سلطان جوہرکپ ہاکی جونیئرز بھی سینئرز کے نقش قدم پر چل پڑے
پاکستان میں مستقبل میں بہتری کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔
ماضی میں کارناموں کی طویل تاریخ رکھنے والی پاکستان ہاکی گذشتہ دو دہائیوں سے پستی کی راہ پر گامزن ہے، ہر آنے والا سال نئی مایوسی لے کر آتاہے، کبھی ایشیا کپ نہیں جیت پاتے تو کبھی ورلڈ کپ میں آخری پوزیشن مقدر بنتی ہے۔
حال ہی میں قومی کھیل نے قوم کو ایسا صدمہ دیا ہے جس کا تصور شاید کبھی نہ کیا گیا ہو۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ ورلڈ کپ کا انعقاد ماضی کی سپرپاور کے بغیر ہوگا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے لاکھ کوششوں کے باوجود ہاکی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا خواب پورا نہیں کیا جاسکا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق گرین شرٹس کی پرفارمنس بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ ذمہ داران بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں تو کھلاڑی سخت محنت کے باوجود اہم مقابلوں میں فتح حاصل نہیں کرپا رہے۔
ورلڈ ہاکی لیگ میں ناقص کارکردگی ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم کرگئی۔ ایونٹ میں ٹیم کے عمدہ آغاز کے بعدکوارٹرفائنل میں شکست نے براہ راست ورلڈ کپ کھیلنے کی امیدوں پر پانی پھیرا۔ گروپ سٹیج میں تو فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھا مگر جیسے ہی ایسا میچ آیا جس میں ہار سے ایونٹ میں باہر ہونے کا خطرہ موجود تھا تو کھلاڑیوں کا مورال گرگیا، آسان میچز میں حریفوں پر شیروں کی مانند جھپٹنے والے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچتے ہی بھیگی بلی بن گئے اور کمتر رینکنگ کوریا نے شکست دے کر میگا ایونٹ میں رسائی کا خواب چکنا چور کردیا۔
اس کے بعد گرین شرٹس کے پاس ورلڈ کپ کھیلنے کا ایک ہی موقع بچا تھا کہ ایشیا کپ جیت لے، فیڈریشن حکام نے ورلڈ ہاکی لیگ میں ناکامی کا ملبہ کوچ حنیف خان پر ڈالتے ہوئے انہیں برطرف کردیا اور ان کی جگہ طاہر زمان کو نیا کوچ مقرر کیا گیا۔ ایشیا کپ کی تیاری کے لیے ایک ماہ تک لاہور میں لگائے جانے والے کیمپ میں کھلاڑیوں کو رمضان المبارک کے باوجود سخت محنت کروائی گئی اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ ایشیا کپ میں شریک ہونے والی ٹیم ورلڈ لیگ کی طرح تمام گروپ میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچی لیکن جیسے ہی ناک آؤٹ مرحلہ آیا تو کھلاڑیوں کے چہرے مرجھا گئے۔
اس بار بھی بدقسمتی سے اس کا سامنا جنوبی کوریا سے ہوا جس نے ایک بار پھر شکست دے کر پاکستانی قوم کو وہ صدمہ دیا جو ہاکی کی 66سالہ تاریخ میں شاید کبھی نہ ملا ہو۔ ماضی میں عالمی میدانوں پر حکمرانی کرنے والے ملک کے ورلڈ کپ 2014ء سے باہرہونے پر شائقین مایوسی کے اندھیروں سے آج تک نہیں نکل سکے، سابق کھلاڑیوں کے ساتھ قوم بھی اسے ہاکی کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیتی رہی لیکن کرسی سے چمٹے رہنے کے شوقین فیڈریشن عہدیداروں کی جانب سے روایتی بیانات کا سلسلہ جاری رہا کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی مثالی تھی مگر مقدر نے یاوری نہیں کی، آخر ان سے پوچھا جائے کہ ہر بار قسمت پاکستان کا ہی کیوں ساتھ نہیں دیتی؟ ارجنٹائن، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور بیلجیم جیسے ملکوں کے پاس ماضی کے عظیم کارنامے نہیں تھے جن کے گُن گاتے رہتے۔ انھوں نے محنت کے ساتھ مستقبل کی بہتر پلاننگ کرکے مستقبل سنوارا، سنہرے دور پر انحصار کرنے کی بجائے انھوں نے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جبکہ ہمارے ہاں 20 سال سے گراس روٹ لیول پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
1994ء میں ورلڈ کپ اور چیمپئز ٹرافی جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم انٹرنیشنل سطح پر فتوحات کا راستہ ایسے بھٹکی کہ ہر گزرنے والا سال مزید زوال کی جانب بڑھتا رہا۔ عہدیداروں سے پوچھا جائے تو ہربار کہتے ہیں کہ بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا، سخت محنت کررکھی ہے، کچھ نہ کچھ ضرور کردکھائیں گے مگر نتیجہ وہی پرانا بلکہ اس سے بھی برا۔ قومی ٹیم نے آخری بار بڑا ٹائٹل 1994ء میں جیتا، اس کے بعد 1998ء اور 2002ء کے ورلڈ کپ میں پانچویں پوزیشن آئی ، 2006ء میں ایک درجے اور تنزلی ہوئی۔ 2010ء کے ورلڈ کپ میں تو گرین شرٹس 12 میں سے آخری ٹیم تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 4 بار ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کس ڈگر پر چل پڑی ہے۔ 4سال بعد وہ درد ناک لمحہ بھی آگیا کہ پاکستان 2014ء کے ورلڈ کپ میں کھیلنے کا اہل ہی قرار نہیں پایا۔
پاکستان ہاکی کے اس سانحہ پر اول تو پی ایچ ایف عہدید ار ناکامی کی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ خدا خدا کر کے سیکرٹری آصف باجوہ مستعفی ہوگئے، چیف کوچ اختر رسول نے بھی بظاہر ناکامیوں کے اعتراف میں خود کو ٹیم سے الگ کرلیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی نظریں اب پی ایچ ایف کی صدارت پر ہیں، آئندہ الیکشن میں وہ ایک مضبوط امیدوار کے طور پر میدان میں ہوں گے۔ مینجمنٹ نے گذشتہ10 برسوں کی روایت قائم رکھتے ہوئے ایک بار پھر نئے ایونٹس کے لیے ٹیم کی تشکیل نو کا اعلان کرتے ہوئے 10 سینئرز کو ڈراپ کردیا۔
اس دوران ایک اور خبر بھی شائقین ہاکی کو مل چکی، ناکامیوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی ٹیم کے مسیحاؤں نے ملک میں پی او اے کے دھڑوں میں جاری برتری کی جنگ کا فریق بنتے ہوئے ٹیم کو کامن ویلتھ گیمز کھیلنے سے ہی محروم کردیا۔ قومی ٹیم کو اب 9 اے سیریزاور ایشین چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرنا ہے، بڑے کیا گل کھلاتے ہیں،اس کا اندازہ تو تب ہی ہوگا جب نو آموز کھلاڑیوں کی نئی کھیپ میدان میں اترے گئی۔ ہماری امیدوں کا مرکز جونیئرز ہی ہوسکتے جن کی اچھی کارکردگی چند سال بعد بہتر نتائج کی آس دلا سکتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ چھوٹے بھی بڑوں کے نقش قدم پر چلتے نظر آرہے ہیں۔
ملائیشیا میں جاری سلطان آف جوہر ہاکی ٹورنامنٹ میں جونیئرٹیم نے سینئرز کی طرح شاندار آغاز کیا، انگلینڈ اور کوریا کو بڑے مارجن سے شکست دے کر امیدیں جگائیں کہ قومی کھیل کا مستقبل روشن ہے، جیسے ہی بھارتی ٹیم سامنے آئی تو کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، اس ناکامی نے حوصلے اس قدر پست کردیئے کہ اگلے میچ میں ملائیشیا نے بھی یکطرفہ میچ میں پسپا کرتے ہوئے ٹائٹل کی جانب پیش قدمی روک دی۔بعدازاں برونز میڈ ل میچ میں بھی مایوسیوں کے سیوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
کہتے ہیں قوموں کی ترقی کا اندازہ ان کی کھیل میں کارکردگی سے بھی لگایا جاسکتا ہے، سپرپاور امریکا اولمپکس میں بھی سرفہرست ہے، دوسری طرف پاکستان میں سیاسی اور معاشرتی پستی کی طرح کھیل بھی زوال کی جانب گامزن ہیں۔کرکٹ ہو یا ہاکی، سکواش ہو یا دیگر سپورٹس بہتری کے لیے کئی جانے والی تمام تدبیریں رائیگاں جارہی ہیں، اس کی ایک وجہ ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کا قحط بھی ہے مگر سارا ملبہ اسی صورتحال پر ڈال دینا درست نہیں ہوگا، اس کی ایک مثال جنوبی افریقہ ہے جس پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے عشروں بند رہے مگر جیسے ہی واپسی ہوئی ایک طاقت بن کر سامنے آئے، اس کی وجہ وہاں انفراسٹرکچر کی بہتری تھی۔
پاکستان نے بھی اگر کھیلوں پر حکمرانی کے جھنڈے گاڑھنے ہیں تو اسے گراس روٹ لیول پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسکولز لیول پر کھیلوں کا فروغ ، چھوٹے شہروں میں کھلاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق سہولیات کی فراہمی، ایونٹس کا زیادہ سے زیادہ انعقاد اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جب نچلی سطح پر ہی پلیئرز کو کھیلوں کی بنیادی تکنیک اور فٹنس بہتر بنانے کا شعور ملے گا تو بین الاقوامی سطح پر نتائج بھی اچھے نکلیں گے، حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سپورٹس کے لیے سہولیات فراہم کرے، اچھے نتائج دینے والوں کو سرآنکھوں پر بٹھایا جائے تو دوسری طرف ناقص کارکردگی کے ذمہ دار عہدیداروں کے کڑے احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔
حال ہی میں قومی کھیل نے قوم کو ایسا صدمہ دیا ہے جس کا تصور شاید کبھی نہ کیا گیا ہو۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہوگا کہ ورلڈ کپ کا انعقاد ماضی کی سپرپاور کے بغیر ہوگا۔ گذشتہ دو دہائیوں سے لاکھ کوششوں کے باوجود ہاکی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کا خواب پورا نہیں کیا جاسکا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق گرین شرٹس کی پرفارمنس بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ ذمہ داران بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں تو کھلاڑی سخت محنت کے باوجود اہم مقابلوں میں فتح حاصل نہیں کرپا رہے۔
ورلڈ ہاکی لیگ میں ناقص کارکردگی ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم کرگئی۔ ایونٹ میں ٹیم کے عمدہ آغاز کے بعدکوارٹرفائنل میں شکست نے براہ راست ورلڈ کپ کھیلنے کی امیدوں پر پانی پھیرا۔ گروپ سٹیج میں تو فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھا مگر جیسے ہی ایسا میچ آیا جس میں ہار سے ایونٹ میں باہر ہونے کا خطرہ موجود تھا تو کھلاڑیوں کا مورال گرگیا، آسان میچز میں حریفوں پر شیروں کی مانند جھپٹنے والے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچتے ہی بھیگی بلی بن گئے اور کمتر رینکنگ کوریا نے شکست دے کر میگا ایونٹ میں رسائی کا خواب چکنا چور کردیا۔
اس کے بعد گرین شرٹس کے پاس ورلڈ کپ کھیلنے کا ایک ہی موقع بچا تھا کہ ایشیا کپ جیت لے، فیڈریشن حکام نے ورلڈ ہاکی لیگ میں ناکامی کا ملبہ کوچ حنیف خان پر ڈالتے ہوئے انہیں برطرف کردیا اور ان کی جگہ طاہر زمان کو نیا کوچ مقرر کیا گیا۔ ایشیا کپ کی تیاری کے لیے ایک ماہ تک لاہور میں لگائے جانے والے کیمپ میں کھلاڑیوں کو رمضان المبارک کے باوجود سخت محنت کروائی گئی اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ ایشیا کپ میں شریک ہونے والی ٹیم ورلڈ لیگ کی طرح تمام گروپ میچ جیت کر سیمی فائنل میں پہنچی لیکن جیسے ہی ناک آؤٹ مرحلہ آیا تو کھلاڑیوں کے چہرے مرجھا گئے۔
اس بار بھی بدقسمتی سے اس کا سامنا جنوبی کوریا سے ہوا جس نے ایک بار پھر شکست دے کر پاکستانی قوم کو وہ صدمہ دیا جو ہاکی کی 66سالہ تاریخ میں شاید کبھی نہ ملا ہو۔ ماضی میں عالمی میدانوں پر حکمرانی کرنے والے ملک کے ورلڈ کپ 2014ء سے باہرہونے پر شائقین مایوسی کے اندھیروں سے آج تک نہیں نکل سکے، سابق کھلاڑیوں کے ساتھ قوم بھی اسے ہاکی کے لیے ایک سیاہ دن قرار دیتی رہی لیکن کرسی سے چمٹے رہنے کے شوقین فیڈریشن عہدیداروں کی جانب سے روایتی بیانات کا سلسلہ جاری رہا کہ کھلاڑیوں کی کارکردگی مثالی تھی مگر مقدر نے یاوری نہیں کی، آخر ان سے پوچھا جائے کہ ہر بار قسمت پاکستان کا ہی کیوں ساتھ نہیں دیتی؟ ارجنٹائن، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اور بیلجیم جیسے ملکوں کے پاس ماضی کے عظیم کارنامے نہیں تھے جن کے گُن گاتے رہتے۔ انھوں نے محنت کے ساتھ مستقبل کی بہتر پلاننگ کرکے مستقبل سنوارا، سنہرے دور پر انحصار کرنے کی بجائے انھوں نے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جبکہ ہمارے ہاں 20 سال سے گراس روٹ لیول پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
1994ء میں ورلڈ کپ اور چیمپئز ٹرافی جیتنے کے بعد پاکستان ٹیم انٹرنیشنل سطح پر فتوحات کا راستہ ایسے بھٹکی کہ ہر گزرنے والا سال مزید زوال کی جانب بڑھتا رہا۔ عہدیداروں سے پوچھا جائے تو ہربار کہتے ہیں کہ بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا، سخت محنت کررکھی ہے، کچھ نہ کچھ ضرور کردکھائیں گے مگر نتیجہ وہی پرانا بلکہ اس سے بھی برا۔ قومی ٹیم نے آخری بار بڑا ٹائٹل 1994ء میں جیتا، اس کے بعد 1998ء اور 2002ء کے ورلڈ کپ میں پانچویں پوزیشن آئی ، 2006ء میں ایک درجے اور تنزلی ہوئی۔ 2010ء کے ورلڈ کپ میں تو گرین شرٹس 12 میں سے آخری ٹیم تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 4 بار ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کس ڈگر پر چل پڑی ہے۔ 4سال بعد وہ درد ناک لمحہ بھی آگیا کہ پاکستان 2014ء کے ورلڈ کپ میں کھیلنے کا اہل ہی قرار نہیں پایا۔
پاکستان ہاکی کے اس سانحہ پر اول تو پی ایچ ایف عہدید ار ناکامی کی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں تھے۔ خدا خدا کر کے سیکرٹری آصف باجوہ مستعفی ہوگئے، چیف کوچ اختر رسول نے بھی بظاہر ناکامیوں کے اعتراف میں خود کو ٹیم سے الگ کرلیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی نظریں اب پی ایچ ایف کی صدارت پر ہیں، آئندہ الیکشن میں وہ ایک مضبوط امیدوار کے طور پر میدان میں ہوں گے۔ مینجمنٹ نے گذشتہ10 برسوں کی روایت قائم رکھتے ہوئے ایک بار پھر نئے ایونٹس کے لیے ٹیم کی تشکیل نو کا اعلان کرتے ہوئے 10 سینئرز کو ڈراپ کردیا۔
اس دوران ایک اور خبر بھی شائقین ہاکی کو مل چکی، ناکامیوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی ٹیم کے مسیحاؤں نے ملک میں پی او اے کے دھڑوں میں جاری برتری کی جنگ کا فریق بنتے ہوئے ٹیم کو کامن ویلتھ گیمز کھیلنے سے ہی محروم کردیا۔ قومی ٹیم کو اب 9 اے سیریزاور ایشین چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرنا ہے، بڑے کیا گل کھلاتے ہیں،اس کا اندازہ تو تب ہی ہوگا جب نو آموز کھلاڑیوں کی نئی کھیپ میدان میں اترے گئی۔ ہماری امیدوں کا مرکز جونیئرز ہی ہوسکتے جن کی اچھی کارکردگی چند سال بعد بہتر نتائج کی آس دلا سکتی ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ چھوٹے بھی بڑوں کے نقش قدم پر چلتے نظر آرہے ہیں۔
ملائیشیا میں جاری سلطان آف جوہر ہاکی ٹورنامنٹ میں جونیئرٹیم نے سینئرز کی طرح شاندار آغاز کیا، انگلینڈ اور کوریا کو بڑے مارجن سے شکست دے کر امیدیں جگائیں کہ قومی کھیل کا مستقبل روشن ہے، جیسے ہی بھارتی ٹیم سامنے آئی تو کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، اس ناکامی نے حوصلے اس قدر پست کردیئے کہ اگلے میچ میں ملائیشیا نے بھی یکطرفہ میچ میں پسپا کرتے ہوئے ٹائٹل کی جانب پیش قدمی روک دی۔بعدازاں برونز میڈ ل میچ میں بھی مایوسیوں کے سیوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
کہتے ہیں قوموں کی ترقی کا اندازہ ان کی کھیل میں کارکردگی سے بھی لگایا جاسکتا ہے، سپرپاور امریکا اولمپکس میں بھی سرفہرست ہے، دوسری طرف پاکستان میں سیاسی اور معاشرتی پستی کی طرح کھیل بھی زوال کی جانب گامزن ہیں۔کرکٹ ہو یا ہاکی، سکواش ہو یا دیگر سپورٹس بہتری کے لیے کئی جانے والی تمام تدبیریں رائیگاں جارہی ہیں، اس کی ایک وجہ ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کا قحط بھی ہے مگر سارا ملبہ اسی صورتحال پر ڈال دینا درست نہیں ہوگا، اس کی ایک مثال جنوبی افریقہ ہے جس پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے عشروں بند رہے مگر جیسے ہی واپسی ہوئی ایک طاقت بن کر سامنے آئے، اس کی وجہ وہاں انفراسٹرکچر کی بہتری تھی۔
پاکستان نے بھی اگر کھیلوں پر حکمرانی کے جھنڈے گاڑھنے ہیں تو اسے گراس روٹ لیول پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اسکولز لیول پر کھیلوں کا فروغ ، چھوٹے شہروں میں کھلاڑیوں کو عالمی معیار کے مطابق سہولیات کی فراہمی، ایونٹس کا زیادہ سے زیادہ انعقاد اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ضروری ہے جب نچلی سطح پر ہی پلیئرز کو کھیلوں کی بنیادی تکنیک اور فٹنس بہتر بنانے کا شعور ملے گا تو بین الاقوامی سطح پر نتائج بھی اچھے نکلیں گے، حکومت کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے سپورٹس کے لیے سہولیات فراہم کرے، اچھے نتائج دینے والوں کو سرآنکھوں پر بٹھایا جائے تو دوسری طرف ناقص کارکردگی کے ذمہ دار عہدیداروں کے کڑے احتساب کا نظام رائج کیا جائے۔