنیادپربنائی گئی تھیں جبکہ کراچی میں چند قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حدبندیوں میں ہونے والی ترامیم بھی انہی بنیاد پرکی گئی تھیں،ڈپٹی کمشنرزنے بتایا کہ تمام سفارشات سندھ لوکل گورنمنٹ کو بھجوادی گئی ہیں۔
صوبے میں بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے اب تک ابہام دورنہیں ہوا۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں پرعملی کام کاآغازاب تک شروع نہیں کیاجاسکاہے، ضلعی ڈپٹی کمشنرز نے اب تک صرف الیکشن کمیشن، بیوروآف شماریات اوردیگرمتعلقہ اداروں کے افسران کے ساتھ چند اجلاس کیے ہیں جس میں قواعدوضوابط نہ ہونے کے باعث کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بنائی جاسکی، سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے5روز قبل جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں صرف ڈپٹی کمشنرزکوحلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے ذمے داریاں تفویض کی گئی ہیں جبکہ کمشنرزکو ٹریبونل ڈویژنز کے سربراہ بنایا گیا ہے ، متعلقہ ڈپٹی کمشنرزنے بتایاکہ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی نوٹیفکیشن میں بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے کوئی قواعد وضوابط نہیں بھیجے گئیجس کے باعث تمام متعلقہ ادارے ابہام کا شکار ہیں۔
ڈپٹی کمشنرزنے بتایا کہ جمعے کو سندھ لوکل گورنمنٹ کوخط بھیجا گیا ہے کہ بلدیاتی حلقوں کی تشکیل کیلیے Terms of Reference(ٹی او آر) بھیجاجائے۔ذرائع نے بتایاکہ ڈپٹی کمشنرزکی زیرصدارت اجلاس میں الیکشن کمیشن اور بیوروآف شماریات نے اپنی تجاویزدیتے ہوئے کہاکہ اگر بلدیاتی حلقے 98ء کی مردم شماری کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں تویہ فیصلہ عوام کے ساتھ ناانصافی پر مبنی ہوگااورحلقہ بندیوں کی تشکیل آبادی کے حساب سے نہیں ہوسکے گی،متعلقہ افسران نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہاکہ شہری ودیہی آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے تاہم مردم شماری نہ ہونے کے باعث آبادی کادرست تعین نہیں کیاجاسکتا ، اس لیے بہتر یہ ہے کہ 2011 میں ہونے والی خانہ شماری کوبنیاد بناتے ہوئے بلدیاتی حلقے طے کیے جائیں،نئی انتخابی فہرستیں بھی انہی بنیادپربنائی گئی تھیں جبکہ کراچی میں چند قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حدبندیوں میں ہونے والی ترامیم بھی انہی بنیاد پرکی گئی تھیں،ڈپٹی کمشنرزنے بتایا کہ تمام سفارشات سندھ لوکل گورنمنٹ کو بھجوادی گئی ہیں۔