ایک کشمیری ہندو کی کتھا کہانی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان کھٹاس پیدا ہوئی اور آپسی رشتے بگڑ گئے۔

zahedahina@gmail.com

ایک ایسے زمانے میں جب صبح وشام کشمیرکا نام ٹیلی ویژن، ریڈیو اور بیانات میں سنائی دیتا ہے کسی کشمیری ہندوکی خود نوشت ہاتھ آجائے تو جی چاہتا ہے کہ اسے فوراً پڑھ لیا جائے۔ یہ عاطف حیات تھے جو میرے لیے انڈین پروفیشنل سروس کے ریٹائرڈ افسر جناب دیپک بُدکی کی خود نوشت ''لوح حیات'' لے کر آئے۔ یہ کتاب بُدکی صاحب نے انھیں غازی آباد سے بھیجی تھی۔ وہ عاطف سے مل چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کی کتاب عاطف کے ذریعے مجھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی لیے انھوں نے اس کی ایک جلد مجھے بھجوائی۔ ایک دلچسپ اورکھری کھری باتیں کرتی ہوئی کتاب۔

میں نے اس سے پہلے کسی بھی ہندوکا شجرہ نسب نہیں دیکھا تھا لیکن ''لوح حیات'' میں دیپک جی کئی پشتوں کا احوال لکھتے نظر آتے ہیں۔ وہ کشمیری پنڈتوں کے ایک غریب متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔اس جنت بے نظیر میں جنم لینا ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ البتہ جنم ایسے موسم میں ہوا جب یہ وادی اپنے اوپر دوزخ کی سفید ردا اوڑھے رہتی ہے۔ برف گھٹنوں تک زمین کو ڈھک لیتی ہے، فریادیوں کی مانند قطار در قطار کھڑے ، سرد آہیں بھرتے ہوئے بے برگ سفیدے کے پیڑآسمان کو تکتے رہتے ہیں، چار سو فضا میں تند وتیز ہوائیں خوف وہراس پھیلاتی ہیں اور غریب کشمیری اپنے گھروں کے اندر لاحول پڑھتے ہیں۔

متوسط طبقے کے پنڈت گھرانے میں پیدا ہونے والے دیپک نے زندگی کے بہت سے نشیب وفراز دیکھے۔ اردو اتنی عمدہ سیکھی کی کہ اردو کے مستند ادیب ہوگئے۔کشمیر کی کچھ کٹھی میٹھی یادیں لکھتے ہوئے فارسی کا ایک شعر یاد کرتے ہیں:

اگر فردوس بر روئے زمیں است

ہمیں است، و ہمیں است و ہمیں است

یہ شعر شالیمار باغ کی بالائی مہتابی پرکنندہ ہے اور اس کے بارے میں عام خیال ہے کہ اسے امیر خسرو نے کہا ہے۔ انھوں نے یہ شعر اس کشمیر کے بارے میں کہا ہے جہاں دیپک نے جنم لیا ۔ البتہ کچھ لوگ اسے شہنشاہ جہانگیر سے منسوب کرتے ہیں۔ افسوس کہ جغرافیائی لحاظ سے کلیدی مقام ہونے کے سبب یہ ریاست ہمیشہ ہی بنائے فساد رہی ہے۔ چنانچہ ریاست جموں وکشمیر کثیر النسل، کثیر التہذیب، کثیر المذہب اورکثیر الزبان ہے۔

کشمیر کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں یہاں ہندو، بدھ، مسلم، سکھ اور ڈوگرہ حکمرانوں نے حکومت کی جن میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی عظمتوں کو آج تک یاد کیا جاتاہے۔ مثلاً اشوکا، للتادتیہ، اونتی ورمن، زین العابدین، اکبر وغیرہ۔ اس کے برعکس کچھ ایسے بھی ہیں جن کی حرص وہوس اور مذہبی جنونیت کی کہانیاں سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً مہرکولا، سکندربخت شکن اور جبار خان، بدقسمتی سے فطرت اور حکمران دونوں کشمیری رعایا کے لیے ایذا رساں اور جفا کرنے والے رہے ہیں۔ ماضی میں عقوبت، بھاری ٹیکس،کم مزدوری اورگلگت و بونجی جیسے علاقوں میں بے گارکرنا کشمیریوں کا نصیب بن چکا تھا۔

کشمیر میں اسلام تیغ وتلوارکے ساتھ ساتھ تبلیغ وترغیب سے پھیل گیا۔ جس کے باعث مخلوط اورگنگا جمنی تہذیب نے نمو پائی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ''ریش وار'' (ریشیوں اور صوفیوں کی آماجگاہ )کہا جاتا ہے۔ یہاں صد ہاسال سے مختلف مذہبوں کے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں حالانکہ کئی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے اس مخلوط کلچر کو شمشیر و سنان کے ذریعے تہس نہس کرنے کی کوشش کی۔ بہرحال تقسیم ہند نے اس ریاست کی تقدیر میں ایسے کانٹے بوئے جو اس کے وجود کو تب سے خوںچکاں کررہے ہیں۔ بقول رزمی مظفر نگری:

یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


بیسویں صدی کی شروعات ہی سے ساری دنیا میں قومی جذبے نے سر اٹھا لیا۔اس لیے ہر حساس قوم آزادی کے لیے کوشاں رہی۔ جموں وکشمیرکے عوام بھی اسی جذبے کے تحت ڈوگرہ حکومت کے خلاف کمر بستہ ہوگئے اور1931 میں اس کی سمت کا تعین با ضابطہ طور پر شیرکشمیر شیخ محمد عبداللہ نے کیا۔ بد قسمتی سے تقسیم ہند کے وقت جموں وکشمیرکے مہاراجہ نے مصلحتاً فیصلہ کرنے میں تاخیرکی اور بعد میں جب فیصلہ کیا اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی۔

پاکستانی قبائل 22 اکتوبر 1947کوکشمیر کی وادی میں گھس کر بارہ مولہ پر قابض ہوگئے اور پھر سری نگر کی جانب پیش قدمی کرنے لگے۔ ایسی حالت میں مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس اس کے سوا اورکوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ فوراً الحاق کرے اور ہندوستانی فوج سے مدد مانگے۔ نتیجتاً 26 اکتوبر 1947 کو دستاویز الحاق پر دستخط ہوئے۔ دوسرے ہی روز ہندوستان کی فوج نے دنیا کی سب سے تیز لام بندی کا مظاہرہ کرکے اپنی فوجیں بذریعہ طیارہ سری نگر بھیج دیں اور برق رفتاری سے حالات پر قابو پا لیا۔

پاکستانی فوج کو دھکیل تو دیا گیا لیکن ابھی بھی کشمیر کا ایک بہت بڑا حصہ (پاکستانی کشمیر اورگلگت وبلتستان) ان کے پاس ہی تھا کہ یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ پنڈت جواہرلال نہرو چونکہ امن پسند رہنما تھے، اقوام متحدہ میں گوہار لگانے چلے گئے۔ وہاں پر پاکستان نے الحاق اور لشکر کشی پر سوال اٹھائے اور ان کی پشت پناہی مغربی ممالک نے کی کیونکہ بطور حکمت عملی انھیں جموں وکشمیر میں خاصی دلچسپی تھی تاکہ وہ کمیونسٹ بلاک کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روک سکیں۔

سرد جنگ کا زمانہ تھا اس لیے سرمایہ دار بلاک کا مدعا یہ تھا کہ وہ اس علاقے سے سوویت یونین اور چین کی سرگرمیوںپرکڑی نظر رکھ سکیں۔ ادھر پاکستان امریکی بلاک کا رکن بن گیا اور ادھر ہندوستان سوویت روس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ جواہر لال نہرو نے مہا راجہ ہری سنگھ کونظر انداز کرکے شیخ محمد عبداللہ کو جموں وکشمیر کا سربراہ تسلیم کر لیا۔ دونوں کے بیچ کچھ غیر رسمی وعدے ہوئے اور بعد میں شیخ عبداللہ کی سربراہی میں عوامی حکومت برسراقتدار آئی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے درمیان کھٹاس پیدا ہوئی اور آپسی رشتے بگڑ گئے۔ 1953 میں سیاست نے ایسی کروٹ لی کہ کشمیر کا مسئلہ ایک ناسور بن گیا۔ شیخ محمد عبداللہ نے جواہرلال نہرو کو اپنا وعدہ یاد دلایا اور جموں وکشمیر میں رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ وہ اس بات کو جانتا تھا کہ ریاست کا ایک بہت بڑا حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے اور اس کے بغیر یہ کاروائی نا ممکن ہے۔ شیخ محمد عبداللہ کو قیدکیا گیا اور عنان حکومت بخشی غلام محمد کو سونپ دی گئی۔ گزشتہ 71برس سے اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا، یہ معاملہ تب سے یوں ہی سلگ رہا ہے۔

دیپک مختلف مسلمان سیاستدانوں کے بارے میں لکھتے ہیں اور یہ کہنے سے نہیں چوکتے کہ اگر تمام کشمیری سیاستدان، ریاست کے حقوق سے مخلص ہوں تو بات وہاں تک نہیں پہنچ سکتی جہاں آج پہنچ چکی ہے۔

وہ اپنی ابتدائی ملازمت کے بارے میں بتاتے ہیں جب وہ 22 برس کی عمر میں دلی کے مشہور اشوکا ہوٹل کے ایمپوریم میں کام کر رہے تھے۔ ایک روز سونیا گاندھی شو روم میں آئیں۔ میں انھیں جانتا نہیں تھا غیر ملکی عورت لگ رہی تھیں۔ اس وقت میں شو روم میں اکیلا ہی تھا۔ میں نے اپنی کرسی سے اٹھ کر مسکراتے ہوئے استقبال کیا۔کچھ ہی دیر میں اندرا گاندھی کی خادمہ جس کو میں پہچانتا تھا۔ دوڑتی ہوئی چلی آئی اور مجھے باہر بلاکر کہنے لگی۔ یہ بہو جی ہیں، جو بھی سامان خریدیں گی اس کے پیسے نہیں مانگنا۔ سامان اور بل گھر بھجوا دینا۔میرا سر چکرا گیا، سوچنے لگا کہیں کوئی نازیبا حرکت تو سرزد نہیں ہوئی۔ جلدی سے چہرے کو سنجیدہ بنا لیا۔ اتنی دیر میں سونیا جی نے گلاسوں کے اوپر رکھنے والے پیپر ماشی کے دس ڈھکن، (Coasters) چن کر میری میز پر رکھ دیے اور یہ کہہ کر چلی گئیں کہ انھیں گھر بھجوا دیں۔ ان کا رویہ اور بات کرنے کا ڈھنگ دیکھ کرمیں بہت متاثر ہوا۔ بہت ہی متین اور برد بار عورت نظر آتی تھیں۔ میں جب بھی ان کے بارے میں بات کرتا ہوں تومیرے منہ سے تعریفی کلمات ہی نکلتے ہیں۔

دیپک جی نے فوج میں ملازمت کی، پوسٹل سروسز بورڈ کے ممبر بنے۔ افسانے لکھے، تنقیدی مضامین تحریر کیے۔ زندگی کے پیچ و خم سے گزرے۔ ایک نیک نہاد، غیر متعصب اور دل دار انسان، آخری دنوں میں انھوں نے بھی وہی کام کیا جو ادب کا چسکا رکھنے والے بیشتر لوگ کرتے ہیں۔ یعنی خود نوشت لکھی۔ 316 صفحوں کی کتاب کے آخری صفحے پرلکھتے ہیں:

''میرا ماننا ہے کہ وہ کشمیر جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا واپس ملنا مشکل ہے۔ اب تو وہاں کی زمین میں بارودی سرنگوں کی کاشت ہوتی ہے۔ فضا میں باردوکی بد بو سرایت کرچکی ہے اور پانی میں تیزاب گھل گیا ہے۔ ریش واری کی شاعری میں اب وہ روحانیت نہیں ہے جو انسان کو اپنے وجود سے ہمکلام ہونے پر مجبور کرتی تھی۔ بقول عمیق حنفی:

میں ہوا ہوں، کہاں وطن میرا

دشت میرا، نہ یہ چمن میرا
Load Next Story