اب کے مار تو
آپ اگرزندگی میں استادچاہتےہیں توآپ کوئی بابا‘کوئی ٹیچریاکوئی اتالیق تلاش نہ کریں‘آپ بازارسےلطیفوں کی کوئی کتاب خریدیں
آپ اگر زندگی میں استاد چاہتے ہیں تو آپ کوئی بابا' کوئی ٹیچر یا کوئی اتالیق تلاش نہ کریں' آپ بازار سے لطیفوں کی کوئی کتاب خریدیں' اس کتاب کے پہلے صفحے پر استاد محترم لکھیں اور اس کے بعد اس کتاب کو اپنا استاد مان لیں' آپ کو زندگی میں کسی سیانے' کسی مشیر کی ضرورت نہیں رہے گی' آپ جب بھی کسی مسئلے کا شکار ہوں' آپ بس اس کتاب کا مطالعہ شروع کر دیں' آپ کو چند صفحات بعد اپنے مسئلے کا حل مل جائے گا' یہ میرا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی' ہم جن لطائف کو غیر سنجیدہ یا مذاق سمجھتے ہیں یہ دراصل انتہائی سنجیدہ اور فلسفے سے بھرپور ہوتے ہیں' آپ کسی لطیفے پر ہنسنے کے بعد اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں' آپ کو اس میں دانائی اور سمجھ داری کا کوئی نہ کوئی حیران کن پہلو ملے گا' دنیا میں جس طرح مذہب کی کتابوں' روحانی دستاویزات اور دانش کے مکتوبات میں نیکی اور خدائی پیغام کو واقعات کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے بالکل اسی طرح معاشرے اپنی دانش لطائف میں چھپا دیتے ہیں' لوگ ان لطائف کو ہنسی مذاق کی بات سمجھ کر لوک دانائی کو قہقہوں میں اڑا دیتے ہیں مگر یہ ہنسی مذاق کی باتیں نہیں ہوتیں' یہ عملی زندگی کے کامیاب ترین سبق ہوتے ہیں اور آپ اگر زندگی میں دس پندرہ لطیفے پلے باندھ لیں تو آپ کو باقی زندگی کسی قسم کی رہنمائی یا دانش کی ضرورت نہیں رہتی۔
میں نے برسوں پہلے لطیفہ سنا تھا کوئی صاحب اپنے لان میں دھوتی باندھ کر' اوپر شرٹ پہن کر اور گلے میں ٹائی لٹکا کر بیٹھے تھے' کسی نے پوچھا آپ نے دھوتی کیوں باندھ رکھی ہے' انھوں نے ہنس کر جواب دیا '' میں اپنے لان میں بیٹھا ہوں یہاں کس نے آنا ہے'' پوچھنے والے نے پوچھا '' لیکن اوپر شرٹ اور ٹائی کیوں پہن رکھی ہے'' انھوں نے جواب دیا '' ہو سکتا ہے کوئی آ ہی جائے'' میں نے قہقہہ لگایا اور لطیفے کو پلے باندھ لیا' مجھ سے جب بھی کوئی شخص ملاقات کا وقت لیتا ہے تو میں دھوتی کے اوپر ٹائی لگا لیتا ہوں یعنی میں اپنے معمول کے کام جاری رکھتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہوتا ہے' یہ شخص اول تو آئے گا نہیں اور اگر آ گیا تو یقینا لیٹ ہو گا اور میرا یہ اندازہ ننانوے فیصد درست نکلتا ہے' میں اپنی اسی پالیسی کی وجہ سے ہمیشہ کوفت اور خفت سے بچ جاتا ہوں' میرے کام کا ہرج نہیں ہوتا' میں اسی طرح کسی سے ملنے جاتا ہوں تو میں احتیاطاً دھوتی ساتھ لے جاتا ہوں یعنی گھر سے وقت گزارنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرکے نکلتا ہوں' کتاب ساتھ لے جاتا ہوں' لیپ ٹاپ یا تسبیح ساتھ لے جاتا ہوں یا پھر اپنے دفتر کا کوئی ادھورا کام ساتھ لے جاتا ہوں اور یہ بندوبست نوے فیصد کیسز میں میرے کام آتا ہے' میں نے برسوں پہلے باپ اور بیٹے کا وہ لطیفہ پڑھا تھا جس میں وہ دونوں گدھے پر سوار ہوتے ہیں ' لوگ اعتراض کرتے ہیں۔
یہ کتنے ظالم ہیں' چھوٹے سے گدھے پر دو لوگوں کا بوجھ ڈال رکھا ہے' باپ بیٹے کو گدھے پر بٹھا کر خود پیدل چلنے لگتا ہے تو لوگ بیٹے سے کہتے ہیں' جوان ہو کر خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بوڑھے باپ کو پیدل چلا رہا ہے' بیٹا باپ کو سوار کر دیتا ہے اور خود پیدل چلنے لگتا ہے' دیکھنے والے باپ کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں' خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے' دونوں پیدل چلنے لگتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کس قدر بے وقوف ہیں' سواری ہونے کے باوجود پیدل چل رہے ہیں اور آخر میں دونوں تنگ آ کر گدھے کو کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو لوگ پاگل ای اوئے' پاگل ای وئے کے نعرے لگانے لگتے ہیں' میں نے اس لطیفے سے سیکھا' دنیا ایک ایسی جج ہے جسے آپ کی کوئی دلیل مطمئن نہیں کر سکتی' آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دوسروں کی رائے پر توجہ دیے بغیر اپنے راستے میں چلتے رہیں' آپ اچھی اور مطمئن زندگی گزاریں گے ورنہ آپ دوسری صورت میں اپنے آپ کو جسٹی فائیڈ کرتے کرتے کھپ جائیں گے' میں نے بچپن میں لطیفہ پڑھا' ایک شخص ٹرین میں پٹ رہا تھا اور ہر بار پٹتے پٹتے کہتا تھا' اپنے باپ کی اولاد ہے تو میرے بیٹے کو مار کر دکھا' مارنے والے نے بیٹے کو بھی جڑ دی' اس نے کہا اگر تم نسلی ہو تو میری بیوی کو مار کر دکھاؤ' اس نے بیوی کو بھی لگا دی۔
وہ اس طرح خود بھی مار کھاتا رہا اور اپنے پورے خاندان کو بھی پٹواتا رہا' مارنے والا مار مار کر تنگ آ گیا تو اس نے پوچھا' تم اپنے ساتھ اپنے پورے خاندان کو کیوں پٹوار رہے ہو' اس نے جواب دیا تا کہ یہ گھر جا کر یہ نہ کہہ سکیں' ابا کو مار پڑی تھی' میں نے اس لطیفے سے جانا' ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی خفت چھپانے کے لیے اپنے عزیزوں' رشتے داروں اور دوستوں کو بھی اپنی ناکامی میں گھسیٹ لیتے ہیں' میں نے بے شمار طالب علم دیکھے جو نہ خود پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے کسی دوست کو پڑھنے دیتے تھے' میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوست کو کرنے دیتے ہیں اور میں نے نشے کے شکار زیادہ تر لوگوں کے دوستوں کو بھی نشئی دیکھا' کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ ''میرے بچے کو بھی مار'' کی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں' ان کی کوشش ہوتی ہے' یہ اگر ناکام ہیں تو ان کے کسی عزیز' رشتے دار یا دوست کو بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے تا کہ دوست ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں '' ابا کو مار پڑی تھی''۔
میں نے اس طرح طوطے کے لطیفے سے سیکھا' انسان کو کبھی اپنی اوقات سے بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہیے' طوطے نے جہاز میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑا' خاتون ہنس پڑی' مسافر نے بھی طوطے کی نقل میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑ دیا' ائیر ہوسٹس نے مسافر اور طوطے دونوں کو جہاز سے باہر پھینک دیا' مسافر نیچے گر رہا تھا تو طوطے نے اس سے پوچھا '' کیا تمہیں اڑنا آتا ہے'' مسافر نے جواب دیا '' نہیں'' طوطے نے قہقہہ لگا کر کہا '' پھر تمہیں ائیر ہوسٹس سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی'' میں نے گاؤں کے شریف چوہدری سے بھی سبق سیکھا' چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا' گاؤں کے لوگ بہت بدتمیز ہیں مگر یہ میری دل سے عزت کرتے ہیں' پوچھنے والے نے پوچھا '' لیکن آپ پھر دس دس بندقوں والے ساتھ کیوں رکھتے ہیں'' چوہدری صاحب نے جواب دیا '' لوگ ان بندوق والوں کی وجہ سے تو میری دل سے عزت کرتے ہیں'' میں نے اس لطیفے سے سیکھا 'ہمارے جیسے منافق معاشروں میں عزت کرانے کے لیے صرف شرافت کافی نہیں ہوتی' آپ کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور بچے نے دوسرے بچے سے کہا 'میرے دادا جی کی زمین اتنی وسیع تھی کہ گھوڑے دوڑتے تھے مگر پوری زندگی دوڑنے کے باوجود زمین کا دوسرا کنارہ نہیں آتا تھا' دوسرے بچے نے کہا' میرے دادا جی کے پاس اتنی لمبی لاٹھی تھی کہ وہ زمین پر کھڑے ہو کر آسمان کے تارے سیدھے کر لیتے تھے' پہلے نے پوچھا لیکن تمہارے دادا جی اتنی بڑی لاٹھی رکھتے کہاں تھے۔
دوسرے نے جواب دیا' تمہارے دادا جی کی زمین پر۔ میں نے اس سے سیکھا' آپ کبھی شیخی نہ ماریں کیونکہ آپ اگر اس فیلڈ میں سیر ہیں تو دنیا کی لاٹھی سوا سیر ہے اور آپ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے' آپ حقیقت کی دنیا میں رہیں' آپ کبھی مار نہیں کھائیں گے' کوے نے بزرگ کوے کو راکٹ دکھایا اور پوچھا '' اس کی اسپیڈ اتنی تیز کیوں ہے'' بزرگ کوے نے جواب دیا '' بیٹا جس کی دم پر آگ لگی ہو' اس کی اسپیڈ اتنی ہی تیز ہوتی ہے'' معلوم ہوا' آپ کی دم پر جب تک آگ نہیں لگے گی آپ راکٹ نہیں بنیں گے اور غریب شخص نے مولوی صاحب کو ختم قرآن کی دعوت دی' مولوی صاحب نے سائل کی غربت سے اندازہ لگایا' یہ ''فیس'' ادا نہیں کر سکے گا لہٰذا اس نے پڑوس کے محلے کو دور قرار دے دیا' دوسرے شہر کے سیٹھ نے بلایا تو مولوی صاحب نے فرمایا ''ہاں' ہاں دس منٹ کی بات ہے' میں ابھی پہنچ جاؤں گا'' پتہ چلا کہ اگر انسینٹو ہو تو دوریاں کم ہو جاتی ہیں اور اگر نہ ہو تو قربتیں بھی فاصلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
یہ وہ چند لطائف ہیں جو حقیقت میں ہمارے معاشرے کے استاد ہیں اور ہم ان سے عملی زندگی کے سبق سیکھ سکتے ہیں' آپ اب وہ لطیفہ بھی سنیے جو موجودہ حکومت کا فلسفہ ہے اور یہ لوگ دن رات اس پر کاربند نظر آتے ہیں' لکھنو کے کسی بانکے کو مار پڑ رہی تھی' وہ مار کھاتا تھا' اٹھتا تھا اور مارنے والے سے کہتا تھا ''اب کے مار تو'' مارنے والا ایک اور جڑ دیتا تھا' یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مارنے والا تھک نہ گیا اور اس نے مار کھانے والے کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور لہو لہان بانکا سینہ تان کر گھر واپس چلا گیا' ہماری حکومت اس بانکے کی طرح بی ہیو کر رہی ہے' میاں نواز شریف کی حکومت 7 جون 2013 کو معرض وجود میں آئی۔
حکومت نے آتے ہی طالبان کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھا دیا مگر طالبان نے سو دنوں میں ایک سو بیس حملے کر دیے اور ان میں اب تک اڑھائی ہزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں' حکومت نے مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے اے پی سی بلا لی' ملک کی 12بڑی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا بلینک چیک دے دیا مگر اس کے جواب میں طالبان تباہی مچاتے جا رہے ہیں' پشاور میں ایک ہفتے میں تین بم دھماکے ہوئے جن میں 142 لوگ مارے گئے' تازہ ترین واقعہ قصہ خوانی بازارمیں پیش آیا' کار بم دھماکے میں 45 لوگ مارے گئے مگر حکومت کا ایک ہی ریسپانس ہے ''اب کے مار تو'' اورطالبان اگلے دن ایک اور مار دیتے ہیں' یہ حقیقت ثابت کر رہی ہے ریاستیں جب کمزور ہوتی ہیں تو یہ ''اب کے مار تو'' کو قومی پالیسی بنا لیتی ہیں' یہ قاتلوں کے تھکنے کا انتظار کرنے لگتی ہیں تا کہ یہ مارتے مارتے تھک جائیں اور ہم نیچے سے اٹھ کر سینہ پھلائیں اور دنیا سے کہیں '' دیکھا ڈر گیا ناں''۔ ہماری حکومت مذاکرات کی کامیابی کے لیے طالبان کے تھکنے کا انتظار کر رہی ہے اور یہ ہماری قومی پالیسی ہے ''اب کے مار تو''۔
میں نے برسوں پہلے لطیفہ سنا تھا کوئی صاحب اپنے لان میں دھوتی باندھ کر' اوپر شرٹ پہن کر اور گلے میں ٹائی لٹکا کر بیٹھے تھے' کسی نے پوچھا آپ نے دھوتی کیوں باندھ رکھی ہے' انھوں نے ہنس کر جواب دیا '' میں اپنے لان میں بیٹھا ہوں یہاں کس نے آنا ہے'' پوچھنے والے نے پوچھا '' لیکن اوپر شرٹ اور ٹائی کیوں پہن رکھی ہے'' انھوں نے جواب دیا '' ہو سکتا ہے کوئی آ ہی جائے'' میں نے قہقہہ لگایا اور لطیفے کو پلے باندھ لیا' مجھ سے جب بھی کوئی شخص ملاقات کا وقت لیتا ہے تو میں دھوتی کے اوپر ٹائی لگا لیتا ہوں یعنی میں اپنے معمول کے کام جاری رکھتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہوتا ہے' یہ شخص اول تو آئے گا نہیں اور اگر آ گیا تو یقینا لیٹ ہو گا اور میرا یہ اندازہ ننانوے فیصد درست نکلتا ہے' میں اپنی اسی پالیسی کی وجہ سے ہمیشہ کوفت اور خفت سے بچ جاتا ہوں' میرے کام کا ہرج نہیں ہوتا' میں اسی طرح کسی سے ملنے جاتا ہوں تو میں احتیاطاً دھوتی ساتھ لے جاتا ہوں یعنی گھر سے وقت گزارنے کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرکے نکلتا ہوں' کتاب ساتھ لے جاتا ہوں' لیپ ٹاپ یا تسبیح ساتھ لے جاتا ہوں یا پھر اپنے دفتر کا کوئی ادھورا کام ساتھ لے جاتا ہوں اور یہ بندوبست نوے فیصد کیسز میں میرے کام آتا ہے' میں نے برسوں پہلے باپ اور بیٹے کا وہ لطیفہ پڑھا تھا جس میں وہ دونوں گدھے پر سوار ہوتے ہیں ' لوگ اعتراض کرتے ہیں۔
یہ کتنے ظالم ہیں' چھوٹے سے گدھے پر دو لوگوں کا بوجھ ڈال رکھا ہے' باپ بیٹے کو گدھے پر بٹھا کر خود پیدل چلنے لگتا ہے تو لوگ بیٹے سے کہتے ہیں' جوان ہو کر خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بوڑھے باپ کو پیدل چلا رہا ہے' بیٹا باپ کو سوار کر دیتا ہے اور خود پیدل چلنے لگتا ہے' دیکھنے والے باپ کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں' خود گدھے پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے' دونوں پیدل چلنے لگتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کس قدر بے وقوف ہیں' سواری ہونے کے باوجود پیدل چل رہے ہیں اور آخر میں دونوں تنگ آ کر گدھے کو کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو لوگ پاگل ای اوئے' پاگل ای وئے کے نعرے لگانے لگتے ہیں' میں نے اس لطیفے سے سیکھا' دنیا ایک ایسی جج ہے جسے آپ کی کوئی دلیل مطمئن نہیں کر سکتی' آپ اگر اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ دوسروں کی رائے پر توجہ دیے بغیر اپنے راستے میں چلتے رہیں' آپ اچھی اور مطمئن زندگی گزاریں گے ورنہ آپ دوسری صورت میں اپنے آپ کو جسٹی فائیڈ کرتے کرتے کھپ جائیں گے' میں نے بچپن میں لطیفہ پڑھا' ایک شخص ٹرین میں پٹ رہا تھا اور ہر بار پٹتے پٹتے کہتا تھا' اپنے باپ کی اولاد ہے تو میرے بیٹے کو مار کر دکھا' مارنے والے نے بیٹے کو بھی جڑ دی' اس نے کہا اگر تم نسلی ہو تو میری بیوی کو مار کر دکھاؤ' اس نے بیوی کو بھی لگا دی۔
وہ اس طرح خود بھی مار کھاتا رہا اور اپنے پورے خاندان کو بھی پٹواتا رہا' مارنے والا مار مار کر تنگ آ گیا تو اس نے پوچھا' تم اپنے ساتھ اپنے پورے خاندان کو کیوں پٹوار رہے ہو' اس نے جواب دیا تا کہ یہ گھر جا کر یہ نہ کہہ سکیں' ابا کو مار پڑی تھی' میں نے اس لطیفے سے جانا' ہمارے اردگرد بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی خفت چھپانے کے لیے اپنے عزیزوں' رشتے داروں اور دوستوں کو بھی اپنی ناکامی میں گھسیٹ لیتے ہیں' میں نے بے شمار طالب علم دیکھے جو نہ خود پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے کسی دوست کو پڑھنے دیتے تھے' میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو خود کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوست کو کرنے دیتے ہیں اور میں نے نشے کے شکار زیادہ تر لوگوں کے دوستوں کو بھی نشئی دیکھا' کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ ''میرے بچے کو بھی مار'' کی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں' ان کی کوشش ہوتی ہے' یہ اگر ناکام ہیں تو ان کے کسی عزیز' رشتے دار یا دوست کو بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے تا کہ دوست ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں '' ابا کو مار پڑی تھی''۔
میں نے اس طرح طوطے کے لطیفے سے سیکھا' انسان کو کبھی اپنی اوقات سے بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہیے' طوطے نے جہاز میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑا' خاتون ہنس پڑی' مسافر نے بھی طوطے کی نقل میں ائیر ہوسٹس کو چھیڑ دیا' ائیر ہوسٹس نے مسافر اور طوطے دونوں کو جہاز سے باہر پھینک دیا' مسافر نیچے گر رہا تھا تو طوطے نے اس سے پوچھا '' کیا تمہیں اڑنا آتا ہے'' مسافر نے جواب دیا '' نہیں'' طوطے نے قہقہہ لگا کر کہا '' پھر تمہیں ائیر ہوسٹس سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی'' میں نے گاؤں کے شریف چوہدری سے بھی سبق سیکھا' چوہدری صاحب نے دعویٰ کیا' گاؤں کے لوگ بہت بدتمیز ہیں مگر یہ میری دل سے عزت کرتے ہیں' پوچھنے والے نے پوچھا '' لیکن آپ پھر دس دس بندقوں والے ساتھ کیوں رکھتے ہیں'' چوہدری صاحب نے جواب دیا '' لوگ ان بندوق والوں کی وجہ سے تو میری دل سے عزت کرتے ہیں'' میں نے اس لطیفے سے سیکھا 'ہمارے جیسے منافق معاشروں میں عزت کرانے کے لیے صرف شرافت کافی نہیں ہوتی' آپ کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اور بچے نے دوسرے بچے سے کہا 'میرے دادا جی کی زمین اتنی وسیع تھی کہ گھوڑے دوڑتے تھے مگر پوری زندگی دوڑنے کے باوجود زمین کا دوسرا کنارہ نہیں آتا تھا' دوسرے بچے نے کہا' میرے دادا جی کے پاس اتنی لمبی لاٹھی تھی کہ وہ زمین پر کھڑے ہو کر آسمان کے تارے سیدھے کر لیتے تھے' پہلے نے پوچھا لیکن تمہارے دادا جی اتنی بڑی لاٹھی رکھتے کہاں تھے۔
دوسرے نے جواب دیا' تمہارے دادا جی کی زمین پر۔ میں نے اس سے سیکھا' آپ کبھی شیخی نہ ماریں کیونکہ آپ اگر اس فیلڈ میں سیر ہیں تو دنیا کی لاٹھی سوا سیر ہے اور آپ دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے' آپ حقیقت کی دنیا میں رہیں' آپ کبھی مار نہیں کھائیں گے' کوے نے بزرگ کوے کو راکٹ دکھایا اور پوچھا '' اس کی اسپیڈ اتنی تیز کیوں ہے'' بزرگ کوے نے جواب دیا '' بیٹا جس کی دم پر آگ لگی ہو' اس کی اسپیڈ اتنی ہی تیز ہوتی ہے'' معلوم ہوا' آپ کی دم پر جب تک آگ نہیں لگے گی آپ راکٹ نہیں بنیں گے اور غریب شخص نے مولوی صاحب کو ختم قرآن کی دعوت دی' مولوی صاحب نے سائل کی غربت سے اندازہ لگایا' یہ ''فیس'' ادا نہیں کر سکے گا لہٰذا اس نے پڑوس کے محلے کو دور قرار دے دیا' دوسرے شہر کے سیٹھ نے بلایا تو مولوی صاحب نے فرمایا ''ہاں' ہاں دس منٹ کی بات ہے' میں ابھی پہنچ جاؤں گا'' پتہ چلا کہ اگر انسینٹو ہو تو دوریاں کم ہو جاتی ہیں اور اگر نہ ہو تو قربتیں بھی فاصلوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
یہ وہ چند لطائف ہیں جو حقیقت میں ہمارے معاشرے کے استاد ہیں اور ہم ان سے عملی زندگی کے سبق سیکھ سکتے ہیں' آپ اب وہ لطیفہ بھی سنیے جو موجودہ حکومت کا فلسفہ ہے اور یہ لوگ دن رات اس پر کاربند نظر آتے ہیں' لکھنو کے کسی بانکے کو مار پڑ رہی تھی' وہ مار کھاتا تھا' اٹھتا تھا اور مارنے والے سے کہتا تھا ''اب کے مار تو'' مارنے والا ایک اور جڑ دیتا تھا' یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک مارنے والا تھک نہ گیا اور اس نے مار کھانے والے کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے اور لہو لہان بانکا سینہ تان کر گھر واپس چلا گیا' ہماری حکومت اس بانکے کی طرح بی ہیو کر رہی ہے' میاں نواز شریف کی حکومت 7 جون 2013 کو معرض وجود میں آئی۔
حکومت نے آتے ہی طالبان کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھا دیا مگر طالبان نے سو دنوں میں ایک سو بیس حملے کر دیے اور ان میں اب تک اڑھائی ہزار کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں' حکومت نے مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے اے پی سی بلا لی' ملک کی 12بڑی جماعتوں نے حکومت کو مذاکرات کا بلینک چیک دے دیا مگر اس کے جواب میں طالبان تباہی مچاتے جا رہے ہیں' پشاور میں ایک ہفتے میں تین بم دھماکے ہوئے جن میں 142 لوگ مارے گئے' تازہ ترین واقعہ قصہ خوانی بازارمیں پیش آیا' کار بم دھماکے میں 45 لوگ مارے گئے مگر حکومت کا ایک ہی ریسپانس ہے ''اب کے مار تو'' اورطالبان اگلے دن ایک اور مار دیتے ہیں' یہ حقیقت ثابت کر رہی ہے ریاستیں جب کمزور ہوتی ہیں تو یہ ''اب کے مار تو'' کو قومی پالیسی بنا لیتی ہیں' یہ قاتلوں کے تھکنے کا انتظار کرنے لگتی ہیں تا کہ یہ مارتے مارتے تھک جائیں اور ہم نیچے سے اٹھ کر سینہ پھلائیں اور دنیا سے کہیں '' دیکھا ڈر گیا ناں''۔ ہماری حکومت مذاکرات کی کامیابی کے لیے طالبان کے تھکنے کا انتظار کر رہی ہے اور یہ ہماری قومی پالیسی ہے ''اب کے مار تو''۔