’لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی‘

بے گناہ پاکستانی ہر روز مر رہے ہیں اور وہ بھی جوق در جوق مرگ انبوہ کا سماں ہے۔ زندگی کی لے ٹوٹ رہی ہے۔۔۔


Abdul Qadir Hassan September 30, 2013
[email protected]

بے گناہ پاکستانی ہر روز مر رہے ہیں اور وہ بھی جوق در جوق مرگ انبوہ کا سماں ہے۔ زندگی کی لے ٹوٹ رہی ہے۔

گھروں کے بستروں پر یا اسپتالوں میں مرنے والے، لاتعداد دھماکوں میں مرنے والے، ڈاکا زنی میں مرنے والے، زلزلوں اور دوسری آفات میں مرنے والے ہر سمت موت ہی موت ہے سوائے سیکیورٹی والے سیاستدانوں کے ہر کوئی مر رہا ہے، موت باہر سے نہ بھی آئے تو موت سے زیادہ بھیانک مہنگائی ہے جو گھر گھر میں آئی ہوئی موجود ہے۔ اگر کوئی اس سے بھی محفوظ ہے تو وہ ہمارے سیاستدان ہیں کیونکہ آفات ارضی و سماوی میں جو لوگ مر رہے ہیں، ان میں اگر کوئی سیاستدان ہوتا تو اس کی خبر الگ سے چھپتی ہے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے یعنی ہمارے سیاستدان ایسی محفوظ زندگی بسر کرتے ہیں جو بے رحم آفات کی زد میں بھی نہیں آتی۔ سیکیورٹی کا مطلب شاید یہی ہے کہ چاہے قوم کی معصوم بچیاں تک نہ بچ سکیں ہمارے یہ لیڈر محفوظ رہیں جو شکر ہے کہ محفوظ ہیں۔

نہ صرف ایک خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں بلکہ تفریح طبع کے لیے موت کے منہ میں جانے والے عوام کے نام بیانات بھی جاری کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ وہ خود محفوظ ہیں مگر ان کی آواز سن رہے ہیں اور ان کی نظروں میں وہ زندہ سلامت ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی وقت وہ ووٹ وغیرہ کے لیے ان سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ عوام اور لیڈروں کا وہی پرانا ساتھ ہے جو بچوں اور سر کی جوؤں کا ہوتا ہے یا ناکام عاشقوں اور آہوں کا ہوتا ہے اس لیے یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ محاورہ بہت پرانا ہے یعنی دونوں کا جنم جنم کا ساتھ ہے لیکن بے موقع نہیں ہے۔ خدا عوام کو سلامت رکھے اور وہ زمینی اور آسمانی آفات سے اتنے بچ جائیں کہ جلسوں وغیرہ میں حاضری بھر سکیں اور سیاسی جلسے بے رونق نہ ہوں ویسے دھماکوں نے تو ہمارا گھر دیکھ لیا ہے اور دہشت گرد بلا تکلف سرگرم ہیں۔ تعجب ہے کہ پاکستانی شہریوں کی حفاظت کرنے والے کہاں ہیں۔

حکومتیں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ سب سمجھ سے بالاتر اور باہر ہے کہ ہمارے سلامتی اور سیکیورٹی والے ادارے کیا صرف لیڈروں کی حفاظت ہی کر سکتے ہیں جو ماشاء اللہ اس قدر خوشحال ہیں کہ ذاتی طور پر بھی اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی مر رہے ہوں اور دوسری طرف لیڈروں کے گھروں کو جانے والے راستے اور سڑکیں بھی ان کی حفاظت کی خاطر بند ہوں یہ کہاں کی حکومت ہے اور کیا اس طرح کوئی ملک چل سکتا ہے۔ بھارت سے بڑے دشمن ہمارے یہ مقامی قاتل ہیں ان کے مقابلے کے لیے تو ہمیں اپنا سب کچھ اپنے بچاؤ کی اس جنگ میں جھونک دینا چاہیے۔

پاک بھارت وزرائے اعظم کی دلچسپ ملاقات جو پروگرام کے مطابق ان سطروں کے لکھنے کے وقت جاری ہو گی، اس کی تفصیلات موصول ہوں گی تو کچھ عرض کریں گے، ویسے میں اس ملاقات کے بارے میں ابھی سے بہت کچھ عرض کر سکتا ہوں لیکن فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ملاقات سے پاکستان کے بھارت پرستوں اور بھارت پسندوں کی کچھ حوصلہ افزائی ہوئی ہے یا نہیں لیکن انھوں نے اب اس قدر مضبوط اڈے بنا لیے ہیں کہ بے فکر ہیں۔ موم بتیوں کے ڈھیر ہیں اور محبت کے پیغامات کے تہہ بہ تہہ بنڈل تیار ہیں۔

پروگرام تو یہ تھا کہ من موہن سنگھ ہمارے میا ںصاحب سے ملنے ان کے پاکستانی ہوٹل روز ویلٹ میں جائیں گے لیکن سنا ہے کہ وہ ان کی تقریر سے ناراض ہو گئے ہیں اور اب میاں صاحب ان کے ہوٹل میں ان سے ملنے گئے ہیں مگر میاں صاحب اگر چھری کی طرح بن جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ کون کس سے ملنے جاتا ہے یا آتا ہے۔ بھارت کی جسمانی ضخامت کے باوجود اگر ہمارے اندر ایمان کی رتی ہے تو بھارت ایک میٹھا خربوزہ ہے اور ہم چھری۔

ہمارے جیسے پاکستانیت سے سرشار پاکستانیوں کے لیے تو وہ پہلے دن سے ہی پاکستان کے مقابلے میں ایک کمزور ملک تھا سوائے ایک جنگ کے جس میں ہماری کمان پاکستان کے غداروں کے پاس تھی بھارت کو فتح کی حسرت ہی مل سکی۔ ان دنوں ہمیں بھارت کی نہیں اپنی فکر ہے جہاں پاکستانی عوام غیر قدرتی موت کے شکار ہو رہے ہیں اور ملک میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔

ان تلخ باتوں کو ذرا ہمت کر کے پرے رکھتے ہیں اور ایک پرانی بات کرتے ہیں۔ کچھ پہلے ایک کالم میں پرانی فلم کے ایک گانے کا ذکر ہوا جو پری چہرہ نسیم نے گایا تھا۔ میں نے یہ گانا فلم سکندر کا سمجھا تھا لیکن یہ فلم پکار کا تھا۔ اس طرف کراچی کے ایک مہربان سید اعجاز صاحب نے توجہ دلائی ہے اور بہت مہربانی کی ہے انھوں نے اس گانے کا ذکر بھی کیا ہے جس کا حوالہ اس کالم میں تھا اور جسے نسیم نے گایا تھا۔ میں نے اس کے دو ایک شعر ہی جو یاد تھے لکھے لیکن اعجاز صاحب نے دوسرے اشعار بھی لکھ دیے اور یہ تصحیح ایک خوبصورت ترین تصحیح بن گئی۔ پری چہرہ نسیم کی طرح۔ اب ملاحظہ فرمائیے۔

زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
کوئی نغمہ ہے نہ کوئی ساز ہے
اک تری اور اک مری آواز ہے
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
لے نہ کوئی زندگی کے ساز کی
زندگی آواز ہی آواز ہے
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے اور بے آواز ہے
کوئی ہنگامہ نہ کوئی ساز ہے
اک تری اور اک مری آواز ہے

یہ قیام پاکستان سے بہت پہلے کی فلم تھی اور اس کا یہ اپنے وقت کا مشہور گانا حالات حاضرہ کی تازہ تصویر بھی ہے۔ اس کے شعروں کو اپنی ذات پر اپنے ملک پر یا اپنی دنیا پر صادق کر کے دیکھ لیجیے، اس حسرت کے ساتھ کہ

لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی
زندگی آواز میں آواز ہے
ان دنوں یہی لے ٹوٹ ٹوٹ رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں