کچھ بھی نہ کہا اورکہہ بھی گئے
فیس ایکسپریشن یا باڈی لینگویج کا استعمال ہمارے اوردیگر ممالک کے زیرک سیاستدان بڑی مہارت سے کرتے ہیں۔
باڈی لینگویج جسے عرف عام میں بدن بولی بھی کہا جاتا ہے، اس میں قدرتی طور پر انسان اپنے جسم کے اعضا استعمال سچویشن یا اطراف کے ماحول کے مطابق کرتا ہے اور اس حوالے سے سب سے اہم اور مشہور ترین صنف فیس ایکسپریشن یعنی چہرے کے تاثرات کی ہے، جس سے انسان کے جذبات واحساسات کا بہت واضح پتا چلتا ہے۔
عام طور پر انسان جب باتیں کرتا ہے تو اس کے ساتھ صرف اس کی زبان ہی نہیں چل رہی ہوتی بلکہ اس کا پورا وجود بھی بولتا ہے۔ عام طور پر زبان جو کچھ کہہ رہی ہوتی ہے، جسم کی حرکات و سکنات بھی وہی کچھ پیش کر رہی ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زبان پر جوکچھ ہوتا ہے چہرے یا جسم کے اشارے، کنائے کچھ اورکہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہی باڈی لینگویج (بدن بولی) یا فیس ایکسپریشن چہرے کے تاثرات کا کمال ہے۔
ریڈیو کی تربیت کا پہلا سبق یہ رہا ہے کہ جب مائیکرو فون پر بولو تو اپنے ہاتھوں کو اسی طرح حرکت دیتے رہو جیسے عام بات چیت کے دوران آپ دیتے یا کرتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے کا فطری انداز سب سے زیادہ دل کش ہوتا ہے آپ ہاتھ باندھ کر بولیں گے تو لگے گا آپ سے کوئی جرم سرزد ہو رہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بدن کی بولی کا سمجھنا ایک پوری سائنس ہے، ایک علم ہے، بالکل اس طرح جیسے نفسیات ایک علم ہے جس کو حاصل کرنا آسان نہیں۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ بدن کی خاموش بولی کتنی ہی خاموش کیوں نہ ہو، گفتگو کا حصہ ہوتی ہے۔ انسانوں کی حرکات وسکنات، ہاتھوں کی حرکت، ابرو کی جنبش، چہرے کے اتارچڑھاؤ، دونوں ہاتھوں کا سینے پر باندھ لینا ، اپنے ناخنوں یا ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹنا ، بات کسی سے کرنا، دھیان کا کسی اور طرف ہونا، بار بار سرکھجانا، ماتھے پر بل لانا، باڈی لینگویج کا سب سے بڑا اعجاز ہوتا ہے۔
یہ فطری ہوتی ہے ضروری نہیں کہ اس پر انسان کا بس چلے، پھر بھی یہ ہر بولنے والے کی گفتگوکا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بولی سمجھنے کا ہنر آتا ہے لیکن بہت سے سادہ لوح جنھیں حرف عام میں احمق کہا جاتا ہے اس زبان سے نابلد ہوتے ہیں، حالانکہ زبان چاہے کسی کی کیوں نہ ہو، ہمیں آتی ہو یا کسی کو نہ آتی ہو لیکن کچھ اشارے کنائے تو ساری بات کھول دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی بندہ کچھ نہ سمجھے تو اسے اللہ میاں کی گائے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
فیس ایکسپریشن یا باڈی لینگویج کا استعمال ہمارے اوردیگر ممالک کے زیرک سیاستدان بڑی مہارت سے کرتے ہیں، وہ جوکچھ کہہ رہے ہوتے ہیں ، وہی ان کا چہرہ اور جسم کے دوسرے اعضا بول رہے ہوتے ہیں۔ پولیس، سراغ رساں ادارے اور عدالتیں مجرموں یا مشکوک افراد کی حرکات وسکنات پر خصوصی نظر رکھتے ہیں، بالخصوص چہروں کے اتار چڑھاؤ، ان کی آنکھوں اور ہاتھ پاؤں کی حرکات سے بالآخر وہ جان ہی لیتے ہیں کہ یہ بے قصور ہے یا قصوروار، بعض دفعہ تو شاطر مجرم کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس کے ماتھے کی شکن یا اس پر چمکتے پسینے کے قطرے اصل شہادت دے رہی ہوتی ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے اور موثر ذریعہ ابلاغ فلم یا پھر ٹیلی ویژن ڈراموں کو ہی دیکھ لیں وہاں بھی بدن بولی بہت ہی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ فن اداکاری میں اس کی حیثیت مسلم امر سمجھی جاتی ہے۔ ہم سمیت ہر اہل فن اسے بہترین اور سب سے اچھا اداکار یا فنکار سمجھتا یا گردانتا ہے جو اپنے وجود کے ہر حصے کا سچویشن کی مناسبت سے اظہار کرے یا اس کو بروئے کار لائے۔
علاؤالدین، آغا طالش، محمد علی، افضال احمد، نعمان اعجاز، فیصل قریشی، عابد علی، فردوس جمال، علی اعجاز، سہیل احمد ، بابرا ، رانی، صبا قمر اور سجل علی وغیرہ کے کام کو ذہن میں لائیں یا پھر سرحد پار دلیپ کمار اور امیتابھ بچن وغیرہ کے کام کو دیکھ لیں وہ منظرنامے، اطراف، ماحول یا اپنے گرد و پیش کو مدنظر رکھ کر اپنے لب ولہجے کے ساتھ ساتھ اپنی باڈی لینگویج اور فیس ایکسپریشن کا اظہار انتہائی موثر اور مربوط طریقے سے کرکے منظرکو حد درجہ تاثر انگیز بنا دیتے رہے ہیں۔
باوجود اس کے کہ الفاظ کا اظہار یعنی بولنا اپنی جگہ آگاہی کا بہت ہی موثر ذریعہ یا ابلاغ ہے لیکن بیشتر انسان اس کے بغیر بھی گفتگو کرلیتے ہیں، باڈی لینگویج (بدن بولی) فیس ایکسپریشن (چہرے کے تاثرات) اس حوالے سے بڑی ہی موثر زبان اور اظہاریہ ہوتی ہے اور تقریباً سبھی انسان اس کا مطلب واضح طور پر سمجھ لیتے ہیں۔
خاص طور پر چہرے پر رنگ آنا یا اتار چڑھاؤ، آنکھوں کا پھیلاؤ یا اس کا گھماؤ پھراؤ غرض ہر حرکت ہر جنبش ہر لچک اپنے اندر ایک معنی رکھتی ہے۔اس کے لیے مخاطب کوکوئی ڈکشنری دیکھنی نہیں پڑتی نہ ہی کسی عاقل یا عالم فاضل سے اس کے معنی پوچھنے پڑتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بدن بولی کسی بھی زبان سے زیادہ بامعنی، واضح اور دو ٹوک ہوتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں بدن بولی سے زیادہ کام لیتی ہیں اور سمجھ دار مرد فوراً ان کی بات یا ان کا مدعا سمجھ لیتے ہیں۔
جس طرح ہر انسان کے چہرے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، اسی طرح ان کے چہرے بھی یا تو اسپاٹ ہوتے ہیں یا ہر قسم کے تاثر سے عاری یا پھر وہ بولتے چہروں کے مالک ہوتے ہیں لیکن اس قسم کے بولتے چہرے بہت کم لوگوں کے ہوتے ہیں، جو بولنے سے پہلے ہی جتا دیتے ہیں کہ ہم آپ کی یا گردوپیش کی سچویشن کو بھانپ چکے ہیں۔
گردش دوراں کہہ لیں یا قدروں کی زوال پذیری سمجھ لیں کہ ہر انسان اب ایک دوسرے سے عاجز یا بے زار بے زار سا رہنے لگا ہے اب کسی اپنے یا پیارے کو دیکھ کر بھی انسانی چہرہ مسرتوں سے تمتماتا نہیں بلکہ مرجھا جاتا ہے۔ بہت کم اب لوگ یا رشتے دار ایسے بچے ہیں جن کے چہرے اپنے کسی رشتے دار یا دوست احباب کو دیکھ کرکھل اٹھتے ہیں ایسے میں قتیل شفائی کا ایک شہرہ آفاق شعر یاد آرہا ہے:
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
عام طور پر یا فی زمانہ سارے کے سارے لوگوں کے چہرے اپنے احباب اور بالخصوص رشتے داروں کو دیکھ کر بجھ جاتے ہیں۔ خوشی کی تقاریب میں بھی لوگ ایسی شکلیں بنا کر آتے ہیں جیسے کسی کے قل یا انتقال پر آئے ہوں۔ تکلیف دہ بلکہ دلخراش سچائی یہ ہے کہ سگے اور جان سے پیارے رشتے داروں کو دیکھا، برتا اور محسوس کیا گیا ہے کہ ان کے گھر جانے پر وہ ناخوش یا بے زار یا اکتائے سے لگتے ہیں۔ حد درجہ سنجیدگی اور چہرے پر تناؤ، ان کے انداز یا بدن بولی سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ آنے والے کو دیکھ کر خوش نہیں بلکہ بے زار ہوئے ہیں۔
جس طرح کچھ سرگوشیوں کی آواز اور رفتار چیخوں سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے بالکل اسی طرح اشاروں، چہرے کے اتار چڑھاؤ، آنکھوں کی غیریت یا بدن بولی کی آواز بھی بسا اوقات کان اور دل کے پردے کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔
عام طور پر انسان جب باتیں کرتا ہے تو اس کے ساتھ صرف اس کی زبان ہی نہیں چل رہی ہوتی بلکہ اس کا پورا وجود بھی بولتا ہے۔ عام طور پر زبان جو کچھ کہہ رہی ہوتی ہے، جسم کی حرکات و سکنات بھی وہی کچھ پیش کر رہی ہوتی ہیں، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زبان پر جوکچھ ہوتا ہے چہرے یا جسم کے اشارے، کنائے کچھ اورکہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہی باڈی لینگویج (بدن بولی) یا فیس ایکسپریشن چہرے کے تاثرات کا کمال ہے۔
ریڈیو کی تربیت کا پہلا سبق یہ رہا ہے کہ جب مائیکرو فون پر بولو تو اپنے ہاتھوں کو اسی طرح حرکت دیتے رہو جیسے عام بات چیت کے دوران آپ دیتے یا کرتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بولنے کا فطری انداز سب سے زیادہ دل کش ہوتا ہے آپ ہاتھ باندھ کر بولیں گے تو لگے گا آپ سے کوئی جرم سرزد ہو رہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بدن کی بولی کا سمجھنا ایک پوری سائنس ہے، ایک علم ہے، بالکل اس طرح جیسے نفسیات ایک علم ہے جس کو حاصل کرنا آسان نہیں۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ بدن کی خاموش بولی کتنی ہی خاموش کیوں نہ ہو، گفتگو کا حصہ ہوتی ہے۔ انسانوں کی حرکات وسکنات، ہاتھوں کی حرکت، ابرو کی جنبش، چہرے کے اتارچڑھاؤ، دونوں ہاتھوں کا سینے پر باندھ لینا ، اپنے ناخنوں یا ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹنا ، بات کسی سے کرنا، دھیان کا کسی اور طرف ہونا، بار بار سرکھجانا، ماتھے پر بل لانا، باڈی لینگویج کا سب سے بڑا اعجاز ہوتا ہے۔
یہ فطری ہوتی ہے ضروری نہیں کہ اس پر انسان کا بس چلے، پھر بھی یہ ہر بولنے والے کی گفتگوکا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بولی سمجھنے کا ہنر آتا ہے لیکن بہت سے سادہ لوح جنھیں حرف عام میں احمق کہا جاتا ہے اس زبان سے نابلد ہوتے ہیں، حالانکہ زبان چاہے کسی کی کیوں نہ ہو، ہمیں آتی ہو یا کسی کو نہ آتی ہو لیکن کچھ اشارے کنائے تو ساری بات کھول دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی بندہ کچھ نہ سمجھے تو اسے اللہ میاں کی گائے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
فیس ایکسپریشن یا باڈی لینگویج کا استعمال ہمارے اوردیگر ممالک کے زیرک سیاستدان بڑی مہارت سے کرتے ہیں، وہ جوکچھ کہہ رہے ہوتے ہیں ، وہی ان کا چہرہ اور جسم کے دوسرے اعضا بول رہے ہوتے ہیں۔ پولیس، سراغ رساں ادارے اور عدالتیں مجرموں یا مشکوک افراد کی حرکات وسکنات پر خصوصی نظر رکھتے ہیں، بالخصوص چہروں کے اتار چڑھاؤ، ان کی آنکھوں اور ہاتھ پاؤں کی حرکات سے بالآخر وہ جان ہی لیتے ہیں کہ یہ بے قصور ہے یا قصوروار، بعض دفعہ تو شاطر مجرم کو بھی یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس کے ماتھے کی شکن یا اس پر چمکتے پسینے کے قطرے اصل شہادت دے رہی ہوتی ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے اور موثر ذریعہ ابلاغ فلم یا پھر ٹیلی ویژن ڈراموں کو ہی دیکھ لیں وہاں بھی بدن بولی بہت ہی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ فن اداکاری میں اس کی حیثیت مسلم امر سمجھی جاتی ہے۔ ہم سمیت ہر اہل فن اسے بہترین اور سب سے اچھا اداکار یا فنکار سمجھتا یا گردانتا ہے جو اپنے وجود کے ہر حصے کا سچویشن کی مناسبت سے اظہار کرے یا اس کو بروئے کار لائے۔
علاؤالدین، آغا طالش، محمد علی، افضال احمد، نعمان اعجاز، فیصل قریشی، عابد علی، فردوس جمال، علی اعجاز، سہیل احمد ، بابرا ، رانی، صبا قمر اور سجل علی وغیرہ کے کام کو ذہن میں لائیں یا پھر سرحد پار دلیپ کمار اور امیتابھ بچن وغیرہ کے کام کو دیکھ لیں وہ منظرنامے، اطراف، ماحول یا اپنے گرد و پیش کو مدنظر رکھ کر اپنے لب ولہجے کے ساتھ ساتھ اپنی باڈی لینگویج اور فیس ایکسپریشن کا اظہار انتہائی موثر اور مربوط طریقے سے کرکے منظرکو حد درجہ تاثر انگیز بنا دیتے رہے ہیں۔
باوجود اس کے کہ الفاظ کا اظہار یعنی بولنا اپنی جگہ آگاہی کا بہت ہی موثر ذریعہ یا ابلاغ ہے لیکن بیشتر انسان اس کے بغیر بھی گفتگو کرلیتے ہیں، باڈی لینگویج (بدن بولی) فیس ایکسپریشن (چہرے کے تاثرات) اس حوالے سے بڑی ہی موثر زبان اور اظہاریہ ہوتی ہے اور تقریباً سبھی انسان اس کا مطلب واضح طور پر سمجھ لیتے ہیں۔
خاص طور پر چہرے پر رنگ آنا یا اتار چڑھاؤ، آنکھوں کا پھیلاؤ یا اس کا گھماؤ پھراؤ غرض ہر حرکت ہر جنبش ہر لچک اپنے اندر ایک معنی رکھتی ہے۔اس کے لیے مخاطب کوکوئی ڈکشنری دیکھنی نہیں پڑتی نہ ہی کسی عاقل یا عالم فاضل سے اس کے معنی پوچھنے پڑتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ بدن بولی کسی بھی زبان سے زیادہ بامعنی، واضح اور دو ٹوک ہوتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں بدن بولی سے زیادہ کام لیتی ہیں اور سمجھ دار مرد فوراً ان کی بات یا ان کا مدعا سمجھ لیتے ہیں۔
جس طرح ہر انسان کے چہرے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، اسی طرح ان کے چہرے بھی یا تو اسپاٹ ہوتے ہیں یا ہر قسم کے تاثر سے عاری یا پھر وہ بولتے چہروں کے مالک ہوتے ہیں لیکن اس قسم کے بولتے چہرے بہت کم لوگوں کے ہوتے ہیں، جو بولنے سے پہلے ہی جتا دیتے ہیں کہ ہم آپ کی یا گردوپیش کی سچویشن کو بھانپ چکے ہیں۔
گردش دوراں کہہ لیں یا قدروں کی زوال پذیری سمجھ لیں کہ ہر انسان اب ایک دوسرے سے عاجز یا بے زار بے زار سا رہنے لگا ہے اب کسی اپنے یا پیارے کو دیکھ کر بھی انسانی چہرہ مسرتوں سے تمتماتا نہیں بلکہ مرجھا جاتا ہے۔ بہت کم اب لوگ یا رشتے دار ایسے بچے ہیں جن کے چہرے اپنے کسی رشتے دار یا دوست احباب کو دیکھ کرکھل اٹھتے ہیں ایسے میں قتیل شفائی کا ایک شہرہ آفاق شعر یاد آرہا ہے:
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
عام طور پر یا فی زمانہ سارے کے سارے لوگوں کے چہرے اپنے احباب اور بالخصوص رشتے داروں کو دیکھ کر بجھ جاتے ہیں۔ خوشی کی تقاریب میں بھی لوگ ایسی شکلیں بنا کر آتے ہیں جیسے کسی کے قل یا انتقال پر آئے ہوں۔ تکلیف دہ بلکہ دلخراش سچائی یہ ہے کہ سگے اور جان سے پیارے رشتے داروں کو دیکھا، برتا اور محسوس کیا گیا ہے کہ ان کے گھر جانے پر وہ ناخوش یا بے زار یا اکتائے سے لگتے ہیں۔ حد درجہ سنجیدگی اور چہرے پر تناؤ، ان کے انداز یا بدن بولی سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ آنے والے کو دیکھ کر خوش نہیں بلکہ بے زار ہوئے ہیں۔
جس طرح کچھ سرگوشیوں کی آواز اور رفتار چیخوں سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے بالکل اسی طرح اشاروں، چہرے کے اتار چڑھاؤ، آنکھوں کی غیریت یا بدن بولی کی آواز بھی بسا اوقات کان اور دل کے پردے کو چیر کر رکھ دیتی ہے۔