طوفان
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔‘‘
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ''جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔'' اس حدیث پاک میں ہمارے پیارے نبیؐ نے انتہائی واضح اور جامع انداز میں ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ اگر ہمیں شرم و حیا کا کوئی خیال نہیں رہے گا تو پھر ہم انتہائی دیدہ دلیری اور بے حسی کے ساتھ بے حیائی اور بے شرمی کی تمام حدود و قیود عبور کرسکتے ہیں۔
جنسی زیادتیوں کے پے درپے انسانیت سوز واقعات جن کا آج کل ہمارے میڈیا میں بڑا چرچا ہے اسی بے حیائی کا نتیجہ ہیں۔ عالم یہ ہے کہ درندہ صفت انسان جو کسی طور بھی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اپنی جنسی ہوس میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اور اسلام کا قلعہ کہلانے والے ملک میں کبھی ایسا بھی ہوگا، اس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا، توبہ توبہ!
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے واقعات کے پس پشت یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عملاً بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور قانون شکن عناصر محض آزاد ہی نہیں بلکہ مادرپدر آزاد ہوچکے ہیں ورنہ مجال نہیں کہ کوئی کسی کو میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔ مگر کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ہم مغربی تہذیب اور کلچر کی زد میں اس بری طرح آچکے ہیں کہ بہ قول شاعر ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم' ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے''۔ ہمارا حال اس کوے جیسا ہے جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا۔
اسلامی اقدار اور شعائرکو ہم نے دقیانوسیت اور قدامت پسندی کا نام دے دیا جن کا ہم طرح طرح سے مذاق اڑاتے ہیں اور اغیار سے مستعار لی گئی بے حیائی کو ہم جدیدیت اور ترقی پسندی کا نام دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہماری اس درجہ تباہی اور بربادی میں ہمارے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہمارے ٹیلی ویژن سے ایسے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے جنھیں ہم بے کھٹکے اپنی فیملی کے ساتھ نہایت آرام کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے۔
مجال نہ تھی کہ نشریات کے دوران کوئی ایسا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے جسے دیکھ کر ہمیں ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور ہونا پڑے۔ سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ کوئی لفظ بھی اخلاق سے گرا ہوا یا عامیانہ نہیں ہوتا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ پروگراموں کے دوران چلنے والے اشتہارات میں بھی شرم و حیا کا پورا خیال اور لحاظ رکھا جاتا تھا۔ لکھنے والے سے لے کر اداکاری کرنے والے فنکاروں تک ہر کوئی ضابطہ اخلاق اور شائستگی کو اپنا اولین فرض تسلیم کرتا تھا۔
مگر وطن عزیز میں بے حیائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے سب کچھ الٹ پلٹ اور تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور ہم اپنی سلور اسکرین پر آج وہ کچھ دیکھ رہے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔ مغربی کلچر کے علاوہ انڈین کلچر ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں زہر قاتل کی طرح سما گیا ہے اور ہم اس کے رنگ میں اس بری طرح رنگے جاچکے ہیں کہ ہماری شادی بیاہ کی رسموں میں بھی اس کا غلبہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ گستاخی معاف، اس معاملے میں بھارتی فلموں اور بھارتی ٹی وی چینلوں سے نشر ہونے والے مختلف پروگراموں، خصوصاً ڈراموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ نیکی کا اثر بہت دیر میں اور برائی کا اثر فوری طور پر قبول کرتا ہے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مغربی اور بھارتی کلچر کی اندھی نقالی میں ہم نے اپنی انتہائی معصوم اور باحیا عورت کو سجاکر، پری بناکر رکھ دیا ہے ۔ ازروئے اسلام شرم و حیا عورت کا زیور ہے۔ نبی اکرمؐ کی حدیث مبارک ہے کہ ''حیا اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے''۔ حیا فطرت کا تقاضہ بھی ہے۔ لڑکی جوں جوں جوان ہوتی جاتی ہے اس میں شرم و حیا کا احساس اس کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگتا ہے۔
اسلام نے معاشرے میں عورت کو جو قیام دیا ہے وہ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے جنت اس کے پیروں تلے رکھ دی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب کی حیا سے بے بہرہ خواتین کو اپنا آئیڈیل بنالیا ہے جب کہ ہماری مسلم خواتین کی آئیڈیل امہات المومنین کو ہونا چاہیے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے عورت کو آب گینے سے تشبیہہ دی ہے۔ قرآن حکیم میں حیا کے حوالے سے پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں نگاہ، لباس، چہرہ، آواز اور مداخلت شامل ہیں۔ بزرگان دین اور اولیائے کرام نے سب سے زیادہ زور نگاہ کی حفاظت پر دیا ہے کیونکہ بدنظری سے ہی گناہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یا رب نگاہ ناز پہ لائسنس کیوں نہیں
یہ بھی تو قتل کرتی ہے تلوار کی طرح
دوسرا نمبر لباس کا ہے۔ جو لباس ستر پوشی سے عاری ہوگا وہ بے حیائی کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں لباس کے معاملے میں مغرب کی اندھی تقلید کی جارہی ہے اور جس زینت کی پردہ پوشی کا ہمارے دین اسلام میں درس دیا گیا ہے اس کی نمائش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر انتہائی قابل ستائش ہے کہ ہمارے ملک کی مشہور ومعروف درس گاہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈٹیکنالوجی (NUST) نے طالبات کے لیے دوپٹہ لازمی قرار دے دیا ہے اور یونیورسٹی کے احاطے میں لڑکیوں کے Jeans پہن کر آنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
تاہم اس کالم کو سپرد قلم کرنے تک اس اخباری خبر کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ اس لیے اس خبر پر مزید تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان حلقوں میں جو خود کو ترقی پسند کہلوانے پر بڑا فخر کرتے ہیں اس طرح کے اقدامات کو تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جائے گا۔ تاہم اگر کسی بڑے تعلیمی ادارے میں نامناسب لباس پہننے کی حوصلہ شکنی اور شائستہ لباس زیب تن کرنے کی روایت قائم کی جارہی ہے تو یہ ایک اچھی اور قابل ستائش پیش رفت کہی جائے گی۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور کلچر کے نام Crulture ہمارے مردہ معاشرے کی بوٹیاں نوچ کر اسے بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ مغربی اور بھارتی کلچر کی نقالی کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں ہماری Elite کلاس جو اشرافیہ کہلاتی ہے پیش پیش ہے جب کہ ہماری بچی کچھی مڈل کلاس اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان حالات میں ہمارے میڈیا کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے رضاکارانہ طور پر ایک ضابطہ اخلاق وضع کرے تاکہ بے لگام لچرپن کے سیلاب کو روکا جاسکے۔
انٹرٹینمنٹ کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ تفریح طبع کی آڑ میں بے راہ روی اور فحاشی کو فروغ دیا جائے اور اپنے اسلامی تشخص کو پس پشت ڈال کر ایک ایسے کلچر کو پروان چڑھایا جائے جو عملاً اور اصلاً اغیار سے مستعار لیا گیا ہو اور ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہو۔ یاد رہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا تھا اور اس کا آئین کسی بھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دیتا جو اس کے اسلامی شعار اور اقدار سے کسی بھی طرح سے متصادم ہو۔
دوسری جانب ہماری حکومت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جنسی آوارگی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بدکاری اور زیادتی میں مرتکب ہونے والے عناصر کی بیخ کنی کریں اور انھیں قانون کے سخت سے سخت شکنجے میں لائیں اور بیہودگی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ جس میں حکومت اور سول سوسائٹی برابر کے شریک ہیں۔
جنسی زیادتیوں کے پے درپے انسانیت سوز واقعات جن کا آج کل ہمارے میڈیا میں بڑا چرچا ہے اسی بے حیائی کا نتیجہ ہیں۔ عالم یہ ہے کہ درندہ صفت انسان جو کسی طور بھی انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں اپنی جنسی ہوس میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کو بھی نہیں بخش رہے۔ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اور اسلام کا قلعہ کہلانے والے ملک میں کبھی ایسا بھی ہوگا، اس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا، توبہ توبہ!
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے واقعات کے پس پشت یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے عملاً بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور قانون شکن عناصر محض آزاد ہی نہیں بلکہ مادرپدر آزاد ہوچکے ہیں ورنہ مجال نہیں کہ کوئی کسی کو میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔ مگر کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ ہم مغربی تہذیب اور کلچر کی زد میں اس بری طرح آچکے ہیں کہ بہ قول شاعر ''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم' ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے''۔ ہمارا حال اس کوے جیسا ہے جو ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول گیا۔
اسلامی اقدار اور شعائرکو ہم نے دقیانوسیت اور قدامت پسندی کا نام دے دیا جن کا ہم طرح طرح سے مذاق اڑاتے ہیں اور اغیار سے مستعار لی گئی بے حیائی کو ہم جدیدیت اور ترقی پسندی کا نام دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ہماری اس درجہ تباہی اور بربادی میں ہمارے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہمارے ٹیلی ویژن سے ایسے پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے جنھیں ہم بے کھٹکے اپنی فیملی کے ساتھ نہایت آرام کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے۔
مجال نہ تھی کہ نشریات کے دوران کوئی ایسا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آجائے جسے دیکھ کر ہمیں ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور ہونا پڑے۔ سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ کوئی لفظ بھی اخلاق سے گرا ہوا یا عامیانہ نہیں ہوتا تھا۔ حد تو یہ تھی کہ پروگراموں کے دوران چلنے والے اشتہارات میں بھی شرم و حیا کا پورا خیال اور لحاظ رکھا جاتا تھا۔ لکھنے والے سے لے کر اداکاری کرنے والے فنکاروں تک ہر کوئی ضابطہ اخلاق اور شائستگی کو اپنا اولین فرض تسلیم کرتا تھا۔
مگر وطن عزیز میں بے حیائی کا جو طوفان آیا ہے اس نے سب کچھ الٹ پلٹ اور تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور ہم اپنی سلور اسکرین پر آج وہ کچھ دیکھ رہے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔ مغربی کلچر کے علاوہ انڈین کلچر ہمارے معاشرے کی رگ و پے میں زہر قاتل کی طرح سما گیا ہے اور ہم اس کے رنگ میں اس بری طرح رنگے جاچکے ہیں کہ ہماری شادی بیاہ کی رسموں میں بھی اس کا غلبہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ گستاخی معاف، اس معاملے میں بھارتی فلموں اور بھارتی ٹی وی چینلوں سے نشر ہونے والے مختلف پروگراموں، خصوصاً ڈراموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ نیکی کا اثر بہت دیر میں اور برائی کا اثر فوری طور پر قبول کرتا ہے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ مغربی اور بھارتی کلچر کی اندھی نقالی میں ہم نے اپنی انتہائی معصوم اور باحیا عورت کو سجاکر، پری بناکر رکھ دیا ہے ۔ ازروئے اسلام شرم و حیا عورت کا زیور ہے۔ نبی اکرمؐ کی حدیث مبارک ہے کہ ''حیا اور ایمان ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے''۔ حیا فطرت کا تقاضہ بھی ہے۔ لڑکی جوں جوں جوان ہوتی جاتی ہے اس میں شرم و حیا کا احساس اس کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگتا ہے۔
اسلام نے معاشرے میں عورت کو جو قیام دیا ہے وہ دنیا کے کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے جنت اس کے پیروں تلے رکھ دی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مغرب کی حیا سے بے بہرہ خواتین کو اپنا آئیڈیل بنالیا ہے جب کہ ہماری مسلم خواتین کی آئیڈیل امہات المومنین کو ہونا چاہیے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے عورت کو آب گینے سے تشبیہہ دی ہے۔ قرآن حکیم میں حیا کے حوالے سے پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں نگاہ، لباس، چہرہ، آواز اور مداخلت شامل ہیں۔ بزرگان دین اور اولیائے کرام نے سب سے زیادہ زور نگاہ کی حفاظت پر دیا ہے کیونکہ بدنظری سے ہی گناہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
یا رب نگاہ ناز پہ لائسنس کیوں نہیں
یہ بھی تو قتل کرتی ہے تلوار کی طرح
دوسرا نمبر لباس کا ہے۔ جو لباس ستر پوشی سے عاری ہوگا وہ بے حیائی کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں لباس کے معاملے میں مغرب کی اندھی تقلید کی جارہی ہے اور جس زینت کی پردہ پوشی کا ہمارے دین اسلام میں درس دیا گیا ہے اس کی نمائش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے یہ خبر انتہائی قابل ستائش ہے کہ ہمارے ملک کی مشہور ومعروف درس گاہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈٹیکنالوجی (NUST) نے طالبات کے لیے دوپٹہ لازمی قرار دے دیا ہے اور یونیورسٹی کے احاطے میں لڑکیوں کے Jeans پہن کر آنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
تاہم اس کالم کو سپرد قلم کرنے تک اس اخباری خبر کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ اس لیے اس خبر پر مزید تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان حلقوں میں جو خود کو ترقی پسند کہلوانے پر بڑا فخر کرتے ہیں اس طرح کے اقدامات کو تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جائے گا۔ تاہم اگر کسی بڑے تعلیمی ادارے میں نامناسب لباس پہننے کی حوصلہ شکنی اور شائستہ لباس زیب تن کرنے کی روایت قائم کی جارہی ہے تو یہ ایک اچھی اور قابل ستائش پیش رفت کہی جائے گی۔
بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرتی بگاڑ نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بالکل کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے اور کلچر کے نام Crulture ہمارے مردہ معاشرے کی بوٹیاں نوچ کر اسے بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ مغربی اور بھارتی کلچر کی نقالی کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں ہماری Elite کلاس جو اشرافیہ کہلاتی ہے پیش پیش ہے جب کہ ہماری بچی کچھی مڈل کلاس اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان حالات میں ہمارے میڈیا کے کاندھوں پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے رضاکارانہ طور پر ایک ضابطہ اخلاق وضع کرے تاکہ بے لگام لچرپن کے سیلاب کو روکا جاسکے۔
انٹرٹینمنٹ کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ تفریح طبع کی آڑ میں بے راہ روی اور فحاشی کو فروغ دیا جائے اور اپنے اسلامی تشخص کو پس پشت ڈال کر ایک ایسے کلچر کو پروان چڑھایا جائے جو عملاً اور اصلاً اغیار سے مستعار لیا گیا ہو اور ہماری اخلاقی اقدار سے متصادم ہو۔ یاد رہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر ہی معرض وجود میں آیا تھا اور اس کا آئین کسی بھی ایسی چیز کی اجازت نہیں دیتا جو اس کے اسلامی شعار اور اقدار سے کسی بھی طرح سے متصادم ہو۔
دوسری جانب ہماری حکومت کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جنسی آوارگی کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بدکاری اور زیادتی میں مرتکب ہونے والے عناصر کی بیخ کنی کریں اور انھیں قانون کے سخت سے سخت شکنجے میں لائیں اور بیہودگی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمے داری ہے۔ جس میں حکومت اور سول سوسائٹی برابر کے شریک ہیں۔