دہشت گردوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی جائے

اتوار کو پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار میں کار بم دھماکے میں 41 افراد شہید اور سو کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔


Editorial September 30, 2013
دھماکے سے قصہ خوانی بازار میں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی اور چند لمحوں میں 41 افراد موت کی وادی میں اتر گئے. فوٹو: اے ایف پی

اتوار کو پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار میں کار بم دھماکے میں 41 افراد شہید اور سو کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔

دھماکے سے قصہ خوانی بازار میں قیامت صغریٰ برپا ہو گئی اور چند لمحوں میں 41 افراد موت کی وادی میں اتر گئے اور کئی منزل عمارتیں اور سامان سے لدی دکانیں تباہ ہو گئیں۔ اس دھماکے میں شبقدر سے اپنے عزیزوں کو شادی کی دعوت دینے کے لیے پشاور آنے والے ایک خاندان کے 18 افراد جاں بحق ہو گئے۔ کالعدم تحریک طالبان اور انصار المجاہدین کے ترجمان نے اس بم دھماکے کے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ پشاور میں ایک ہفتے میں دہشت گردی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

22 ستمبر کو تاریخی پاکستان چرچ میں 2 خود کش دھماکوں سے 81 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 27 ستمبر جمعہ کو سرکاری ملازمین کو لے کر جانے والی بس میں بم دھماکے سے 19 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اب ایک بار پھر دہشت گردوں نے پشاور کو خون میں نہلا دیا ہے۔ اتوار کو چھٹی کے باعث قصہ خوانی بازار میں خریداروں کا رش ہوتا ہے' دہشت گردوں نے خاص طور پر اسی دن کا انتخاب کیا جس کے باعث اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اخباری خبر کے مطابق قصہ خوانی اور اس کے ملحقہ بازاروں میں یہ ساتواں دھماکا تھا اس دھماکے کے بعد تاجر برادری نے ایک روزہ شٹر ٹاؤن ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ یوں تو پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے لیکن صوبہ خیبر پختونخوا مسلسل دہشت گردی کا شکار چلا آ رہا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ جب سے مرکز اور صوبے میں نئی حکومتیں برسراقتدار آئی ہیں' دہشت گردوں کے خلاف بڑی کارروائی نظر نہیں آتی اور نہ ہی مرکزی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں سے لڑنے کا عزم ظاہر ہو رہا ہے۔سیاسی قیادت لاشوں پر کھڑی ہو کر دہشت گردوں سے مذاکرات کی باتیں کررہی ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے برسراقتدار آنے والی سیاسی قیادت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کی اس کمزوری یا مصلحت اندیشی کی قیمت بے گناہ عوام چکا رہے ہیں۔خیبر پختونخوا میں صورتحال یہ ہے کہ سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے ہو رہے ہیں ۔فوج کے افسر مارے جا رہے ہیں۔عام بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ کسی ایک دہشت گرد کو بھی نشانہ نہیں بنایا گیابلکہ الٹا عوام کو یہ بھاشن دیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ دنیا کے کسی اور ملک میں سیاسی قیادت اس قسم کے بیانات جاری کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف حالیہ چار پانچ ماہ میں کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی۔

دہشت گردوں کے علاقے تو چھپے ہوئے نہیں ہیں سب کو معلوم ہے کہ ان کے علاقے کونسے ہیں مگر وہاں تک سیکیورٹی اداروں کی رسائی نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کارروائی کی جائے۔ اس سارے معاملے میں پیچیدگی کا باعث سیاستدانوں کا وہ گروہ ہے جو دہشت گردوں سے مذاکرات کا حامی ہے جب کہ دوسرا گروہ ان کے خلاف آپریشن کے لیے صدا بلند کر رہا ہے۔یوں ہر طرف کنفیوژن کا دور دورہ ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ حالیہ دھماکے سے طالبان نے برائت کا اظہار کیا ہے۔ممکن ہے کہ وہ سچے ہوں لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ انتہا پسندوں کے درجنوں گروپ بن چکے ہیں۔ہر گروپ کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر چند گروپوں کے ساتھ مذاکرات بھی کر لیے جائیں تو قیام امن ممکن نہیں ہو گا کیونکہ جنگجوؤں کے کئی گروپ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا مسلسل عندیہ دے رہے ہیں۔

ایسے میں مذاکرات کی کامیابی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں' صرف مذمتی بیانات سے اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت قیام امن کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرے ۔ ملکی تشخص اور قومی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔ ابھی تک حکومت دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے واضح پالیسی کا اعلان نہیں کر سکی، گومگو کی کیفیت سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ دہشت گرد اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ کارروائیاں جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ دہشت گردوں کی جانب سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا کہ وہ مستقبل میں دہشت گردی کی کارروائیاں ترک کر رہے ہیں۔ مستقبل میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پانے کے لیے حکومت کو واضح پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ بے گناہ شہریوں کی لاشیں اٹھانے کا سلسلہ رک نہ پائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں