کپتان اور ریورس سوئنگ

انیسویں صدی میں جب انگلینڈ میں کرکٹ کھیلی جانے لگی تو شروع شروع میں بالر بیٹسمین کی جانب سیدھی سیدھی گیند۔۔۔


Wasat Ullah Khan September 30, 2013

KARACHI: انیسویں صدی میں جب انگلینڈ میں کرکٹ کھیلی جانے لگی تو شروع شروع میں بالر بیٹسمین کی جانب سیدھی سیدھی گیند لڑھکا دیا کرتا تھا چنانچہ بیٹسمین کو زمین پر جھاڑو پھیرنے کے انداز میں بلا گھما کر بال کو ہٹ لگانا پڑتی تھی۔

پھر گیند کو ہوا میں اچھال کر پھینکنے کا انداز متعارف ہوا۔ گیند بالر کے ہاتھ سے نکل کے پچ پر ٹپہ کھاتی ہوئی بیٹسمین کی جانب بڑھتی تھی اور بیٹسمین اسے ہوا میں ہی ہٹ لگا کر آگے پیچھے دائیں بائیں پھینک سکتا تھا۔کبھی کبھی یہ ٹپہ پچ کے درمیان میں پڑتا تھا اور اچھلتی گیند بلے پر آنے کے بجائے بیٹسمین کے منہ پر آتی یا سر پر سے گذر جاتی۔اس منہ توڑ گیند کو باؤنسر کہا جانے لگا اور فاسٹ بالر باؤنسر کا ہتھیار بیٹسمین کا حوصلہ پست کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ بہت کم ایسے مشاق بیٹسمین ہوتے تھے جو باؤنسر سے ڈرنے کے بجائے اسے کھیل جاتے تھے اور پھر بالر کو حقارت سے دیکھتے ہوئے زمین پر بھی تھوک دیتے تھے۔
سیدھی ٹپے دار بولنگ میں ایک خامی یہ تھی کہ ایک دو اووروں کے بعد بیٹسمین بالر کی نفسیات پڑھ کے اندازہ کر لیتا تھا کہ کس بالر کی گیند وکٹ کے کس پوائنٹ پر زیادہ تر ٹپہ کھائے گی چنانچہ وہ یہ نفسیات، انداز اور ٹائمنگ جاننے کے بعد اکثر بالر پر حاوی ہو جاتا اور اپنی مرضی سے کمزور یا طاقتور ہٹ لگانے یا گیند روکنے کا فیصلہ کر سکتا تھا۔ اس کے توڑ کے لیے بالنگ کے فن میں ان اور آؤٹ سوئنگ کی ٹکنیک متعارف ہوئی۔ یعنی چند اوورز پرانی گیند تین انگلیوں اور انگوٹھے کے ماہرانہ استعمال سے ایسے گھما کے پھینکی جاتی کہ آدھا سفر وہ کریز سے باہر کی طرف کرتی دکھائی دیتی اور جب بیٹسمین خود کو اس کے مطابق تیار کرتا تب یہ بال ہلکی سی کریز کے اندر کی جانب مڑ کر وکٹ پر جا لگتی اور بیٹسمین کا بلا ہوا میں ہی گھوم کے رہ جاتا۔ اسی طرح آؤٹ سوئنگ بھی ہوتی تھی۔

یعنی بالر کا گیند پھینکتے ہوئے ڈلیوری کا انداز ایسے ہوتا جیسے وہ کریز کے اندر پھینک رہا ہے لیکن جب وہ ٹپہ کھا کر ذرا سی باہر کی طرف نکلتی تو ان سوئنگ کا منتظر بیٹسمین بلے کی پلیسنگ کو آؤٹ سوئنگ پر کھیلنے کے لیے نہیں کر پاتا تھا اور بالر اسے حقارت سے گھورتا ہوا اپنے بولنگ کے نشان کی جانب پلٹ جاتا۔

پھر انیس سو اناسی کے میلبرن ٹیسٹ میں سرفراز نواز نے جانے بال پر کیا منتر پڑھا کہ تینتیس گیندوں میں ایک رن دے کر سات کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ اس روز اکیلے سرفراز کے ہاتھوں نو آسٹریلین بلے باز شکار ہوئے۔ ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ یہ پہلا بین الاقوامی کرکٹ میچ تھا جس میں ریورس سوئنگ کا ہتھیار کامیابی سے استعمال ہوا اور مخالف ٹیم کے پرخچے اڑ گئے۔ ریورس سوئنگ کے لیے ضروری ہے کہ بال پندرہ سے بیس اوور پرانی ہو۔ کم ازکم اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکی جائے اور وہ ہوا میں سفر کرتے ہوئے آگے کی جانب گھومنے کے بجائے الٹی گھومتے ہوئے آگے بڑھے اور ہدف یعنی وکٹ سے اتنے کم فاصلے پر ہوا میں ہی اپنا رخ یوں تبدیل کرے کہ بے بس بیٹسمین بس کلی اڑتی دیکھے اور بیٹ نا ہلا سکے۔ پنجابی میں ریورس سوئنگ کا آسان ترجمہ شائد یہی ہو سکتا ہے کہ دکھانی سجی تے مارنی کھبی۔۔۔

کہا جاتا ہے سرفراز نواز کو ریورس سوئنگ کا آرٹ خان محمد سے منتقل ہوا۔ سرفراز نے یہ فن عمران خان کو دیا اور عمران خان نے اسے وسیم اکرم اور وقار یونس کے حوالے کر دیا اور پھر یہ نسل در نسل عمر گل کی نسل تک پہنچ گیا۔ ریورس سوئنگ کا نسخہ ایک عرصے تک پاکستانیوں کے ہاتھ میں رہا لیکن اب ہر عالمی کرکٹ ٹیم میں ایک نا ایک ریورس سوئنگر کا پایا جانا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اب تو مہارت کا یہ حال ہے کہ دس اوور پرانی گیند سے بھی ریورس سوئنگ کرا لی جاتی ہے۔

پھر عمران خان ان، آؤٹ اور ریورس سوئنگ کی تکنیک اپنے ساتھ سیاست میں بھی لے آئے اور گزشتہ دو برس سے بالخصوص وہ اس تکنیک کو خاصی کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس دوران ایک گیند سے بیک وقت دو کھلاڑی آؤٹ کرنے کا چمتکار متعارف کرانے کا عندیہ بھی دیا تھا مگر گیارہ مئی کے ٹیسٹ میچ میں تندیِ بادِ مخالف کے سبب وہ گیند کو حسبِ توقع سوئنگ نا کرا پائے۔ تاہم خیبر پختون خوا کاؤنٹی کا انتظامی کنٹرول حاصل کر لیا۔ البتہ بعد کے ٹی ٹوئنٹی ٹائپ ضمنی انتخابی میچوں میں انھوں نے کسی حد تک اس تکنیک کو فضلو الیون کے خلاف کامیابی سے استعمال کیا۔

مگر جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے۔عین اس وقت جب ہیرو سخت محنت کے بعد اس گمان میں ہوتا ہے کہ اب وہ کچھ سکھ کا سانس لے سکے گا، اچانک ایک نیا ولن سامنے آ جاتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے جولیس سیزر کے سامنے اس کا یارِ جانی بروٹس خنجر لے کر آ گیا تھا اور جولیس سیزر کے منہ سے یہ آخری الفاظ نکلے تھے کہ بروٹس تم بھی۔ بالکل ایسے جیسے آپ کسی کو منہ بولا بھائی بنائیں۔ اس کی وکالت میں دن رات ایک کر دیں اور ایک دن وہ اچانک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ لالہ بہت شکریہ۔ اب آپ اس مکان کو فوراً خالی کر دیں۔ اگر آپ بلڈوزر تلے آ گئے تو پھر مجھ سے شکائیت نہ کیجے گا۔۔۔۔۔ اور ہمارا ہیرو بس منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا رہ جائے کہ

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

لیکن اس سے بھی زیادہ ایک اور بات تشویش ناک ہے۔ وہ یہ کہ کپتان کو ریورس سوئنگ کا جتنا بھی فن آتا ہے اسے کپتان کے یکطرفہ منہ بولے بھائیوں نے ایک نئی بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ کپتان کی ریورس سوئنگ میں تو بال ہوا میں الٹی گھومتی ہوئی آگے کی طرف جاتی تھی اور وکٹ اڑا دیتی تھی۔ لیکن منہ بولے بھائیوں نے اس تکنیک میں یہ انقلاب برپا کیا ہے کہ گیند ہوا میں الٹی گھومتی ہوئی وکٹ ہٹ کرنے کے بعد الٹی سمت سفر کرتی ہوئی بالر کی طرف لپکتی ہے۔ (بالکل ایسے جیسے آسٹریلیا کے قدیم شکاری جانور کی طرف بوم رینج پھینکتے ہیں اور یہ بوم رینج شکار کو ہٹ کرتا ہوا واپس شکاری کی جانب ہوا میں سفر کرتا ہوا اس کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ اس میں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ شکاری اگر اناڑی ہو تو اس کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں۔)

اس تکنیک کو آپ ریورس ریورس سوئنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ تکنیک ہے کہ اس کا توڑ فی الحال کپتان کے پاس بھی نہیں۔ کپتان کی ریورس سوئنگ کے پیچھے تو یہ فلاسفی تھی کہ بیٹسمین کو پیشہ ورانہ خود اعتمادی سے محروم کر دو۔ آؤٹ وہ اپنے زور پر ہی ہو جائے گا۔ لیکن منہ بولے بھائیوں کی ریورس سوئنگ کی تکنیک کے پیچھے یہ فلاسفی ہے کہ میچ میں وکٹ اڑانے کی کیا ضرورت ہے۔ وکٹ کے ساتھ بالر بھی اڑا دو۔ تو کیا ہم کسی دن یہ سننے والے ہیں کہ برادرز الیون نے کپتان الیون سے یہ میچ دس وکٹوں کے بجائے دس کھلاڑیوں سے جیت لیا؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.comپر کلک کیجیے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔