نیلی جیکٹ
یہ’’نیلی جیکٹ‘‘ آواز ہے،پہچان ہے،آغاز ہے، اس تبدیلی کا جس میں ہرایک کراچی کے رہنے والوں کوسب سے پہلے خود سے عہدکرنا ہے
دل نا امید تو نہیں ، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
قارئین ! اس مصرعے کو بار بار پڑھنے کو دل چاہا اور شدت سے خواہش ابھری کہ ہر اپنے پاکستانی بھائی بہنوں کو اس شعرکے سحر میں جکڑ دوں ! ہم یہاں روزانہ مہنگائی ،کرپشن ، عدل و انصاف کے نظام کو جنگل کے قانون سے تشبیہ دینا اور پھر جھوٹ افلاس کا رونا رونا اور آگے سے اس بات کوکچھ اس طرح سے اختتام کرنا کہ ''اس ملک کا کچھ نہیں ہوسکتا '' کراچی کی حالیہ بارشوں نے تو رہی سہی کسر پر پانی تو پھیرا مگر کراچی کا نقشہ ہی ذرا مختلف کر دیا۔
عوام میں غم وغصے کی لہر تو پائی گئی مگر اس کا حشر بھی سمندرکی اس لہر کی طرح تھا جوکنارے پر آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی جہاں کچرا کنڈی میں تبدیل ہے وہیں ہر طرف ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہر آنے والی سیاسی قیادت کو دی جاتی ہے۔ الزامات کی بارش میں ہم اپنا اصل مسئلہ بھول جاتے ہیں جوکچھ کرنا ہوتا ہے وہ بھی نہیں کرتے۔
یہاں ہر ایک پاکستانی خصوصاً کراچی کے رہنے والوں کو ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور ہر ایک کا ساتھ دینا چاہیے جو بھی اس شہرکے لیے اچھا کرنا چاہتا ہے۔ چاہے اس میں گورنمنٹ آف سندھ کی جانب سے "Blue Jacket" آگاہی پروگرام ہو جوکہ ہر ایک کو یہ پیغام دیتی ہو کہ "Say No to Open Littering" یا پھر پورٹ اینڈ شپنگ کے وفاقی وزیر علی زیدی کی مہم ہو "Lets Clean Karachi"۔ جہاں ابھی نالوں کی صفائی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے، مگر یہ ''نیلی جیکٹ'' کیا ہے؟
یہ ''نیلی جیکٹ'' آواز ہے، پہچان ہے، آغاز ہے، اس تبدیلی کا جس میں ہر ایک کراچی کے رہنے والوں کو سب سے پہلے خود سے عہدکرنا ہے کہ وہ کچرا ضرور پھینکے گا مگر صحیح جگہ پر یعنی ''کوڑا دان میں'' ہمیں سڑکوں اورجگہ جگہ سے کچرا اٹھانے سے زیادہ اپنے ذہنوں کو اس کچرے سے صاف کرنا ہے کہ ہم اپنا شہرگندا نہیں کریں گے۔
اس سوچ کو تبدیل کرنے کا بیڑا ڈپٹی کمشنر ساؤتھ سید صلاح الدین احمد نے اٹھایا ہے، جو بھی بلیوجیکٹ پہنے گا وہ خود سے عہدکرے گا کہ وہ نہ صرف اپنے گھر، محلے بلکہ اپنے شہر کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ کراچی میں جو مسائل ہیں،ان کی تمام تر ذمے داری حکومتی اداروں پر نہیں ڈالی جاسکتی،کیونکہ یہ جو کچرا ہے یہ کہیں باہر سے نہیں آتا،ہم خود عوام کچرا پھیلانے اور اس کے ڈھیر بنانے کے فن میں یکتا ہیں۔ ہم اپنا کچرا دوسرے کے گھر کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔
مقررہ کردہ جگہوں پرکچرا نہیں ڈالتے، بلکہ راہ چلتے ،گاڑی ڈرائیورکرتے ہوئے جوس اورکھانے پینے کی اشیاء کے ریپئر اور ڈبے سڑک پر اچھال دیتے ہیں۔ تمام تفریحی مقامات،کھیل کے میدان ، پارکس ، سینما گھروں، اسکول ،کالجز اور یونیورسٹی میں بھی کچرا بڑھانے میں عوام اپنا حصہ بقدرجثہ ڈالتے ہیں ، ہم تو اللہ کے گھر مساجد کے سامنے بھی کچرا ڈالنے سے باز نہیں آتے۔اس گندگی پھیلانے کے عمل میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے افراد میں رتی برابر فرق نہیں ہے۔
عوام میں سوکس سینس کی انتہائی کمی ہے جب ہی تو شہرکراچی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جشن آزادی کے موقعے پر اسی ضمن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ''مجھے کچھ دنوں پہلے ڈی سی سائوتھ اورمرتضی وہاب نے اس مہم کے بارے میں اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تھا، آج مجھے بھی اس تقریب میں بھی نیلی جیکٹ پہنائی گئی ہے، لہذا میں بھی باقاعدہ اس تحریک کا ممبر بن گیا ہوں۔ یہ ایک اچھے کام کا آغاز ہے جوجاری رہنا چاہیے۔
اس رضاکارانہ مہم کا اولین مقصدکراچی کو صاف کرنا ہے، لہذا سندھ حکومت کی جانب سے میں شہریوں سے ساتھ دینے کی اپیل کرتا ہوں۔ مرتضی وہاب نے تاجر اتحاد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اس مہم کو ایک شمع جلانے اور روشنی پھیلانے سے تعبیرکیا۔اس تنظیم کے اراکان نے بوٹ بیسن پر موجودکچرے کو بھی صاف کیا۔
سوشل میڈیا پر پر اپنے پیغام میں نیلی جیکٹ زیب تن کیے ہوئے معروف اداکار نبیل نے کہا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، ڈی سی سائوتھ کی اس مہم میں تمام شہریوں کو بڑھ چڑھ کرحصہ لینا چاہیے، اداکارہ بشریٰ انصاری اور اداکار محمود ارشد نے بھی نیلی جیکٹ پہن کر سوشل میڈیا کے لیے نہ صرف اپنے پیغامات ریکارڈ کروائے بلکہ اپنے فینز اورعام شہریوں سے اس مہم میں بھرپور شرکت کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ ماہ 4 اگست کو جب کہ شہرکے بیشتر علاقے میں پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، وفاقی وزیر برائے بحری امورعلی زیدی نے کے ایم سی اور فرنٹریئر ورکس آرگنائزیشن کے اشتراک سے دوہفتے پر مشتمل 'کراچی صفائی مہم' شروع کرنے کا اعلان کیا۔چند روز قبل علی زیدی نے اسکیم کے لیے 1.7 ارب کے عطیات کی اپیل کی تھی۔ پی ٹی آئی کی رکن صوبائی اسمبلی اور اس اسکیم کی کوآرڈینیٹر سدرہ امام نے کہا کہ ناکام ٹاؤن پلاننگ ، تجاوزات، ناقص مینجمنٹ کی وجہ سے کراچی تھوڑی سی حالیہ بارشوں میں بھی ڈوب گیا ہے۔
''کلین کراچی'' مہم کے دوران ہماری توجہ سیوریج کے نظام پر ہے۔ ہم نے چوک پوائنٹس سے اب تک 17 ہزار ٹن کچرا نکال چکے ہیں۔مہم کے لیے کچھ اسپانسر، بینکوں اورکے پی ٹی اور شہریوں کی جانب سے عطیات ملے ہیں۔ اکاؤنٹ کو ایف ڈبلیو او مینیج کررہی ہے اور اس کی آڈٹ رپورٹ بھی عام کی جائے گی۔
درحقیقت کراچی میں صفائی کے لیے شروع کیے جانے والے تمام اقدامات چاہے وہ وفاقی، صوبائی یا شہری انتظامیہ کے تحت کیے جائیں، ہماری نظر میں لائق تحسین ہیں کیونکہ ہمیں ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے،کیونکہ کراچی میں صفائی ستھرائی کا مسئلہ دن بدن شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہرکراچی کا شمارکچرے، صنعت اور ٹریفک کی آلودگی اور صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث جنوبی ایشیاء کے پانچویں گندے ترین اور آلودہ شہر وں میں ہونے لگا ہے۔
بھارتی شہر ممبئی،گوالیار اور بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ کی حالت کراچی سے معمولی بہتر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں صفائی ستھرائی کی موجودہ سنگین صورتحال شہرکی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ہے۔بعض عوامی نمائندوں کیمطابق کراچی کی آبادی دوکروڑ سے تجاوزکرچکی ہے۔ مسائل تو ہرجگہ ہوتے ہیں لیکن ان کا حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔
ہمیں حکومت کے بحیثیت ذمے دار شہری ہرکام میں کیڑے نکالنے کی بجائے، ہر اچھے کام کی تعریف وتوصیف بھی کرنی چاہیے جیسے حال میں ایک سرکاری اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے شہر میں پینے اور صنعتی پانی کے مسائل کے حل اور سالڈ ویسٹ کو بجلی کی پیداوار کے لیے استعمال میں لانے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ شہر میں روزانہ 16 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف 20 فیصد ری سائیکل ہوتاہے ، لہذا میں چاہتاہوں کہ کچرے کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر کراچی میں سنجیدگی سے کام کیا جائے تو صرف دو ماہ میں کراچی میں کچرا اٹھانے کا معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں نئی قائم ہونے والی حکومت کو اہل کراچی کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے، اس شہر سے حکمراں جماعت کے متعدد امیدوارکامیاب ہوئے ہیں اور حکمراں جماعت بھی شہرکے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی خواہشمند نظر آتی ہے۔
میئرکراچی بھی شہرکے لیے فکر مند ہیں۔ مسئلے کا حل تمام اسٹیک ہولڈرزکے پاس ہے ۔صوبائی حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان شہرکی ترقی کے لیے ہم آہنگی پیدا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ان کاوشوں کو وفاقی حکومت بھی تائیدوحمایت حاصل ہوجائے توکراچی کے شہریوں ریلیف ملے گا، لیکن یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کراچی کے شہری نیلی جیکٹ جیسی مہم کا حصہ خود نہیں بن جاتے۔