سامراج اور القاعدہ ایک سکے کے دورخ

گلوبلائزیشن، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، کنسورشیم اور ڈبلیوٹی او کی شکل میں دنیا بھر میں اجارہ داری قائم کی گئی ہے۔


Zuber Rehman September 30, 2013
[email protected]

WASHINGTON: گلوبلائزیشن، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، کنسورشیم اور ڈبلیوٹی او کی شکل میں دنیا بھر میں اجارہ داری قائم کی گئی ہے۔

جیسا کہ کیوبا، شمالی کوریا، زمبابوے، بولیویا، ایکواڈور، بلاروس، وینزویلا اور چند ممالک کے سوا پوری عالمی سرمایہ دار دنیا ان عالمی سامراجی اداروں کی مقروض ہوچکی ہے۔ ان کے بجٹ کا بیشتر حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے اور باقی پیسے اسلحے کی خریداری پر۔ اب زائد پیداواری بحران اور عوام کی قوت خرید میں کمی آنے سے ان سامراجی ملکوں کی شرح نمو میں کمی، افراط زر اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ سامراجی قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لیے مقروض ملکوں پر آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادا جاتاہے اور سہولتوں میں کٹوتی کی جاتی ہے۔

ان استحصال اور بہیمانہ لوٹ کے خلاف عوام نے صرف ملکوں اور خطوں میں نہیں بلکہ عالمگیر بنیاد پر احتجاج کرنا شروع کردیے ہیں اور یہ احتجاج روز بروز بڑھتا ہی جارہاہے۔ یورپی یونین اور جاپان جیسے ممالک میں شرح نمو صفر فیصد پر آگئی ہے اور جن کی اڑان چند سال قبل اونچی تھی جیسا کہ چین کی شرح نمو 11سے گھٹ کر 7فیصد پر آگئی ہے۔ اس سنگین لاچارگی اور بے بسی میں عالمی سامراج بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ جب کہ عوام اپنے پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ مہینوں سے دنیا بھر میں معاشی ناانصافیوں کے خلاف برازیل، چلی، پرتگال، یونان، اسپین، بلغاریہ، جنوبی افریقہ، ترکی اور انڈونیشیا سمیت متعدد ممالک میں احتجاج شروع ہوگئے ہیں۔

پرتگالیوں نے تاریخ کی کامیاب ہڑتال کرکے اپنے بیشتر مطالبات بھی منوالیے ہیں۔ ترکی میں اب بھی احتجاج جاری ہے، جب ہی تو وہ شام کے خلاف اوٹ پٹانگ بیان آج کل نہیں دے رہا ہے۔ ان تمام ملکوں میں احتجاج کی رہنمائی کمیونسٹ کررہے ہیں۔ اس صورتحال سے عالمی سامراج ہیجان کا شکار ہے۔ اس لیے اس نے اپنے پرانے کارندوں کو پھر سے مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت میں جھونک دیا ہے۔ جیسا کہ چند دنوں میں القاعدہ تنظیم حرکت الشباب کے ذریعے کینیا کے شاپنگ مال پر حملہ کرواکر 59افراد کا قتل کروایا گیا۔

اس تنظیم کا بیس کیمپ صومالیہ ہے۔ عراق میں الصدرسٹی میں بم دھماکا کرواکر 60افراد کا قتل کروایا۔ نائیجیریا میں القاعدہ تنظیم ''بوکو حرام'' کے ذریعے حملہ کرواکر90محنت کشوں کو ہلاک کیا، مسلمانوں کے ذریعے مصر میں قطبی عیسائیوں پر حملہ پھر پاکستان میں لشکر جھنگوی کے ذریعے شیعہ ہزارہ کے ہزاروں افراد کا قتل، جب کہ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزارات، گرجاؤں اور مندروں پر دیوبندی طالبان کے ذریعے حملے اور قتل صرف نواز شریف کی حکومت کے110روز میں107بار ہوئے، اسی طرح جنداﷲ دیوبندیوں نے پشاور میں پنجابی عیسائی محنت کشوں پر گرجا گھر میں خودکش حملے کرکے 83محنت کشوں کا قتل کیا جن میں 40خواتین اور 11بچے شامل ہیں۔ اسی روز باڑہ میں لشکر اسلام کے دفتر پر حملہ ہوا اور پانچ افراد مارے گئے۔ اس سے قبل پنجاب میں عیسائیوں کی بستیوں کو آگ لگاکر لوٹ مار کی گئی۔ پشاور میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 150سے زیادہ ہوچکی ہے۔

دوسری جانب ہمارے حکمران ملا غنی کو رہا کردیا ہے۔ فرقہ واریت صرف مسلم ممالک میں سامراج انجام نہیں دلوارہا ہے بلکہ یورپ اور امریکا میں بھی نسل پرست، عیسائی اور یہودی مذہبی فرقہ پرست تنظیموں کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔ اسکینڈینوین ممالک کے 150نوجوان جو کہ سوشلسٹ اسکولنگ میں شریک تھے، عیسائی انتہا پسند کی جانب سے بم مارکر 60سوشلسٹ نوجوانوں کا قتل کیا۔ امریکا میں مسلمانوں پر قدغن اور حقارت آمیز انداز میں تلاشی لی جاتی ہے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتاہے۔ یورپ میں ایشیائی اور افریقی مہمان مزدوروں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ لیکن آج تک یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کسی کمیونسٹ، انارکسٹ یا انقلابی نے کسی بھی مسجد، مندر، امام بارگاہ، مزارات، گرجا یا ٹیمپل پر حملہ کیا۔ یہ کام کمیونسٹ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اب جتنی قتل وغارت گری ہورہی ہے وہ مسلمان، مسلمانوں کا، مسلمان عیسائیوںکا، یہودی مسلمانوں کا، عیسائی مسلمانوں کا قتل کررہے ہیں۔

جب سوشلسٹ بلاک تھا تو کیا کسی نے سنا تھا کہ یوگو سلاویہ میں مسلمان، عیسائی یا کروش کا قتل ہوا؟ روس میں مسلمان یا یہودیوں کا قتل ہوا، مشرقی یورپ، چین یا شمالی کوریا میں مسلمان، بدھ یا عیسائیوں کا قتل ہوا؟ جواب نفی میں ملے گا۔ ہاں مگر امریکی سامراج، برطانوی سامراج، مغل سامراج، عرب سامراج، جرمنی اور جاپانی سامراج نے مفتوح علاقوں میں لاکھوں انسانوں کا قتل کیا، برطانیہ، اور امریکا نے ویت نام، موزمبیق، جنوبی افریقہ، کوریا پر بمباری کرکے لاکھوں انسانوں کا قتل کیا۔ جب کہ عراق اور افغانستان پر امریکا نے اور فلسطینیوں و لبنان پر اسرائیل نے حملہ کیا تو لندن، واشنگٹن، تل ابیب، روم اور پیرس میں 20/20 اور 30/30لاکھ کمیونسٹوں، انارکسٹوں، سوشلسٹوں اور جنگ مخالف قوتوں نے مظاہرے کیے، آج بھی شام پر مبینہ امریکی حملے کے خلاف آسٹریلیا، نیو یارک، لندن، پیرس، واشنگٹن، استنبول، اردن، بون اور برنس میں زبردست مظاہرے ہوئے۔

درحقیقت مسائل محنت کش عوام کے ہیں۔ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مسائل مسلمان ہندو، عیسائی، یہودی، سکھ، پنجابی، پٹھان، فرانسیسی، جاپانی، پختون کے نہیں ہوتے بلکہ دنیا بھر کے کارکنان اور عام شہریوں کے ہوتے ہیں۔ خواہ ان کا مذہب، رنگ ونسل اور زبان کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کہ کافر اور گونگے کو بھی بھوک لگتی ہے۔ کافر اس دنیا میں ایک ارب سے زیادہ ہیں۔ ان میں بھی سرمایہ دار اور مزدور ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمران انھیں سے مذاکرات کرتے ہیں جو ہزاروں انسانوں کے سفاک قاتل ہیں اور انھیں سامراجی کنٹینرز جو کہ اسلحوں سے لدا ہوتاہے انھیں افغانستان میں لے جاکر معصوم افغانوں کو قتل کرنے کا لائسنس دیتے ہیں اور یہ کام ساری حکومتیں انجام دیتی آرہی ہیں۔

شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ''تنگ آمد بجنگ آمد'' جب بھوک، افلاس، غربت، خودکشیاں، بے روزگاری، غذائی قلت، ذلت اور اذیت سے عوام اکتا اٹھیں گے تو وہ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کی طرح دنیا بھر میں احتجاج شروع کریں گے اور وہ تحریک ایک عوامی اور عالمگیر تحریک ہوگی۔ ان تحریکوں میں سے رہنمائی بھی ہوجائے گی۔ کوئی کنگھا چوٹی کرکے نکلنے والے لیڈر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

پھر عوام خود کار اور خود انحصاری کی بنیاد پر ایسے محلے، علاقے اور خطوں میں عبوری کمیٹیاں تشکیل دیں گے جو اپنے مسائل خود حل کریں گی۔ سرمایہ دارانہ سماج میں ڈاکٹر مرض بڑھاتا ہے، جج نا انصافی پھیلاتاہے، صحافی جھوٹ پھیلاتاہے، پولیس کرائم پھیلاتی ہے، مولوی مذہبی فرقوں میں لڑواتاہے، وکیل کلائنٹ سے فریب کرتاہے، پروفیسر غلط پڑھاتے ہیں اور سائنس دان سرمایہ داروں کے منافع میں اضافے کے لیے ایجادات کرتے ہیں۔ اس لیے کہ سرمایہ داری میں پیداوار عوام کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ اپنے منافعے میں اضافے کے لیے ہوتی ہیں۔ عوام کے مسائل تب حل ہوں گے جب پیداوار کرنے والی قوتوں کا پیداوار پر قبضہ ہوگا۔ ایک ایسا امداد باہمی، مساوات، یا پنچائیتی یا کمیونسٹ سماج کی تشکیل ہوگی جس میں سب ہر ایک کا اور ہر ایک سب کا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔