ماریہ طور۔۔۔۔۔عزم و ہمت کی روشن مثال
پاکستانی اسٹار کی سکواش میں کامیابیوں کا سفر جاری ہے۔
پاکستان کی نمبر ون سکواش پلیئر ماریہ طور نے حال ہی میں ناش کپ کا پہلا ویمنز ایونٹ جیت کر تاریخ میں اپنا نام درج کرا لیا ہے،انہوں نے فائنل میں ٹاپ سیڈ ہالینڈ کی ملو وین در ویجدن کو شکست دے کر چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ماریہ طور کا یہ تیسرا سکواش ایسوسی ایشن ٹائٹل ہے، اس سے قبل انہوں نے گزشتہ سال ساؤتھ ویسٹ اور لبرٹی بیل اوپن اعزاز اپنے نام کئے تھے۔
یاد رہے کہ 22 سالہ ماریہ طور پاکستان میں سکواش کی بہترین خواتین پلیئرز میں سرفہرست اور اس وقت کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور کی اکیڈمی میں زیر تربیت ہیں۔ دیکھا جائے تو ماریہ کے لیے جنوبی وزیرستان سے ٹورنٹو اور عالمی ٹائٹلز کے حصول تک کا سفر اتنا آسان نہیں رہا ہے، انہیں بجا طور پر ملکی خواتین کے لیے عزم ہمت کی ایک روشن مثال قرار دیا جاسکتا ہے، ان کا تعلق ایک ایسے علاقہ سے ہے جہاں لڑکیوں کا کھیلنا تو درکنار گھر کے کسی مرد کے بغیر باہر نکلنا بھی برا سمجھا جاتا ہے لیکن ماریہ بچپن سے ہی اپنے بھائیوں کی طرح باہر گھومنا اور کھیلنا چاہتی تھیں۔ایک دن جب ان کے والدین گھر پر نہیں تھے تو انہوں نے اپنے بال کاٹ لئے اور بھائی کے کپڑے پہن کر اپنے زنانہ لباس کو آگ لگا دی، اس وقت ان کی عمر محض 4 سال تھی۔
گھر واپسی پر یہ حالت دیکھ کر والد شمس القیوم ہنسنے لگے اور اس روز ماریہ کو ایک نیا نام ملا، چنگیز خان۔ پھر تو کسی نہ کسی لڑکے سے لڑ کر آنا ماریہ کا روز کا کام ہو گیا، وہ گھر جاتیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پر خراشیں اور آنکھ اور چہرے پر چوٹیں لگی ہوتیں۔ خاندان قبائلی علاقے سے پشاور میں منتقل ہوگیا تو بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ماریہ نے سکواش کے کھیل میں دلچسپی ظاہر کی تو والد انہیں ایک ایسی اکیڈمی لے گئے جس کا انتظام پاکستان ایئر فورس کرتی تھی، یہاں بھی شمس نے ماریہ کو اپنے بیٹے کے طور پر ہی متعارف کروایا لیکن جب ان کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تو مجبوراً انہیں حقیقت بتانا پڑی۔
اکیڈمی کے ڈائریکٹر یہ جان کر بہت خوش ہوئے، پہلی بار لڑکی کے طور پر متعارف کروائے جانے سے ماریہ کو کوئی فرق نہیں پڑا،ان کا کہنا ہے کہ اپنے دماغ سے میں ہمیشہ چنگیز خان ہی رہی، مجھے لگتا تھا کہ جب میں لڑتی ہوں تو لوگ میری بات سنتے ہیں۔ سکواش اکیڈمی میں پہلے ماہ تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ایک لڑکی ہیں لیکن اس کے بعد لڑکوں خاص طور پر جنہیں ماریہ نے ہرایا تھا ان کا رویہ بدل گیا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو سکواش کی تربیت دینا شروع کی، دونوں پریکٹس کے لیے ایک دوسرے کا سہارا اور سیکھنے کا ذریعہ بن گئے۔ ماریہ نے سخت محنت سے 2004 تک پاکستان کی ٹاپ رینکنگ کھلاڑی بن گئیں، 2007 میں مصر میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی اور کئی بہتر درجہ بندی والے کھلاڑیوں کو شکست دیکر روشن مستقبل کی امید سنادی۔ملک کی حدود پھلانگتی ہوئی شہرت ایک تیز تلوار تھی اور ماریہ کے والد کو دھمکیاں ملنے لگیں۔شمس القیوم کو کار کے شیشے پر ایک خط چپکا ہوا ملا جس میں کہا گیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو سکواش کھیلنے سے روکوں کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے،انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
ان حالات میں ماریہ گھر پر ہی مشق کرنے تک محدود ہوگئیں، پاکستان سکواش فیڈریشن کی طرف سے معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے اٹھائے جانے پر حکومت نے انہیں سکیورٹی فراہم کردی۔ان اقدامات کے باوجود انجانے خوف کے سائے ماریہ کا پیچھا کرتے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے لیے ڈر نہیں لگتا تھا، میں ایک سپاہی رہی ہوں اور سپاہی کی طرح ہی مروں گی لیکن مجھے دوسروں کے لیے ڈر لگتا تھا۔کھیل کے لیے بیٹی کی لگن دیکھ کر شمس القیوم نے کہا کہ اگر تم سکواش کھیلنا چاہتی ہو تو ملک چھوڑ دو، یہی ایک راستہ ہے۔والد کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد تقریباً ساڑھے 3 سال تک ماریہ نے کسی مغربی ملک میں تربیت حاصل کرنے کی خواہش کے تحت ہزاروں ای میلز کیں، انہوں نے تمام سکواش اکیڈمیوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، کلبوں، سکولوں سمیت ہر اس جگہ پر پیغام بھیجا جہاں تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا سکتا تھا۔ان میں سے ایک ای میل سکواش کے سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور تک بھی پہنچی۔
ماریہ نے لکھا تھا کہ وہ کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کھیل رہی ہے اور موقع مل جائے تو دنیا کی سب سے بہترین کھلاڑی بننا چاہتی ہے۔جوناتھن کے مطابق خود وہ جہانگیر خان جیسے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت متاثر تھے لیکن انہیں یقین نہیں تھا کہ وہاں سے کوئی خاتون کھلاڑی بھی آ سکتی ہے، تاہم ان کی ساتھی نے انہیں بتایا کہ ماریہ ایک اچھی کھلاڑی ہیں اور ورلڈ سکواش چیمپئن شپ میں تیسری پوزیشن پر رہی تھیں۔
جوناتھن نے ماریہ کو کینیڈا بلوانے کا فیصلہ کیا لیکن اُن کو کو یقین دلانے کے لیے کہ وہ مذاق نہیں کر رہے، انہیں تین مرتبہ ای میل کرنی پڑی۔خاندان کو چھوڑ کر اکیلے اتنی دور جانا آسان نہیں تھا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھیں۔ شمس القیوم کے ایک دوست امریکہ میں رہتے تھے، انہوں نے ماریہ کو پہلے نارتھ کیرولینا میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔وہاں پہنچ کر ماریہ نے جوناتھن کو ای میل کی اور کینیڈا کا رخ کیا جہاں ہوائی اڈے پر سابق عالمی چیمپئن خود ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
جوناتھن کے خیال میں ماریہ میں بہترین کھلاڑی بننے کی پوری صلاحیت ہے۔ وہ جلد ہی ٹاپ پلیئرز میں شامل ہو سکتی ہے۔ کیریئر کا ایک اہم سنگ میل عبور کرنے کے بعد مزید کئی منزلیں باہمت پلیئر کی منتظر ہیں، ماریہ کو خود بھی اندازہ ہے کہ اُن کی شخصیت سے بکھرنے والی کرنیں معاشرے کا روشن پہلو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ لڑکیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مثال بنیں گی اور ابھی سے ہی کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کا نام ان کے نام پر رکھنے لگے ہیں۔ ماریہ کے والد کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی ماریہ طور کا یہ تیسرا سکواش ایسوسی ایشن ٹائٹل ہے، اس سے قبل انہوں نے گزشتہ سال ساؤتھ ویسٹ اور لبرٹی بیل اوپن اعزاز اپنے نام کئے تھے۔
یاد رہے کہ 22 سالہ ماریہ طور پاکستان میں سکواش کی بہترین خواتین پلیئرز میں سرفہرست اور اس وقت کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور کی اکیڈمی میں زیر تربیت ہیں۔ دیکھا جائے تو ماریہ کے لیے جنوبی وزیرستان سے ٹورنٹو اور عالمی ٹائٹلز کے حصول تک کا سفر اتنا آسان نہیں رہا ہے، انہیں بجا طور پر ملکی خواتین کے لیے عزم ہمت کی ایک روشن مثال قرار دیا جاسکتا ہے، ان کا تعلق ایک ایسے علاقہ سے ہے جہاں لڑکیوں کا کھیلنا تو درکنار گھر کے کسی مرد کے بغیر باہر نکلنا بھی برا سمجھا جاتا ہے لیکن ماریہ بچپن سے ہی اپنے بھائیوں کی طرح باہر گھومنا اور کھیلنا چاہتی تھیں۔ایک دن جب ان کے والدین گھر پر نہیں تھے تو انہوں نے اپنے بال کاٹ لئے اور بھائی کے کپڑے پہن کر اپنے زنانہ لباس کو آگ لگا دی، اس وقت ان کی عمر محض 4 سال تھی۔
گھر واپسی پر یہ حالت دیکھ کر والد شمس القیوم ہنسنے لگے اور اس روز ماریہ کو ایک نیا نام ملا، چنگیز خان۔ پھر تو کسی نہ کسی لڑکے سے لڑ کر آنا ماریہ کا روز کا کام ہو گیا، وہ گھر جاتیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پر خراشیں اور آنکھ اور چہرے پر چوٹیں لگی ہوتیں۔ خاندان قبائلی علاقے سے پشاور میں منتقل ہوگیا تو بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ماریہ نے سکواش کے کھیل میں دلچسپی ظاہر کی تو والد انہیں ایک ایسی اکیڈمی لے گئے جس کا انتظام پاکستان ایئر فورس کرتی تھی، یہاں بھی شمس نے ماریہ کو اپنے بیٹے کے طور پر ہی متعارف کروایا لیکن جب ان کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تو مجبوراً انہیں حقیقت بتانا پڑی۔
اکیڈمی کے ڈائریکٹر یہ جان کر بہت خوش ہوئے، پہلی بار لڑکی کے طور پر متعارف کروائے جانے سے ماریہ کو کوئی فرق نہیں پڑا،ان کا کہنا ہے کہ اپنے دماغ سے میں ہمیشہ چنگیز خان ہی رہی، مجھے لگتا تھا کہ جب میں لڑتی ہوں تو لوگ میری بات سنتے ہیں۔ سکواش اکیڈمی میں پہلے ماہ تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ ایک لڑکی ہیں لیکن اس کے بعد لڑکوں خاص طور پر جنہیں ماریہ نے ہرایا تھا ان کا رویہ بدل گیا۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو سکواش کی تربیت دینا شروع کی، دونوں پریکٹس کے لیے ایک دوسرے کا سہارا اور سیکھنے کا ذریعہ بن گئے۔ ماریہ نے سخت محنت سے 2004 تک پاکستان کی ٹاپ رینکنگ کھلاڑی بن گئیں، 2007 میں مصر میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی اور کئی بہتر درجہ بندی والے کھلاڑیوں کو شکست دیکر روشن مستقبل کی امید سنادی۔ملک کی حدود پھلانگتی ہوئی شہرت ایک تیز تلوار تھی اور ماریہ کے والد کو دھمکیاں ملنے لگیں۔شمس القیوم کو کار کے شیشے پر ایک خط چپکا ہوا ملا جس میں کہا گیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو سکواش کھیلنے سے روکوں کیونکہ یہ غیر اسلامی ہے،انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
ان حالات میں ماریہ گھر پر ہی مشق کرنے تک محدود ہوگئیں، پاکستان سکواش فیڈریشن کی طرف سے معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے اٹھائے جانے پر حکومت نے انہیں سکیورٹی فراہم کردی۔ان اقدامات کے باوجود انجانے خوف کے سائے ماریہ کا پیچھا کرتے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے لیے ڈر نہیں لگتا تھا، میں ایک سپاہی رہی ہوں اور سپاہی کی طرح ہی مروں گی لیکن مجھے دوسروں کے لیے ڈر لگتا تھا۔کھیل کے لیے بیٹی کی لگن دیکھ کر شمس القیوم نے کہا کہ اگر تم سکواش کھیلنا چاہتی ہو تو ملک چھوڑ دو، یہی ایک راستہ ہے۔والد کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد تقریباً ساڑھے 3 سال تک ماریہ نے کسی مغربی ملک میں تربیت حاصل کرنے کی خواہش کے تحت ہزاروں ای میلز کیں، انہوں نے تمام سکواش اکیڈمیوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، کلبوں، سکولوں سمیت ہر اس جگہ پر پیغام بھیجا جہاں تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا سکتا تھا۔ان میں سے ایک ای میل سکواش کے سابق عالمی چیمپئن جوناتھن پاور تک بھی پہنچی۔
ماریہ نے لکھا تھا کہ وہ کن مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کھیل رہی ہے اور موقع مل جائے تو دنیا کی سب سے بہترین کھلاڑی بننا چاہتی ہے۔جوناتھن کے مطابق خود وہ جہانگیر خان جیسے پاکستانی کھلاڑیوں سے بہت متاثر تھے لیکن انہیں یقین نہیں تھا کہ وہاں سے کوئی خاتون کھلاڑی بھی آ سکتی ہے، تاہم ان کی ساتھی نے انہیں بتایا کہ ماریہ ایک اچھی کھلاڑی ہیں اور ورلڈ سکواش چیمپئن شپ میں تیسری پوزیشن پر رہی تھیں۔
جوناتھن نے ماریہ کو کینیڈا بلوانے کا فیصلہ کیا لیکن اُن کو کو یقین دلانے کے لیے کہ وہ مذاق نہیں کر رہے، انہیں تین مرتبہ ای میل کرنی پڑی۔خاندان کو چھوڑ کر اکیلے اتنی دور جانا آسان نہیں تھا اور وہ بھی ایسی جگہ جہاں وہ کسی کو جانتی بھی نہیں تھیں۔ شمس القیوم کے ایک دوست امریکہ میں رہتے تھے، انہوں نے ماریہ کو پہلے نارتھ کیرولینا میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔وہاں پہنچ کر ماریہ نے جوناتھن کو ای میل کی اور کینیڈا کا رخ کیا جہاں ہوائی اڈے پر سابق عالمی چیمپئن خود ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
جوناتھن کے خیال میں ماریہ میں بہترین کھلاڑی بننے کی پوری صلاحیت ہے۔ وہ جلد ہی ٹاپ پلیئرز میں شامل ہو سکتی ہے۔ کیریئر کا ایک اہم سنگ میل عبور کرنے کے بعد مزید کئی منزلیں باہمت پلیئر کی منتظر ہیں، ماریہ کو خود بھی اندازہ ہے کہ اُن کی شخصیت سے بکھرنے والی کرنیں معاشرے کا روشن پہلو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ لڑکیوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں مثال بنیں گی اور ابھی سے ہی کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کا نام ان کے نام پر رکھنے لگے ہیں۔ ماریہ کے والد کا کہنا ہے کہ میں نے کبھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔