پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقاتاچھی پیشرفت

تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نیو یارک میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گئی۔


Editorial September 30, 2013
دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے باہمی تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے مذاکرات پر اتفاق کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نیو یارک میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گئی۔

آخری وقت تک ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ ملاقات نہ ہو سکے۔ اس ملاقات سے ایک روز قبل بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے پاکستان اور وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں دھواں دھار تقریر کی اور وہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ پر بھی خوب برسے۔ ہندوستان میں ایک ایسی فضا بن گئی تھی جس سے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں عین وقت پر یہ ملاقات منسوخ نہ ہو جائے لیکن وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم من موہن سنگھ نے انتہائی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملاقات کا فیصلہ کر کے اس خطے کے انتہا پسندوں کے منصوبے ناکام بنا دیے' گو یہ ملاقات اس انداز میں نہ ہو سکی جیسا کہ اس کا شیڈول تھا مگر پھر بھی اسے ایک اہم پیش رفت ضرور کہا جا سکتا ہے۔

پہلے بھارتی وزیراعظم نے اس ہوٹل ناشتے کے لیے پہنچنا تھا جس میں وزیراعظم نواز شریف ٹھہرے ہوئے تھے لیکن بعد میں یہ شیڈول تبدیل ہوا اور وزیراعظم میاں نواز شریف اس ہوٹل گئے جہاں وزیراعظم من موہن سنگھ قیام پذیرتھے۔ بہرحال اس معاملے سے قطع نظرکے یہ ملاقات کامیاب تھی یا ناکام دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات مستقبل میں اچھے اثرات کی حامل ہوگی۔

اخبارات میں شایع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اتوار کو نیو یارک میں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم من موہن سنگھ کے درمیان ملاقات ہوئی جو سوا گھنٹے جاری رہی' اس ملاقات کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ یہ انتہائی مثبت رہی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات بہتر بنانے کا عزم اور خواہش ظاہر کی' انھوں نے کہا کہ میاں نواز شریف نے مسئلہ کشمیر' سیاچن سرکریک' بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور آبی معاملات سمیت تمام تفصیلات مسائل حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن نے بھی اسی قسم کی باتیں کی ہیں۔انھوں نے بھی کہا ہے کہ بات چیت خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ملاقات کتنی مفید اور تعمیری رہی 'اس کا ثبوت آنے والے مہینوں میں مل جائے گا۔ یوں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات دور رس اثرات کی حامل ہو گی۔ دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت بھی دی ہے۔ ممکن ہے کہ جب بھارت کے وزیراعظم پاکستان کے دورے پر آئیں تو وہ جناب من موہن سنگھ نہ ہوں بلکہ کوئی اور ہوں۔ بھارت میں اگلے برس مئی میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے لیے مشکل ہی یہ تھی کہ ان کی جماعت کانگریس آئی نے عام انتخابات میں جانا ہے۔ اگر وہ کوئی لچک دکھاتے تو پھر کانگریس کے لیے عام انتخابات میں مشکلات پیدا ہونا لازمی تھا۔ اس کا عملی مظاہرہ نریندر مودی کی جارحانہ تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف سے جو جملے منسوب ہوئے 'ان کی سچائی کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ممکن ہے اگر کوئی ایسی بات ہوئی بھی ہوگی تو وہ خوشگوار ماحول میں کی گئی ایسی بات ہو گی جس کا مقصد کسی کی توہین یا کسی پر تنقید نہیں ہو گالیکن بھارت میں وہ بات جس طرح پہنچی اور اسے بی جے پی نے جس طرح اچھالا اور نریندر مودی نے ایک جلسہ عام میں عوام میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے اسے جس طرح استعمال کیا 'اسے مثبت سیاست نہیں قرار دیا جا سکتا۔

سیاستدان اگر اپنی انتخابی کامیابی کے لیے عمومی نوعیت کی باتوں کو بڑا ایشو بناکر پیش کریں 'عوام میں نفرت کے بیج بوئیں 'حل طلب مسئلوں کو ناقابل حل بنا کر پیش کریں تو یہ پرلے درجے کی منافقت اور مفاد پرستی کی انتہا ہے۔ بی جے پی بھارت میں جس قسم کی سیاست کر رہی ہے 'وہ وقتی طور پر انتہا پسندوں کو کامیابی تو دلا سکتی ہے لیکن اس خطے کے عوام کو مستقل طور پر دشمنی کی آگ میں دھکیل رہی ہے۔ اب یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ بھارت میں انتہا پسند سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں بھی انتہا پسند انتہائی طاقتور ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند عوام کے ووٹ لے کر کبھی برسراقتدار نہیں آ سکے۔ وہ پریشر گروپ کی صورت میں کام کرتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ میں بھی انتہا پسند پوری طرح معاملات پر کنٹرول نہیں رکھتے لیکن بھارت میں صورت حال زیادہ خطر ناک ہے۔ وہاں بی جے پی جیسی ہندو انتہا پسند جماعت بھاری اکثریت لے کر اقتدار میں آ جاتی ہے۔ آیندہ انتخابات میں بھی اس بات کا امکان ہے کہ بی جے پی برسراقتدار آ جائے۔ اس رجحان سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں رائے عامہ کس حد تک انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہے جب کہ پاکستان میں ایسی صورت حال نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اگر انا کا مسئلہ بناتے تو وہ یہ جواز پیش کر سکتے تھے کہ وہ شیڈول کے مطابق بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کریں گے اور اگر اس شیڈول میں تبدیلی ہو گئی تو وہ یہ ملاقات نہیں کرینگے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔یوں دیکھا جائے تو نیو یارک میں ہونے والی ملاقات کا کریڈٹ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔

بہر حال یہ ملاقات کوئی بڑا بریک تھرو تو پیدا نہیں کر سکی اور بعض حلقے شاید اس ملاقات کو ناکام قرار دیں لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ اس ملاقات سے دونوں جانب کے امن پسند حلقوں کو مثبت پیغام ملا ہے۔اس وقت جنوبی ایشیا جس قسم کی صورت حال سے دوچار ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت چلیں۔اس منزل تک پہنچنے کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو اپنے وقتی مفادات کی قربانی دینا ہو گی۔ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔

اسے زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ بی جے پی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ جنوبی ایشیا کو درپیش مسائل اور خطرات کا ادراک کرے۔ اپنی عوام کو حقائق بتائے۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ دہشتگردی کے معاملے میں دوسروں پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے گھر میں موجود خرابیوں کو تسلیم کرے۔ دہشتگردی ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلانا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ہمارے اندر جو خرابی ہے جب تک ہم اس کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے'اس خرابی کا علاج بھی ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں