بلدیاتی انتخابات آئینی ذمے داری ہے

ریاست کے ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمے داریاں ادا کرنا چاہئیں۔۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari September 30, 2013
[email protected]

ریاست کے ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر اپنی ذمے داریاں ادا کرنا چاہئیں۔

یہ جمہوری مطالبہ ایک عرصے سے ہمارے حکمران اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ یہ مطالبہ جمہوری بھی ہے اور آئینی بھی، لیکن اس قسم کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ وہ خود وہ ذمے داریاں پوری نہیں کرتے جو ان کی آئینی ذمے داریاں ہوتی ہیں مثلاً بلدیاتی انتخابات کرانا جمہوری حکمرانوں کی ایک اہم آئینی اور اخلاقی ذمے داری ہے لیکن پاکستان کی جمہوری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی جمہوری حکومت نظر نہیں آتی جس نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت کی ہو۔ اور یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں اگر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ہیں تو یہ انتخابات کرانے والے فوجی حکمران تھے۔

بلدیاتی نظام ہر ملک میں جمہوریت کی اساس اور جمہوریت کی نرسری کہلاتا ہے اور دنیا کے ہر جمہوری ملک میں تواتر کے ساتھ بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں اور صوبائی حکومتوں کے انتظامی اور مالی اختیارات بلدیاتی اداروں کے حوالے کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی علاقائی ذمے داریاں کم ہوجاتی ہیں اور وہ اپنی ادارتی ذمے داریاں آسانی سے انجام دے سکتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی یہ ادارتی ذمے داریاں ادا کرنے سے ہمیشہ کیوں گریزاں رہی ہیں؟

اگرچہ اس حوالے سے اہل سیاست اور حکمران آئیں بائیں شائیں کرکے اصل مقصد کو چھپانا چاہتی ہیں لیکن ان کی اس آئیں بائیں شائیں اس لیے ان کے کام نہیں آتی کہ جمہوری نظام میں اس آئیں بائیں شائیں کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کی سب سے بڑی اور اصل وجوہات دو ہیں ایک یہ کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتی ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظام میں منتخب نمایندوں کو قابو میں رکھنے کے لیے حکمران طبقات یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی امور کی انجام دہی کے لیے جو کروڑوں کے فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں وہ منتخب نمایندوں کو بطور رشوت دیے جائیں۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں یہی ہورہا ہے کہ منتخب نمایندے علاقائی ترقیاتی پروگراموں کے نام پر کروڑوں روپے حاصل کرلیتے ہیں اور ہڑپ کرجاتے ہیں علاقائی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں عوام مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔

جب جمہوری حکومتیں محض کروڑوں اربوں کی خردبرد کی خاطر اپنی آئینی اور جمہوری ذمے داری پوری نہیں کرتیں تو وہ اپنی ادارتی ذمے داریاں پوری نہ کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتی ہیں اس شرمناک صورت حال میں اگر کوئی ریاستی ادارہ جمہوری حکومتوں کو اپنی ادارتی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے تو یہ کسی حوالے سے بھی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنا نہیں کہلاسکتا۔

ہماری موجودہ اور سابق جمہوری حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں رہیں اس غیر ذمے داری کا نوٹس اعلیٰ عدلیہ نے لیا اور بار بار ہماری صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کا اہتمام کریں لیکن صوبائی حکومتیں اپنی اس ذمے داری کو پورا کرنے کے بجائے یہ بہانے کرتی رہیں کہ عدلیہ کے دیے ہوئے ٹائم میں بلدیاتی انتخابات کرانا ممکن نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے شدید دباؤ کی وجہ سے اب صوبائی حکومتیں دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کرانے پر راضی تو ہورہی ہیں لیکن کبھی کمشنری نظام کے نام پر کبھی میئروں کے نام پر اس سازش میں لگی ہوئی ہیں کہ عملاً بلدیات کے انتظامی اور مالی اختیارات ان کے ہاتھوں ہی میں رہیں اور انھیں ترقیاتی کاموں کے نام پر لوٹ مار کا حق حاصل رہے۔

سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں مختلف بلدیاتی نظام کے نفاذ کی کوشش کر رہی ہیں جس کا واحد مقصد اختیارات کا صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں ارتکاز ہے اس حوالے سے ایسی قانون سازی کی کوشش کی جارہی ہے جس میں منتخب بلدیاتی میئر کی برطرفی کا اختیار صوبائی وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں میں رہے۔ اس طرح بلدیاتی اداروں کو بلیک میل کرنے کی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری حکمرانوں کو ان غیر جمہوری حرکتوں سے روکنے کے لیے جو دباؤ ڈال رہے ہیں ہمارے حکمران اور ان کے قانونی مشیر اس کوشش کو اپنے اختیارات سے تجاوز کا نام دیتے ہوئے عدلیہ کو یہ ''صائب مشورہ'' دے رہے ہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہے۔ بلدیاتی انتخابات کا مسئلہ اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا یہ کام صرف جمہوری حکمرانوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس قسم کے دلائل کا مقصد صوبائی حکومتوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے وہ صورت حال ہے جس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔

سندھ اور پنجاب میں چونکہ زمینی اور صنعتی اشرافیہ برسر اقتدار ہے لہٰذا اگر وہ سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی ہے تو یہ اس کی طبقاتی خواہش ہے لیکن حیرت یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے دوران پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں بھی جو مڈل کلاس کی حکومتیں کہلاتی تھیں کمشنری نظام پر اصرار کرتی رہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کمشنری نظام نوآبادیاتی حکمرانوں کی ضرورت تھا۔ اب پختونخوا میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی حکومت ہے جو ''نیا پاکستان'' کا نعرہ لگارہی ہے اور جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔

پختونخوا کی حکومت نے اپنے صوبے میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے وہ کچھ اقدامات کرتی بھی نظر آرہی ہے جو لکھاری ملک میں نظام کی تبدیلی کی لڑائی لڑ رہے ہیں انھوں نے پختونخوا کے اس اعلان کی بھرپور حمایت کی اگر پختونخوا کی حکومت ایسا بلدیاتی نظام لانے کی کوشش کرتی ہے جس میں انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح تک پہنچ جائیں تو اسے ہماری مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ پختونخوا جیسے قبائلی معاشرے میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلدیاتی نظام کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہاں جمہوری اداروں کے فروغ میں بلدیاتی نظام ایک اہم اور خصوصی کردار ادا کرے گا۔

بلوچستان میں بھی ایک مڈل کلاس وزیر اعلیٰ ہے اور اس کی طبقاتی ذمے داری ہے کہ اس صوبے کو سرداری نظام سے نجات دلانے کے لیے بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے کی کوشش کرے۔ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال بہت خراب ہے لیکن اس خراب صورت حال میں بہتری لانے کا ایک بڑا ذریعہ بلدیاتی نظام ہی ہے۔ بلوچستان کی حکومت صوبے کی بدتر صورت حال کے حوالے سے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں نظر آتی ہے لیکن بلوچستان کی حکومت یقینا اس حقیقت سے واقف ہے کہ پختونخوا میں صورت حال بلوچستان سے زیادہ خراب ہے اس کے باوجود پختونخوا کی حکومت نہ صرف جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس صوبے میں علم دشمن طاقتوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود صوبے میں یکساں نظام تعلیم جیسے اقدام کی کوشش بھی کر رہی ہے اگر پختونخوا کی حکومت کی یہ دو مثبت کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو بلاشبہ قبائلی معاشرے میں ایک اہم اور بامعنی تبدیلی آسکتی ہے۔

پنجاب میں اگرچہ حکومت فیوڈلز کے ہاتھوں میں نہیں اور ایک صنعتکار گھرانا پنجاب پر حکومت کر رہا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ صنعتکار گھرانا بھی خاندانی سیاست خاندانی حکمرانی کے فیوڈل راستے پر چل رہا ہے اور بلدیاتی نظام خاندانی حکمرانیوں کے لیے ایک بڑے خطرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ پنجاب میں اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہے اور اس جماعت کے سربراہ میاں برادران ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے داعی ہیں اگر میاں برادران واقعی جمہوریت کا فروغ اور استحکام چاہتے ہیں تو کمشنری نظام کو مختلف شکلوں میں نافذ کرنے کی کوشش کو ترک کرکے ایسا بلدیاتی نظام رائج کرنے کی طرف آئیں جس میں انتظامی اور مالی اختیارات صوبائی حکومت کی ملکیت نہ ہوں بلکہ یہ اختیارات نچلی سطح تک پہنچ سکیں۔

ہماری ''خالص جمہوری حکومتوں'' کا بلدیاتی نظام کے حوالے سے یہ فلسفہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ چونکہ 2002 کا بلدیاتی نظام ایک فوجی ڈکٹیٹر مشرف کا لایا ہوا نظام ہے اس لیے ہم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اس قسم کے احمقانہ فلسفے پیش کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں سیاست میں لانے اور حکمراں بنانے والے بھی فوجی آمر ہی تھے۔

اگر سیاستدان جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں جس کے وہ دعویدار ہیں تو کسی جمہوری نظام کی مخالفت کسی جماعت کے حوالے سے کرنے کے بجائے اسے قوم و ملک کے اجتماعی مفادات کے حوالے سے دیکھ کر اس کی حمایت یا مخالفت کریں۔

اس تناظر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے یہ ریمارکس کہ ''جمہوری حکومتوں سے فوجی حکومتیں بہتر ہوتی ہیں اور بلدیاتی انتخابات سے عدلیہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔'' کیا غلط کہلاسکتے ہیں؟ کیا یہ موقف عدلیہ کے دائرہ کار سے متصادم ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔