ناقابل شکست جھارا پہلوان کا خاندان سرکاری سرپرستی کا منتظر
جھارا پہلوان اپنے مختصر عرصہ حیات میں ناقابل شکست رہے۔
MOSCOW:
''اوئے میرے چاچے نوں بچاؤ، خدا دا واسطہ جے میرے چاچے نوں بچاؤ۔''چاچا تو نہ بچ سکا مگر اس کے اندر ایک آگ سی لگ گئی۔ جب کراچی میں حیدری اکھاڑے میں صف ماتم بچھی تھی تو وہ اپنے کم سن پہلوان کے ساتھ سینگ اڑائے کھڑا تھا۔
''میں چاچے کا بدلہ ضرور لوں گا، اس نے اپنی آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا۔''ظالم نے میرے چاچے کا بازو توڑ دیا ہے۔ میں اس کی ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔'' اور پھر اس نے اپنا کہا سچ کردکھایا اور دنیا کے نامور جاپانی پہلوان انوکی کو چند برس کے بعد ہی ہرا کر نہ صرف اپنے چچا کا بدلہ لیا بلکہ عالمی شہرت بھی حاصل کی، وہ 11 سالہ کمسن بچہ محمد زبیرتھا جسے آج بھی دنیا جھارا پہلوان کے نام سے جانتی ہے-
جھارا پہلوان کی 10 ستمبر کو 28ویں برسی تھی راقم نے ان کی برسی کے حوالے سے ایکسپریس نیوز کے لئے پیکیج تیار کیا، زبیر عرف جھارا کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جھارا پہلوان کے حوالے سے بننے والے میرے اس پیکیج کو ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھا۔
پاکستان کے مشہور پہلوان محمد زبیر عرف جھارا پہلوان ،1960 ء میں پیدا ہوئے، اپنے وقت کے طاقت کے طوفان جھارا اپنے کیریئر میں 60 سے زائد ملکی اور غیر ملکی مقابلوں میں ناقابل شکست رہے۔ پاکستان کے معروف پہلوان تھے۔ ان کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد اسلم پہلوان رستم پنجاب اور رستم ایشیا اور تایا بھولو پہلوان رستم زماں بھی ممتاز پہلوان تھے۔ان کے خاندان کے دیگر ممتاز پہلوانوں کے نام۔ گاماں پہلوان رستم زماں (والد کے تایا)، امام بخش پہلوان رستم ھند (دادا)، بھولو پہلوان رستم زماں (تایا)، غلام پہلوان امرتسریہ رستم زماں (پڑنانا)، اچھا پہلوان رستم پنجاب و رستم ایشیا جھارا نے 16 برس کی عمر میں بین الاقوامی کشتی لڑنے کا آغاز کیا تھا اس کا قد 6 فٹ 2 انچ اور وزرن تقریبا 96 کلوگرام تھا۔
جھارا پہلوان اپنے مختصر عرصہ حیات میں ناقابل شکست رہے۔ابتدائی دنوں میں جھارا نے پہلی پیشہ ورانہ کشتی ملتان میں زوارپہلوان ملتانی سے لڑی۔ انہوں نے ملتانی کو دو دفعہ شکست دی۔ انہیں فخر پاکستان اور رستم پاکستان کے خطابات بھی عطا ہوئے۔ وہ صرف 31 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور موہنی روڈ لاہور میں بھولو پہلوان کے اکھاڑے میں دفن ہیں۔
12 اکتوبر 1971ء کو امام بخش رستم ہند کا انتقال ہو گیا تو بھولو پہلوان نے اپنے خاندان کی ڈوبتی ناؤ سنبھالنے کے لیے نئے خون کو آگے بڑھا دیا اور پتوار زبیر عرف جھارا پہلوان کے ہاتھ تھما دی۔جھارا پہلوان اچھا پہلوان کی اولاد تھی۔اکی پہلوان کی انوکی کے ہاتھوں شکست کے وقت زبیر عرف جھارا کی عمر تیرہ چودہ سال تھی۔اس نے اپنی معصوم آنکھوں سے اپنے چچا کا بازو ٹوٹتے دیکھا تھا۔
اکھاڑے میں اس کی چیخ و پکار سنی تھی۔ ہار پر اپنے بزرگوں کے ندامت زدہ چہرے دیکھے تھے اور وہ خود بھی اس رسوائی پر بلک بلک کر روایا تھا۔جھارا پہلوان کے ان آنسوؤں کے گواہ بھی حیات ہیں جو12ستمبر1976ء کو کراچی نیشنل اسٹیڈیم میں گرے تھے۔وہ کم سن تھا مگر اسے فتح و شکست کا بھرپور احساس تھا۔تبھی تو جب انوکی نے اس کے چھیالیس سالہ چچا اکی پہلوان کو آرم لاک لگایا تو وہ چلانے لگا تھا۔
1978ء میں ہی انوکی اور جھارے کی کشتی طے پائی۔انوکی کی نظر میں جھارا بچہ تھا۔ حقیقت میں جھارے کی تو ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں جب وہ انوکی کے روبرو ہوا تھا۔انوکی اسے مفت کی کھیر سمجھ کر ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔انوکی سے مقابلے میں ایک سال کا وقفہ تھا۔بھولو نے موہنی روڈ کے اکھاڑے کی جگہ کم دیکھی تو اسے اپنے آبائی اکھاڑے فرخ آباد لے گیا۔ اس کا مقصد جھارے کی نمائش بند کرنا بھی تھا۔ اس نے جھارے پر گھر کے دروازے بند کر دیئے اور ارشد بجلی پہلوان کو ہدایت کر دی کہ جھارے کو اکیلا کبھی نہ چھوڑا جائے۔
فرخ آباد کامران کی بارہ دری کے اس پارگاماں رستم زماں مرحوم کا اکھاڑہ تھا۔ دریائے راوی کے نئے پل کے پار پہلی بائیں طرف کی سڑک فرخ آباد کی چھوٹی بستی کو جاتی ہے۔ سڑک سے ذرا فاصلے پر کچے اور پکے مکانوں کے درمیان نامور گاماں پہلوان کا اکھاڑہ تھا۔ یہاں جھارا کی خوراک کے لیے کمروں میں پھل فروٹ کے ڈھیر لگا دیئے گئے تھے۔ ایک لاکھ روپے کی خوراک خاص طور پر مختص کر دی گئی تھی۔ گندم کا دانہ اس کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔
روٹی کی بجائے پھل، بھنا گوشت ،باداموں و دیگر جواہر کی سردائی اس کی خوراک تھی۔جھارا کی صبح رات دو بجے ہو جاتی تھی۔ ارشد بجلی پہلوان تلوار کی مانند اس کے سر سوار ہوتا تھا۔ وہ اسے اٹھاتا اور اسے اڑھائی ہزار ڈنڈ اور بیٹھک لگواتا۔ پھر لمبی دوڑ کے لیے فرخ آباد سے مینار پاکستان اور لوہاری کی حد فاصل طے کرتا اور جھارا کو لے کر اندھیرے میں گم ہو جاتا۔ جھارا اور ارشد بجلی یادگارپاکستان سے ہوتے لاری اڈہ، اکبری گیٹ، موچی گیٹ، لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ اور پھر بیرون ٹکسالی سے ہوتا ہوا یادگار پاکستان کی طرف سے فرخ آباد پہنچتا۔
دوڑ کے بعد آتے ہی وہ وزنی کسّی سے اکھاڑہ تیار کرتا، سہاگہ چلاتا،لوہے کا کڑا ڈال کر ورزش کرتا۔ آدھ گھنٹہ پی ٹی اور آدھ گھنٹہ سوا من وزنی ڈمبل پھیرتا۔۔۔ پھر دوپہر کے اڑھائی بجے سے چھ سات بجے تک ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک لگاتا، بڑے بھائی سہیل ،اکرام، دبیر،بلو اور دیگر چھوٹے بڑے پہلوانوں سے کئی کئی مرتبہ زور کرتا۔ اس کے بعد اکٹھی ڈنڈ بیٹھک اور ڈمبل پھیرتا۔ فرخ آباد ہی میں جھارا کے لیے بہاولپور اور دیگر شہروں سے چند بڑے شاہ زور بلوائے گئے جنہوں نے جھارا کو نئے داؤں سے روشناس کردیا۔ فرخ آباد کے بعد جھارے کو آبائی اکھاڑے اوکاڑہ لے جایا گیا۔
یہاں ان کو حکومت کی طرف سے زمینیں ملی تھیں اور جب کبھی کوئی بڑی کشتی ہوتی، پہلوان کو یہاں لاکر زور کرایا جاتا تھا۔ 17 جون 1979ء کا دن بھی آپہنچا۔چالیس ہزار کا جم غفیر اسٹیڈیم پہنچ گیا تھا۔ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک گئی تھیں۔ جو ٹکٹ حاصل نہ کرسکے،بلابولنے لگے تو لاٹھی چارج کرنا پڑ گیا۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ کشتی دیکھنے خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود تھی مگر جنس مخالف نے انہیں اسٹیڈیم میں داخل نہ ہونے دیا۔جھارا پہلوان سرخ گاؤن اور بڑی پگڑی سر پر جمائے اکھاڑے میں نمودار ہوا۔
گاؤن پر واضح الفاظ میں پاکستان درج تھا۔انوکی کا پیرہن بھی سرخ ہی تھا۔پولینڈ کا ریفری برنارڈ وجوواسکی دونوں حریفوں کو اکھاڑے میں بلا چکا تو اعلان کیا گیا کہ مقابلہ چھ راؤنڈ میں ہوگا۔ہر راؤنڈ پانچ منٹ جاری رہے گا۔ اس مقابلے میں جھارا نے انوکی کی وہ درگت بنائی کہ چھٹا راؤنڈ شروع ہونے سے پہلے ہی انوکی نے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کر کے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا۔
جھارا پہلوان صرف 31 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے،ان نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں جو جھارا پہلوان ہی کے گھر موہنی روڈ پر رہائش پذیر ہیں، تنگ وتاریک گلی میں موجود بوسیدہ گھر میں جھارا کی بیوہ سائرہ بانو اور دوسرے اہل خانہ سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔پراپرٹی کا ماہانہ کرایہ 20ہزار روپے آتا ہے جس سے گھر کا گزر بسر ہوتا ہے۔
ایکسپریس سے بات چیت میں جھارا پہلوان کی بیوہ سائرہ بانو کا کہنا تھا ہم جس گھر میں رہے ہیں جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں ہی اسے خریدا تھا،اگر یہ گھر بھی نہ ہوتا تو ہم کدھر جاتے،جھارا کے چلے جانے کے بعد اس کے بھائی اور میرے دیور عابد مجھے ماہانہ۔20ہزار روپے دیتے ہیں جس سے ہمارے گھر کا نظام چلتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 2016ء میں بھارت گئی تھی تو جھارا پہلوان کی اہلیہ ہونے کے ناطے مجھے وہاں پر چیف گیسٹ بنایا گیا، اتنی عزت دی گئی کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔اپنے 10 سالہ پوتے راحیل کو بھی جھارا کی طرح بڑا پہلوان بنانا چاہتی ہوں لیکن تیاری کے لئے ماہانہ لاکھوں روپے کا خرچہ آتا ہے، گھر کی دال روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتی ہوں۔
سائرہ بانو کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے مالی مدد کی بار بار اپیل کرتے ہوئے تھک چکی ہوں، اگر حکومت مدد نہیں کر سکتی تو کم از کم مجھے کہیں نوکری ہی دے دے۔جھارا پہلوان کی بیوہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امام بخش کو اوکاڑہ میں زمین الاٹ کی تھی لیکن اس پر بھی قبضہ کر کے پارک بنا دیا گیا ہے،حکومت کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ اوقاف کی زمین ہے، سائرہ بانو نے سوال اٹھایا کہ حکومت کی طرف سے تحفہ میں دی گئی زمین کیسے واپس لی جا سکتا ہے۔
''اوئے میرے چاچے نوں بچاؤ، خدا دا واسطہ جے میرے چاچے نوں بچاؤ۔''چاچا تو نہ بچ سکا مگر اس کے اندر ایک آگ سی لگ گئی۔ جب کراچی میں حیدری اکھاڑے میں صف ماتم بچھی تھی تو وہ اپنے کم سن پہلوان کے ساتھ سینگ اڑائے کھڑا تھا۔
''میں چاچے کا بدلہ ضرور لوں گا، اس نے اپنی آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا۔''ظالم نے میرے چاچے کا بازو توڑ دیا ہے۔ میں اس کی ٹانگیں توڑ ڈالوں گا۔'' اور پھر اس نے اپنا کہا سچ کردکھایا اور دنیا کے نامور جاپانی پہلوان انوکی کو چند برس کے بعد ہی ہرا کر نہ صرف اپنے چچا کا بدلہ لیا بلکہ عالمی شہرت بھی حاصل کی، وہ 11 سالہ کمسن بچہ محمد زبیرتھا جسے آج بھی دنیا جھارا پہلوان کے نام سے جانتی ہے-
جھارا پہلوان کی 10 ستمبر کو 28ویں برسی تھی راقم نے ان کی برسی کے حوالے سے ایکسپریس نیوز کے لئے پیکیج تیار کیا، زبیر عرف جھارا کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جھارا پہلوان کے حوالے سے بننے والے میرے اس پیکیج کو ساڑھے تین لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھا۔
پاکستان کے مشہور پہلوان محمد زبیر عرف جھارا پہلوان ،1960 ء میں پیدا ہوئے، اپنے وقت کے طاقت کے طوفان جھارا اپنے کیریئر میں 60 سے زائد ملکی اور غیر ملکی مقابلوں میں ناقابل شکست رہے۔ پاکستان کے معروف پہلوان تھے۔ ان کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد اسلم پہلوان رستم پنجاب اور رستم ایشیا اور تایا بھولو پہلوان رستم زماں بھی ممتاز پہلوان تھے۔ان کے خاندان کے دیگر ممتاز پہلوانوں کے نام۔ گاماں پہلوان رستم زماں (والد کے تایا)، امام بخش پہلوان رستم ھند (دادا)، بھولو پہلوان رستم زماں (تایا)، غلام پہلوان امرتسریہ رستم زماں (پڑنانا)، اچھا پہلوان رستم پنجاب و رستم ایشیا جھارا نے 16 برس کی عمر میں بین الاقوامی کشتی لڑنے کا آغاز کیا تھا اس کا قد 6 فٹ 2 انچ اور وزرن تقریبا 96 کلوگرام تھا۔
جھارا پہلوان اپنے مختصر عرصہ حیات میں ناقابل شکست رہے۔ابتدائی دنوں میں جھارا نے پہلی پیشہ ورانہ کشتی ملتان میں زوارپہلوان ملتانی سے لڑی۔ انہوں نے ملتانی کو دو دفعہ شکست دی۔ انہیں فخر پاکستان اور رستم پاکستان کے خطابات بھی عطا ہوئے۔ وہ صرف 31 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور موہنی روڈ لاہور میں بھولو پہلوان کے اکھاڑے میں دفن ہیں۔
12 اکتوبر 1971ء کو امام بخش رستم ہند کا انتقال ہو گیا تو بھولو پہلوان نے اپنے خاندان کی ڈوبتی ناؤ سنبھالنے کے لیے نئے خون کو آگے بڑھا دیا اور پتوار زبیر عرف جھارا پہلوان کے ہاتھ تھما دی۔جھارا پہلوان اچھا پہلوان کی اولاد تھی۔اکی پہلوان کی انوکی کے ہاتھوں شکست کے وقت زبیر عرف جھارا کی عمر تیرہ چودہ سال تھی۔اس نے اپنی معصوم آنکھوں سے اپنے چچا کا بازو ٹوٹتے دیکھا تھا۔
اکھاڑے میں اس کی چیخ و پکار سنی تھی۔ ہار پر اپنے بزرگوں کے ندامت زدہ چہرے دیکھے تھے اور وہ خود بھی اس رسوائی پر بلک بلک کر روایا تھا۔جھارا پہلوان کے ان آنسوؤں کے گواہ بھی حیات ہیں جو12ستمبر1976ء کو کراچی نیشنل اسٹیڈیم میں گرے تھے۔وہ کم سن تھا مگر اسے فتح و شکست کا بھرپور احساس تھا۔تبھی تو جب انوکی نے اس کے چھیالیس سالہ چچا اکی پہلوان کو آرم لاک لگایا تو وہ چلانے لگا تھا۔
1978ء میں ہی انوکی اور جھارے کی کشتی طے پائی۔انوکی کی نظر میں جھارا بچہ تھا۔ حقیقت میں جھارے کی تو ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں جب وہ انوکی کے روبرو ہوا تھا۔انوکی اسے مفت کی کھیر سمجھ کر ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔انوکی سے مقابلے میں ایک سال کا وقفہ تھا۔بھولو نے موہنی روڈ کے اکھاڑے کی جگہ کم دیکھی تو اسے اپنے آبائی اکھاڑے فرخ آباد لے گیا۔ اس کا مقصد جھارے کی نمائش بند کرنا بھی تھا۔ اس نے جھارے پر گھر کے دروازے بند کر دیئے اور ارشد بجلی پہلوان کو ہدایت کر دی کہ جھارے کو اکیلا کبھی نہ چھوڑا جائے۔
فرخ آباد کامران کی بارہ دری کے اس پارگاماں رستم زماں مرحوم کا اکھاڑہ تھا۔ دریائے راوی کے نئے پل کے پار پہلی بائیں طرف کی سڑک فرخ آباد کی چھوٹی بستی کو جاتی ہے۔ سڑک سے ذرا فاصلے پر کچے اور پکے مکانوں کے درمیان نامور گاماں پہلوان کا اکھاڑہ تھا۔ یہاں جھارا کی خوراک کے لیے کمروں میں پھل فروٹ کے ڈھیر لگا دیئے گئے تھے۔ ایک لاکھ روپے کی خوراک خاص طور پر مختص کر دی گئی تھی۔ گندم کا دانہ اس کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔
روٹی کی بجائے پھل، بھنا گوشت ،باداموں و دیگر جواہر کی سردائی اس کی خوراک تھی۔جھارا کی صبح رات دو بجے ہو جاتی تھی۔ ارشد بجلی پہلوان تلوار کی مانند اس کے سر سوار ہوتا تھا۔ وہ اسے اٹھاتا اور اسے اڑھائی ہزار ڈنڈ اور بیٹھک لگواتا۔ پھر لمبی دوڑ کے لیے فرخ آباد سے مینار پاکستان اور لوہاری کی حد فاصل طے کرتا اور جھارا کو لے کر اندھیرے میں گم ہو جاتا۔ جھارا اور ارشد بجلی یادگارپاکستان سے ہوتے لاری اڈہ، اکبری گیٹ، موچی گیٹ، لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ اور پھر بیرون ٹکسالی سے ہوتا ہوا یادگار پاکستان کی طرف سے فرخ آباد پہنچتا۔
دوڑ کے بعد آتے ہی وہ وزنی کسّی سے اکھاڑہ تیار کرتا، سہاگہ چلاتا،لوہے کا کڑا ڈال کر ورزش کرتا۔ آدھ گھنٹہ پی ٹی اور آدھ گھنٹہ سوا من وزنی ڈمبل پھیرتا۔۔۔ پھر دوپہر کے اڑھائی بجے سے چھ سات بجے تک ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک لگاتا، بڑے بھائی سہیل ،اکرام، دبیر،بلو اور دیگر چھوٹے بڑے پہلوانوں سے کئی کئی مرتبہ زور کرتا۔ اس کے بعد اکٹھی ڈنڈ بیٹھک اور ڈمبل پھیرتا۔ فرخ آباد ہی میں جھارا کے لیے بہاولپور اور دیگر شہروں سے چند بڑے شاہ زور بلوائے گئے جنہوں نے جھارا کو نئے داؤں سے روشناس کردیا۔ فرخ آباد کے بعد جھارے کو آبائی اکھاڑے اوکاڑہ لے جایا گیا۔
یہاں ان کو حکومت کی طرف سے زمینیں ملی تھیں اور جب کبھی کوئی بڑی کشتی ہوتی، پہلوان کو یہاں لاکر زور کرایا جاتا تھا۔ 17 جون 1979ء کا دن بھی آپہنچا۔چالیس ہزار کا جم غفیر اسٹیڈیم پہنچ گیا تھا۔ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک گئی تھیں۔ جو ٹکٹ حاصل نہ کرسکے،بلابولنے لگے تو لاٹھی چارج کرنا پڑ گیا۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ کشتی دیکھنے خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود تھی مگر جنس مخالف نے انہیں اسٹیڈیم میں داخل نہ ہونے دیا۔جھارا پہلوان سرخ گاؤن اور بڑی پگڑی سر پر جمائے اکھاڑے میں نمودار ہوا۔
گاؤن پر واضح الفاظ میں پاکستان درج تھا۔انوکی کا پیرہن بھی سرخ ہی تھا۔پولینڈ کا ریفری برنارڈ وجوواسکی دونوں حریفوں کو اکھاڑے میں بلا چکا تو اعلان کیا گیا کہ مقابلہ چھ راؤنڈ میں ہوگا۔ہر راؤنڈ پانچ منٹ جاری رہے گا۔ اس مقابلے میں جھارا نے انوکی کی وہ درگت بنائی کہ چھٹا راؤنڈ شروع ہونے سے پہلے ہی انوکی نے جھارا کا ہاتھ فضا میں بلند کر کے اپنی شکست کا اعتراف کر لیا۔
جھارا پہلوان صرف 31 برس کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو گئے،ان نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں جو جھارا پہلوان ہی کے گھر موہنی روڈ پر رہائش پذیر ہیں، تنگ وتاریک گلی میں موجود بوسیدہ گھر میں جھارا کی بیوہ سائرہ بانو اور دوسرے اہل خانہ سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔پراپرٹی کا ماہانہ کرایہ 20ہزار روپے آتا ہے جس سے گھر کا گزر بسر ہوتا ہے۔
ایکسپریس سے بات چیت میں جھارا پہلوان کی بیوہ سائرہ بانو کا کہنا تھا ہم جس گھر میں رہے ہیں جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں ہی اسے خریدا تھا،اگر یہ گھر بھی نہ ہوتا تو ہم کدھر جاتے،جھارا کے چلے جانے کے بعد اس کے بھائی اور میرے دیور عابد مجھے ماہانہ۔20ہزار روپے دیتے ہیں جس سے ہمارے گھر کا نظام چلتا ہے۔ انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 2016ء میں بھارت گئی تھی تو جھارا پہلوان کی اہلیہ ہونے کے ناطے مجھے وہاں پر چیف گیسٹ بنایا گیا، اتنی عزت دی گئی کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔اپنے 10 سالہ پوتے راحیل کو بھی جھارا کی طرح بڑا پہلوان بنانا چاہتی ہوں لیکن تیاری کے لئے ماہانہ لاکھوں روپے کا خرچہ آتا ہے، گھر کی دال روٹی بڑی مشکل سے پوری کرتی ہوں۔
سائرہ بانو کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے مالی مدد کی بار بار اپیل کرتے ہوئے تھک چکی ہوں، اگر حکومت مدد نہیں کر سکتی تو کم از کم مجھے کہیں نوکری ہی دے دے۔جھارا پہلوان کی بیوہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امام بخش کو اوکاڑہ میں زمین الاٹ کی تھی لیکن اس پر بھی قبضہ کر کے پارک بنا دیا گیا ہے،حکومت کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ اوقاف کی زمین ہے، سائرہ بانو نے سوال اٹھایا کہ حکومت کی طرف سے تحفہ میں دی گئی زمین کیسے واپس لی جا سکتا ہے۔