تھانہ کلچر بدلنے کیلئے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے
تشدد، غیر قانونی حراست اور نجی ٹارچر سیل قابل قبول نہیں....
گزشتہ دنوں تھانوں میں تشدد، غیر قانونی ٹارچر سیل اور پولیس کے زیر حراست تشدد سے ملزمان کی اموات کے افسوسناک واقعات رونما ہوئے جن سے معاشرے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ایک بار پھر پولیس ریفامرز کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔
ادارہ ایکسپریس نے اس اہم عوامی مسئلے کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم'' میں ''تھانوں میں تشددکا معاملہ اور پولیس ریفارمز'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ماہر نفسیات، محکمہ پولیس، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
انعام غنی
(ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب)
تھانوں میں تشدد اور غیر قانونی حراست ، ریاست، حکومت اور محکمہ پولیس کی پالیسی نہیں ہے۔ ہم تشدد، غیر قانونی حراست، دوران حراست موت اور دوران حراست تشدد کی وجہ سے موت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور کسی بھی طور اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی بھی پولیس ملازم ایسا کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے، ایسا کرنے والے کے خلاف کریمینل و محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے۔
افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں جو واقعات رونما ہوئے اس سے ایسا تاثر گیا کہ پورا محکمہ ہی غلط ہے۔ جن کی اموات ہوئیں وہ کوئی بڑے مجرم یا دہشت گرد نہیں تھے اور نہ ہی وہ لوگ تھے جن سے کوئی بڑی ریکوری ہونی تھی جس کیلئے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ نارمل لوگ تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے تھانے میں لائے گئے اور ان کی اموات ہوگئیں جو افسوسناک ہے۔ ہم نے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیا اور وہ اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ تشدد کے حوالے سے قانون بنائیں، ہم نے تو دفعہ 302 کے تحت ان کے خلاف پرچے دیے اور اپنے ڈی ایس پیز کو بھی سزا دی ہے۔ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی 1کروڑ 10 لاکھ ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد پولیس فورس ہے۔ پنجاب کے 36 اضلاع اور 9 ریجن ہیں جن میں 721 تھانے اور 813 حوالات ہیں۔ ہمارا آپریشنل بجٹ جس سے ہم پولیس چلاتے ہیں وہ ہمارے بجٹ کا 11 فیصد ہے۔ ہم 6 ڈالر فی کس خرچ کرتے ہیں، بھارتی پنجاب میں 16 ڈالر، ترکی میں 135 ڈالر اور یوکے میں پولیس پر 754 ڈالر فی کس خرچ کیے جاتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا ان ممالک کی پولیس کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ ہم مشکل حالات میں بھی اچھا کام کر رہے ہیں تاہم ابھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ہم نے پنجاب میں فری رجسٹریشن کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں ہر کیس کا پرچہ درج ہو۔تشدد کے کلچر کے خاتمے کیلئے پہلا سٹیٹ آف دی آرٹ 'سکول آف انویسٹی گیشن' قائم کردیا گیا ہے جو رواں ماہ کام کا آغاز کردے گا اور تفتیشی افسران کو بہترین تربیت فراہم کرے گا۔مصالحتی کونسل کے حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے منظوری مل چکی ہے، حکومت پنجاب کی اجازت کے بعد 10 روز کے اندر خیبر پختونخوا کی طرز پر ضلعی سطح پر مصالحتی کونسل قائم کر دی جائے گی ۔
جس میں مختلف مکاتب فکر کے قابل لوگ ہوں گے اور مسائل حل کریں گے۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر ہر ضلع میں ایک آزاد 'ایس پی شکایات' تعینات کیا گیا ہے جو لوگوں کی شکایات کو سنتا ہے، اس سے عدلیہ پر بھی بوجھ کم ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ شکایات پورٹل بھی موجود ہے جہاں لوگوں کی شکایات سنی جا رہی ہیں، اگر کوئی شخص وزیراعظم پورٹل پر غیر مطمئن لکھتا ہے تو اس سے رابطہ کرکے وجہ پوچھی جاتی ہے۔
آئی جی شکایات سیل موجود ہے جس کا نمبر 8787ہے، اس کو آئی جی سطح پر مانیٹر کیا جاتا ہے اور شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ایس ایچ او کے کمرے، فرنٹ ڈیسک اور لاک اپ میں کیمرے موجود ہیں اور آئی جی آفس میں ان کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے، اب تھانوں کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی کیمرے لگائے جارہے ہیں تاکہ مزید بہتری لائی جاسکے۔ تھانوں میں کیمرے لگانے کی وجہ سے بعض نجی ٹارچر سیل قائم ہوگئے۔
جن کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ ہم ایسے کسی غیر قانونی اقدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ کسی بھی صحافی کے تھانے میں داخلے پر پابندی نہیں اور نہ ہی جائے واردات پر کوئی رکاوٹ ہے، تھانوں میں موبائل پر پابندی کو بھی غلط طریقے سے لیا گیا حالانکہ یہ ایس ایچ او سے نچلی سطح کے پولیس اہلکاروں کیلئے تھی تاکہ دوران ڈیوٹی ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔
پنجاب کے 721 تھانوں میں سے ابتدائی طور پر 50 تھانوں کو خصوصی بنا رہے ہیں جنہیں کمپیوٹر و دیگر جدید سہولیات دی جائیں گی اور عوام کو اس سے فائدہ ہوگا۔ 2016ء میں محکمہ پولیس نے حکومت کو لکھا تھا کہ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی اور پبلک سیفٹی کمیشن قائم کریں جس میں آزاد لوگ ہوں، اس سے ادارے میں بہتری آئے گی۔ 2 لاکھ سے زائد پولیس اہلکار 10 ہزار سے زائد لوگوں کی تفتیش کرتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک دو افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس پر پورے محکمے کو برا نہ کہا جائے۔
اگر پولیس کا مورال پست ہوگیا تو مزید خرابیاں پیدا ہوںگی۔ پولیس میں قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کریمینل و محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے، اب بھی بیشتر اپنی میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ پولیس میں ریکروٹمنٹ کا پرانا نظام ختم ، اب سائیکالوجسٹ بھرتی کرلیے گئے ہیں، جو انٹرویو پینل میں شامل ہوں گے اور ان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ امیدواروں کی سلیکشن کے بعد انہیںانسانی حقوق اور اخلاقیات کی تربیت بھی دی جائے گی تاکہ کلچر تبدیل کیا جاسکے۔
خلیل طاہر سندھو
(چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق پنجاب )
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت دو جرائم کی سزا موت تھی اور جرائم کم تھے، اب 27 جرائم کی سزا موت ہے مگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ پولیس معاشرے کا عکس ہوتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ افسوس ہے کہ بیٹے کی لاش سامنے ہوتی ہے اور والد ایف آئی آر میں جھوٹے نام لکھوا رہا ہوتا ہے۔ جب تک معاشرے کے لوگ سچ نہیں بولیں گے۔
جھوٹی گواہیاں دیں گے تب تک نظام بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ہاں پہلے پکڑا جاتا ہے اور بعد میں ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں جبکہ یورپ میں اس کے برعکس ہے۔ سوئزرلینڈ میں جس تھانے کی حدود میں جرائم کم ہوتے ہیں اس کی تعریف کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تھانیدار کو پرچے درج کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے اور اسے وہ ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کا ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کیا جاتا ہے جہاں حالات مختلف ہیں۔ ہم تو صوبوں کا بھی آپس میں موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے حالات بھی فرق ہیں۔ حکومت خیبر پختونخوا کی مثالیں دیتی ہے، وہاں کا کلچر مختلف ہے، وہاں تو پرچہ درج کروانے والے کو بزدل تصور کیا جاتا ہے۔ چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے کی حوصلہ شکنی درست نہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بہترین اور قابل ہیں لہٰذا اگر ان کا اثر نیچے نہیں جائے تو مسائل حل نہیں ہوگے۔ ہمیں نچلی سطح تک رویے تبدیل کرنے پر کام کرنا ہوگا۔ یہاں پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کی بات کی گئی۔ ہم نے اپنے دور میں پولیس کی تنخواہ میں 100فیصد اضافہ کیا۔ میرے نزدیک مسئلہ تنخواہ کا نہیں سوچ کا ہے۔
پولیس کے ضابطہ اخلاق میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ رشوت لینی ہے، مدعی سے گاڑی کروانی ہے وغیرہ۔ بدقسمتی سے یہ عادت بن گئی ہے کہ کام روایتی طریقے سے ہی چلانا ہے۔ نجی ٹارچر سیل قابل مذمت ہیں۔ پولیس کلچر و معاشرتی بہتری کیلئے کریمینل پروسیجر کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ میں بہتری لانا ہوگی اور تفتیش کے نئے طریقے کار اپنانا ہوں گے۔
تفتیش کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے اور اسے قابل ادخال شہادت بنایا جائے۔ ہانگ کانگ کی طرز پر یہاں بھی ہر تھانے میں مصالحتی کونسل قائم کی جائے۔ اعلیٰ افسران تھانہ کلچر کی تبدیلی کو جہاد کی طرح لیں، تھانے کی سطح پر ریفرشر کورسز کروائے جائیں، اس سے بہتری آئے گی۔
ہماری پولیس کا جذبہ بلند ہے، یہ ہمارے سماج کی حفاظت کرتی ہے، جس جگہ پر دو پولیس اہلکار شہید ہوتے ہیں تھوڑی ہی دیر بعد وہاں مزید پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں، یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم میں سے ہی ہیں لہٰذا ہمیں ان کے حوالے سے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ تشدد اور زیر حراست موت کے جو چند واقعات سامنے آئے ہیں ان پر ایکشن لے کر مثال قائم کی جائے اور ایک لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی افسوسناک واقعہ رونما نہ ہو۔
ڈاکٹر صداقت علی
(ایڈیکشن سائیکاٹرسٹ)
پولیس کابنیادی ڈھانچہ انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ انگریز نے یہاں زبردستی قبضہ کر رکھا تھا لہٰذا اسے ایسی پولیس کی ضرورت تھی جو حکم منوائے۔ انگریز نے یہاں 100 برس سے زائد حکومت کی جس میں اس پولیس کلچر کو فروغ ملا لہٰذا اب یہ ہماری پولیس کی روایت بن گئی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ اب معاشی و دیگر مسائل کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے رویے میں وہ خرابی بھی آگئی جو پہلے موجود نہیں تھی۔
پولیس کے اعلیٰ افسران قابل اور خوش اخلاق ہیں، وہ لوگوں کی بات سنتے ہیں اور ان کا برتاؤ بھی اچھا ہے مگر نچلی سطح پر پولیس اہلکاروں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہیں جو حکم ملے گا، اسے پورا کرنا ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ بدقسمتی سے پاک و ہند کی پولیس میں تشدد کا عنصر شامل ہے جو تحریری نہیں بلکہ غیر رسمی طور پر ان کی ٹریننگ کا حصہ بن چکا ہے اور ان کے پاس مار کے علاوہ تفتیش کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
پولیس کو سہولیات اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ان کی ڈیوٹی کے اوقات کار24 گھنٹے ہیں جبکہ تھانوں میں کھانے پینے اور آرام کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔پولیس اہلکار گھر سے دور ہوتے ہیں، ان کی چھٹیاں منسوخ ہوجاتی ہیں۔ انہیں حکم ملتا ہے کہ یہ کام کرو ورنہ 24 گھنٹے میں فارغ کر دیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کو نقل و حمل کے مسائل ہیں، انہیں دیا جانے والا اسلحہ خراب ہے۔
تھانوں کا انفراسٹرکچر ٹھیک نہیں اور اس کے علاوہ ایسے بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں لہٰذا انہیں دور کرنا ہوگا۔فوج بیرونی دشمن جبکہ پولیس اندرونی دشمن کا مقابلہ کرتی ہے۔ ہم فوج کی طرح اگر پولیس پر بھی خاطر خواہ بجٹ خرچ کریں تو بہتری آسکتی ہے۔ میرے نزدیک پولیس اہلکاروں کی تنخواہ میں کم از کم 4 گنا اضافہ کیا جائے۔
موبائل کی وجہ سے پولیس گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والا بھی پولیس اہلکار ہی ہوتا ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس میں سب خراب نہیں ہیں، وہاں بھی ضمیر کی آواز زندہ ہے۔ میرے نزدیک جب تک پولیس کو سہولیات نہیں دی جاتی تب تک گالیاں دینے اور لینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پولیس ریفارمز کی باتیں تو بہت کی جا رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے بجٹ کہاں ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ محض لیکچر دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بیرسٹر محمد علی گیلانی
( چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان)
انگریز کا دور ختم ہوچکا اب نیا پولیس آرڈر 2002ء رائج ہے جس میں پولیس کو بتایا گیا ہے کہ کیسے تفتیش کرنی ہے، کس طرح ملزم کے ساتھ ڈیل کرنا ہے، ایف آئی آر کیسے درج کر نی ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن میں ان کی رہنمائی کی گئی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران قابل اور بیرون ممالک کے تربیت یافتہ ہیں مگر نچلی سطح کے پولیس اہلکاروں کا تعلق استحصالی طبقے سے ہے جو کم تعلیم یافتہ ہے۔
آئین پاکستان نے لوگوں کو جو بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں، ان کے بارے میں پولیس کو آگاہی دی جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ہر ملزم کو گرفتاری کے بعد اس کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں ، اس طرح ہم پولیس کو عالمی معیار پر لے جا سکتے ہیں۔ پولیس میں بہت اچھے لوگ ہیں، جو عبادت گزار بھی ہیں مگر چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے پر سوالات اٹھتے ہیں۔
کالی بھیڑیں ہر محکمے میں موجود ہیں، ان کے خلاف موثر کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان میں جرائم کی شرح امریکا سے کم ہے۔ جہالت زدہ معاشرے اور پولیس کے نچلے طبقے کے غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود ہمارے ہاں یہ شرح کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایس پی پولیس اپنے علاقے کے ایس ایچ اوز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور گشت بھی کرتے ہیں ۔
نجی ٹارچر سیل غیر قانونی ہیں جن کا افسران بالا کو علم نہیں ہوتا، بسا اوقات سب انسپکٹر نے بھی نجی ٹارچر سیل بنایا ہوتا ہے جو علاقے کے بدمعاشوں یا بااثر کرپٹ افراد کے گھر یا ڈیرے پر ہوتا ہے۔ ہر حکومت نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے۔
ان کے تدارک کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔یورپی ممالک میں ملزم کو گرفتاری کے بعد وکیل کرنے کا کہا جاتا ہے، اگر اس کا کوئی وکیل نہیں ہوتا تو اسے وکیل فراہم کیا جاتا ہے جس کی موجودگی میں تفتیش ہوتی ہے اور یہ سب ریکارڈ ہورہا ہوتا ہے، اس میں ملزم پر کسی قسم کا کوئی دباؤنہیں ڈالا جاتا اور پھر اس شہادت کو عدالت میں پیش کی جاتا ہے جو قابل ادخال شہادت ہے۔
ہمارے ہاں ایسی سہولت نہیں ہے بلکہ پولیس کی زیر حراست بیان کو عدالت بھی تسلیم نہیں کرتی تاوقت یہ کہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے پاس اس کا بیان کروا لیں لیکن اگر اس کے باوجود وہ عدالت میں آکر یہ بیان دے دے کہ میں نے دباؤ میں تھا اور پولیس کی حراست میں مجسٹریٹ کے پاس میرا بیان کروایا گیا تو عدالت اس کو شہادت تسلیم نہیں کرتی۔ اگر یورپ کی طرز پر تفتیش کی جائے تو اسے قابل ادخال شہادت بنایا جاسکتا ہے اور اس سے تفتیش کے روایتی کلچر میں بھی تبدیلی آئے گی۔ پولیس کے نظام میں خرابیوں پر جو آوازیں اٹھ رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نیا نظام دینا چاہتی ہے۔ میرے نزدیک پولیس کو ٹریننگ کے دوران انسانی حقوق کی تعلیم دینے سے معاملات بہتر ہوجائیں گے۔
ادارہ ایکسپریس نے اس اہم عوامی مسئلے کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم'' میں ''تھانوں میں تشددکا معاملہ اور پولیس ریفارمز'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ماہر نفسیات، محکمہ پولیس، اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
انعام غنی
(ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب)
تھانوں میں تشدد اور غیر قانونی حراست ، ریاست، حکومت اور محکمہ پولیس کی پالیسی نہیں ہے۔ ہم تشدد، غیر قانونی حراست، دوران حراست موت اور دوران حراست تشدد کی وجہ سے موت کی شدید مذمت کرتے ہیں اور کسی بھی طور اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اگر کوئی بھی پولیس ملازم ایسا کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے، ایسا کرنے والے کے خلاف کریمینل و محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے۔
افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں جو واقعات رونما ہوئے اس سے ایسا تاثر گیا کہ پورا محکمہ ہی غلط ہے۔ جن کی اموات ہوئیں وہ کوئی بڑے مجرم یا دہشت گرد نہیں تھے اور نہ ہی وہ لوگ تھے جن سے کوئی بڑی ریکوری ہونی تھی جس کیلئے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ نارمل لوگ تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے تھانے میں لائے گئے اور ان کی اموات ہوگئیں جو افسوسناک ہے۔ ہم نے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف ایکشن لیا اور وہ اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ تشدد کے حوالے سے قانون بنائیں، ہم نے تو دفعہ 302 کے تحت ان کے خلاف پرچے دیے اور اپنے ڈی ایس پیز کو بھی سزا دی ہے۔ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی 1کروڑ 10 لاکھ ہے جس میں 2 لاکھ سے زائد پولیس فورس ہے۔ پنجاب کے 36 اضلاع اور 9 ریجن ہیں جن میں 721 تھانے اور 813 حوالات ہیں۔ ہمارا آپریشنل بجٹ جس سے ہم پولیس چلاتے ہیں وہ ہمارے بجٹ کا 11 فیصد ہے۔ ہم 6 ڈالر فی کس خرچ کرتے ہیں، بھارتی پنجاب میں 16 ڈالر، ترکی میں 135 ڈالر اور یوکے میں پولیس پر 754 ڈالر فی کس خرچ کیے جاتے ہیں۔
لہٰذا ہمارا ان ممالک کی پولیس کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ ہم مشکل حالات میں بھی اچھا کام کر رہے ہیں تاہم ابھی بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ہم نے پنجاب میں فری رجسٹریشن کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں ہر کیس کا پرچہ درج ہو۔تشدد کے کلچر کے خاتمے کیلئے پہلا سٹیٹ آف دی آرٹ 'سکول آف انویسٹی گیشن' قائم کردیا گیا ہے جو رواں ماہ کام کا آغاز کردے گا اور تفتیشی افسران کو بہترین تربیت فراہم کرے گا۔مصالحتی کونسل کے حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے منظوری مل چکی ہے، حکومت پنجاب کی اجازت کے بعد 10 روز کے اندر خیبر پختونخوا کی طرز پر ضلعی سطح پر مصالحتی کونسل قائم کر دی جائے گی ۔
جس میں مختلف مکاتب فکر کے قابل لوگ ہوں گے اور مسائل حل کریں گے۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر ہر ضلع میں ایک آزاد 'ایس پی شکایات' تعینات کیا گیا ہے جو لوگوں کی شکایات کو سنتا ہے، اس سے عدلیہ پر بھی بوجھ کم ہوا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ شکایات پورٹل بھی موجود ہے جہاں لوگوں کی شکایات سنی جا رہی ہیں، اگر کوئی شخص وزیراعظم پورٹل پر غیر مطمئن لکھتا ہے تو اس سے رابطہ کرکے وجہ پوچھی جاتی ہے۔
آئی جی شکایات سیل موجود ہے جس کا نمبر 8787ہے، اس کو آئی جی سطح پر مانیٹر کیا جاتا ہے اور شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ایس ایچ او کے کمرے، فرنٹ ڈیسک اور لاک اپ میں کیمرے موجود ہیں اور آئی جی آفس میں ان کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے، اب تھانوں کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی کیمرے لگائے جارہے ہیں تاکہ مزید بہتری لائی جاسکے۔ تھانوں میں کیمرے لگانے کی وجہ سے بعض نجی ٹارچر سیل قائم ہوگئے۔
جن کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ ہم ایسے کسی غیر قانونی اقدام کو برداشت نہیں کریں گے۔ کسی بھی صحافی کے تھانے میں داخلے پر پابندی نہیں اور نہ ہی جائے واردات پر کوئی رکاوٹ ہے، تھانوں میں موبائل پر پابندی کو بھی غلط طریقے سے لیا گیا حالانکہ یہ ایس ایچ او سے نچلی سطح کے پولیس اہلکاروں کیلئے تھی تاکہ دوران ڈیوٹی ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔
پنجاب کے 721 تھانوں میں سے ابتدائی طور پر 50 تھانوں کو خصوصی بنا رہے ہیں جنہیں کمپیوٹر و دیگر جدید سہولیات دی جائیں گی اور عوام کو اس سے فائدہ ہوگا۔ 2016ء میں محکمہ پولیس نے حکومت کو لکھا تھا کہ پولیس کمپلینٹ اتھارٹی اور پبلک سیفٹی کمیشن قائم کریں جس میں آزاد لوگ ہوں، اس سے ادارے میں بہتری آئے گی۔ 2 لاکھ سے زائد پولیس اہلکار 10 ہزار سے زائد لوگوں کی تفتیش کرتے ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک دو افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس پر پورے محکمے کو برا نہ کہا جائے۔
اگر پولیس کا مورال پست ہوگیا تو مزید خرابیاں پیدا ہوںگی۔ پولیس میں قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف کریمینل و محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے، اب بھی بیشتر اپنی میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ پولیس میں ریکروٹمنٹ کا پرانا نظام ختم ، اب سائیکالوجسٹ بھرتی کرلیے گئے ہیں، جو انٹرویو پینل میں شامل ہوں گے اور ان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ امیدواروں کی سلیکشن کے بعد انہیںانسانی حقوق اور اخلاقیات کی تربیت بھی دی جائے گی تاکہ کلچر تبدیل کیا جاسکے۔
خلیل طاہر سندھو
(چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق پنجاب )
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت دو جرائم کی سزا موت تھی اور جرائم کم تھے، اب 27 جرائم کی سزا موت ہے مگر جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ پولیس معاشرے کا عکس ہوتی ہے لہٰذا ہمیں اپنے مجموعی رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ افسوس ہے کہ بیٹے کی لاش سامنے ہوتی ہے اور والد ایف آئی آر میں جھوٹے نام لکھوا رہا ہوتا ہے۔ جب تک معاشرے کے لوگ سچ نہیں بولیں گے۔
جھوٹی گواہیاں دیں گے تب تک نظام بہتر نہیں ہوسکتا۔ ہمارے ہاں پہلے پکڑا جاتا ہے اور بعد میں ثبوت تلاش کیے جاتے ہیں جبکہ یورپ میں اس کے برعکس ہے۔ سوئزرلینڈ میں جس تھانے کی حدود میں جرائم کم ہوتے ہیں اس کی تعریف کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تھانیدار کو پرچے درج کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے اور اسے وہ ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کا ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کیا جاتا ہے جہاں حالات مختلف ہیں۔ ہم تو صوبوں کا بھی آپس میں موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں کے حالات بھی فرق ہیں۔ حکومت خیبر پختونخوا کی مثالیں دیتی ہے، وہاں کا کلچر مختلف ہے، وہاں تو پرچہ درج کروانے والے کو بزدل تصور کیا جاتا ہے۔ چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے کی حوصلہ شکنی درست نہیں۔ پولیس کے اعلیٰ افسران بہترین اور قابل ہیں لہٰذا اگر ان کا اثر نیچے نہیں جائے تو مسائل حل نہیں ہوگے۔ ہمیں نچلی سطح تک رویے تبدیل کرنے پر کام کرنا ہوگا۔ یہاں پولیس اہلکاروں کی تنخواہوں کی بات کی گئی۔ ہم نے اپنے دور میں پولیس کی تنخواہ میں 100فیصد اضافہ کیا۔ میرے نزدیک مسئلہ تنخواہ کا نہیں سوچ کا ہے۔
پولیس کے ضابطہ اخلاق میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ رشوت لینی ہے، مدعی سے گاڑی کروانی ہے وغیرہ۔ بدقسمتی سے یہ عادت بن گئی ہے کہ کام روایتی طریقے سے ہی چلانا ہے۔ نجی ٹارچر سیل قابل مذمت ہیں۔ پولیس کلچر و معاشرتی بہتری کیلئے کریمینل پروسیجر کوڈ اور پاکستان پینل کوڈ میں بہتری لانا ہوگی اور تفتیش کے نئے طریقے کار اپنانا ہوں گے۔
تفتیش کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے اور اسے قابل ادخال شہادت بنایا جائے۔ ہانگ کانگ کی طرز پر یہاں بھی ہر تھانے میں مصالحتی کونسل قائم کی جائے۔ اعلیٰ افسران تھانہ کلچر کی تبدیلی کو جہاد کی طرح لیں، تھانے کی سطح پر ریفرشر کورسز کروائے جائیں، اس سے بہتری آئے گی۔
ہماری پولیس کا جذبہ بلند ہے، یہ ہمارے سماج کی حفاظت کرتی ہے، جس جگہ پر دو پولیس اہلکار شہید ہوتے ہیں تھوڑی ہی دیر بعد وہاں مزید پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں، یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم میں سے ہی ہیں لہٰذا ہمیں ان کے حوالے سے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ تشدد اور زیر حراست موت کے جو چند واقعات سامنے آئے ہیں ان پر ایکشن لے کر مثال قائم کی جائے اور ایک لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی افسوسناک واقعہ رونما نہ ہو۔
ڈاکٹر صداقت علی
(ایڈیکشن سائیکاٹرسٹ)
پولیس کابنیادی ڈھانچہ انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ انگریز نے یہاں زبردستی قبضہ کر رکھا تھا لہٰذا اسے ایسی پولیس کی ضرورت تھی جو حکم منوائے۔ انگریز نے یہاں 100 برس سے زائد حکومت کی جس میں اس پولیس کلچر کو فروغ ملا لہٰذا اب یہ ہماری پولیس کی روایت بن گئی ہے جو نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ اب معاشی و دیگر مسائل کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے رویے میں وہ خرابی بھی آگئی جو پہلے موجود نہیں تھی۔
پولیس کے اعلیٰ افسران قابل اور خوش اخلاق ہیں، وہ لوگوں کی بات سنتے ہیں اور ان کا برتاؤ بھی اچھا ہے مگر نچلی سطح پر پولیس اہلکاروں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ انہیں جو حکم ملے گا، اسے پورا کرنا ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں۔ بدقسمتی سے پاک و ہند کی پولیس میں تشدد کا عنصر شامل ہے جو تحریری نہیں بلکہ غیر رسمی طور پر ان کی ٹریننگ کا حصہ بن چکا ہے اور ان کے پاس مار کے علاوہ تفتیش کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔
پولیس کو سہولیات اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ان کی ڈیوٹی کے اوقات کار24 گھنٹے ہیں جبکہ تھانوں میں کھانے پینے اور آرام کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔پولیس اہلکار گھر سے دور ہوتے ہیں، ان کی چھٹیاں منسوخ ہوجاتی ہیں۔ انہیں حکم ملتا ہے کہ یہ کام کرو ورنہ 24 گھنٹے میں فارغ کر دیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کو نقل و حمل کے مسائل ہیں، انہیں دیا جانے والا اسلحہ خراب ہے۔
تھانوں کا انفراسٹرکچر ٹھیک نہیں اور اس کے علاوہ ایسے بے شمار مسائل ہیں جن کی وجہ سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں لہٰذا انہیں دور کرنا ہوگا۔فوج بیرونی دشمن جبکہ پولیس اندرونی دشمن کا مقابلہ کرتی ہے۔ ہم فوج کی طرح اگر پولیس پر بھی خاطر خواہ بجٹ خرچ کریں تو بہتری آسکتی ہے۔ میرے نزدیک پولیس اہلکاروں کی تنخواہ میں کم از کم 4 گنا اضافہ کیا جائے۔
موبائل کی وجہ سے پولیس گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ ویڈیو بنانے والا بھی پولیس اہلکار ہی ہوتا ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس میں سب خراب نہیں ہیں، وہاں بھی ضمیر کی آواز زندہ ہے۔ میرے نزدیک جب تک پولیس کو سہولیات نہیں دی جاتی تب تک گالیاں دینے اور لینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پولیس ریفارمز کی باتیں تو بہت کی جا رہی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے بجٹ کہاں ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ محض لیکچر دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بیرسٹر محمد علی گیلانی
( چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان)
انگریز کا دور ختم ہوچکا اب نیا پولیس آرڈر 2002ء رائج ہے جس میں پولیس کو بتایا گیا ہے کہ کیسے تفتیش کرنی ہے، کس طرح ملزم کے ساتھ ڈیل کرنا ہے، ایف آئی آر کیسے درج کر نی ہے اور اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن میں ان کی رہنمائی کی گئی ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران قابل اور بیرون ممالک کے تربیت یافتہ ہیں مگر نچلی سطح کے پولیس اہلکاروں کا تعلق استحصالی طبقے سے ہے جو کم تعلیم یافتہ ہے۔
آئین پاکستان نے لوگوں کو جو بنیادی حقوق فراہم کیے ہیں، ان کے بارے میں پولیس کو آگاہی دی جائے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ہر ملزم کو گرفتاری کے بعد اس کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں ، اس طرح ہم پولیس کو عالمی معیار پر لے جا سکتے ہیں۔ پولیس میں بہت اچھے لوگ ہیں، جو عبادت گزار بھی ہیں مگر چند لوگوں کی وجہ سے پورے محکمے پر سوالات اٹھتے ہیں۔
کالی بھیڑیں ہر محکمے میں موجود ہیں، ان کے خلاف موثر کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان میں جرائم کی شرح امریکا سے کم ہے۔ جہالت زدہ معاشرے اور پولیس کے نچلے طبقے کے غیر تربیت یافتہ ہونے کے باوجود ہمارے ہاں یہ شرح کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایس پی پولیس اپنے علاقے کے ایس ایچ اوز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور گشت بھی کرتے ہیں ۔
نجی ٹارچر سیل غیر قانونی ہیں جن کا افسران بالا کو علم نہیں ہوتا، بسا اوقات سب انسپکٹر نے بھی نجی ٹارچر سیل بنایا ہوتا ہے جو علاقے کے بدمعاشوں یا بااثر کرپٹ افراد کے گھر یا ڈیرے پر ہوتا ہے۔ ہر حکومت نے ان کی حوصلہ شکنی کی اور موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے۔
ان کے تدارک کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔یورپی ممالک میں ملزم کو گرفتاری کے بعد وکیل کرنے کا کہا جاتا ہے، اگر اس کا کوئی وکیل نہیں ہوتا تو اسے وکیل فراہم کیا جاتا ہے جس کی موجودگی میں تفتیش ہوتی ہے اور یہ سب ریکارڈ ہورہا ہوتا ہے، اس میں ملزم پر کسی قسم کا کوئی دباؤنہیں ڈالا جاتا اور پھر اس شہادت کو عدالت میں پیش کی جاتا ہے جو قابل ادخال شہادت ہے۔
ہمارے ہاں ایسی سہولت نہیں ہے بلکہ پولیس کی زیر حراست بیان کو عدالت بھی تسلیم نہیں کرتی تاوقت یہ کہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے پاس اس کا بیان کروا لیں لیکن اگر اس کے باوجود وہ عدالت میں آکر یہ بیان دے دے کہ میں نے دباؤ میں تھا اور پولیس کی حراست میں مجسٹریٹ کے پاس میرا بیان کروایا گیا تو عدالت اس کو شہادت تسلیم نہیں کرتی۔ اگر یورپ کی طرز پر تفتیش کی جائے تو اسے قابل ادخال شہادت بنایا جاسکتا ہے اور اس سے تفتیش کے روایتی کلچر میں بھی تبدیلی آئے گی۔ پولیس کے نظام میں خرابیوں پر جو آوازیں اٹھ رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نیا نظام دینا چاہتی ہے۔ میرے نزدیک پولیس کو ٹریننگ کے دوران انسانی حقوق کی تعلیم دینے سے معاملات بہتر ہوجائیں گے۔