کیا زندگی صرف درد کاسفرہے
بلوچستا ن میں آنے والے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتیں۔ پشاور میں گرجاگھر پر حملہ اور قصہ خوانی بازار...
بلوچستا ن میں آنے والے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتیں۔ پشاور میں گرجاگھر پر حملہ اور قصہ خوانی بازار میں بم دھماکے۔آئے دن کراچی میں ٹارگٹ کلنگ سے گل ہونے والی زندگیوں کے چراغ۔ان حالات کے لیے کیا حروف لکھیں،کن لفظوں میں بیان کریں۔کس آرٹ کی بات کریں،کون سے فن کو موضوع بنائیں،مگر زندگی جاری و ساری ہے،لیکن کیا ہمارے دیس میں اب زندگی صرف درد کا سفر ہے؟
کچھ حروف ایسے ہوتے ہیں،جن کی حتمی تعریف ممکن نہیں ہوتی۔ان کوکسی طرح سے بیان کربھی دیاجائے ،مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ہم لوگ الفاظ کو اپنے اپنے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔کسی کے ذہن میں لفظ کاپس منظر کچھ ہوتاہے ،کوئی اسے بالکل دوسرے رُخ سے دیکھتاہے۔یہی لفظیات کی جادوگری ہے۔ایک لفظ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتاہے،وہ لفظ''زندگی''ہے۔
پڑھنے میں یہ حرف بہت عام سا ہے ،لیکن اس کی معنویت پورے زمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔بقول شاعر''سمٹے تودلِ عاشق،پھیلے تو زمانہ''۔یہ لفظ اپنی معنویت میں جامع اور وسیع پھیلاؤ کاحامل لفظ ہے۔ہر شخص کے ذہن میں اس کی مختلف تعریف ہے۔لفظوں کی معنویت کاتعلق تجربات سے بھی ہوتاہے۔جن کے ہاں زندگی خوش نمائی کا ایک حسین باب رہی ہو،وہ اس لفظ کو رومانوی لحاظ سے متصور کریں گے اورجنہوں نے زندگی کے نام پر بے تحاشا اذیتیں برداشت کی ہوں،ان کے لیے یہ لفظ ایک بوجھل احساس کی طرح ہوگا۔
حروفِ تہجی میں یہ لفظ صرف ''زندگی''تک محدودنہیں ہے،بلکہ یہ حیات،جاوید،زندہ اوردیگر معنوں میں ڈھلتاہوا زندگی کے معنی کوکھول کرسمجھاتاہے۔عمومی طورپر زندگی کے تجربات سے لوگ اس کے معنی کشیدکرتے ہیں۔کسی کے لیے زندگی چاروں موسموں کا مجموعہ ہوسکتی ہے،تو کسی کے لیے چاندنی رات کی ٹھنڈک میں کافی کاکپ تھامے ہوئے کوئی حسین چہرہ،جسے دیکھ کر بھرپور زندگی کااحساس بیدار ہوتاہے۔کوئی اس لفظ کو دھوپ میں گھنے سایے سے تشبیہہ دیتاہے اورکسی کے لیے یہ زندگی کالفظ کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔
کیفیات اورمحسوسات کے ردوبدل سے اس زندگی کے معنی تبدیل ہوتے ہیں۔اس لیے حرفِ زندگی کی کوئی حتمی تعریف ممکن نہیںہے،مگر دنیا کی معروف شخصیات نے اسے اپنے رُخ سے دیکھ اورسمجھ کر اس کے بارے میں اظہارِخیال کیاہے۔کبھی کبھی ہمارے حالات بھی زندگی کی مقررکردہ تعریف بن جاتے ہیں۔ان دنوں کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ہمارے شہروں میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔عوام ڈرون حملوں میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔سرکاری محکموں میں مالی کرپشن اورمعاشرتی سطح پر اخلاقی کرپشن اپنی انتہائی حدوں کوچھو رہی ہے۔اس منظر نامے پر تہذیبی مزاج کے لوگ صرف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ روز اخبارات کے پہلے صفحات پر ایک تصویرشایع ہوئی ۔مجھے اس تصویر نے بہت دنوں تک اذیت میں مبتلا رکھا۔ایک شخص آگ کے شعلوں میں گھرا ہواہے۔اپنی جان کو راکھ میں بدلنے کی کوشش کررہاہے۔اس کوشش کوناکام بنانے کے لیے،کچھ لوگ متاثرہ شخص کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کیابے بسی ہے۔اس شخص کے اندر کتنی آگ ہوگی،جس نے اس کے باہر کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اورکچھ بعید نہیں ،اگر معاشرے کے ان تکلیف دہ مسائل کا تدارک نہ کیاگیا،تویہ آگ پھیل کر ہم سب کواپنی لپیٹ میں لے گی۔خام خیالی ہے ان ذمے داروں کی،جن کواقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر یہ لگتاہے کہ وہ اس آگ سے محفوظ رہیںگے۔آگ کرسی کوشناخت نہیں کرسکتی،وہ صرف راکھ کرنا جانتی ہے۔
دنیا میں کچھ لوگوں نے حرفِ زندگی کو محسوس کرکے اپنے احساس کوقلم بند کیا۔فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹ نے کہاتھا''ایک تصویر ہزار لفظوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔''مگر شاید اس تصویر کے لیے ہزار الفاظ بھی تھوڑے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اب جیسے حالات ہوگئے ہیں،اس میں حروف نے خاموشی اختیار کرلی ہے،مگر تصویریں گفتگو کرنے لگی ہیں۔یہ اذیت کاعجیب رُخ ہے،اس میں درد محسوس توہوتاہے مگر یہ کسی کودکھائی نہیں دیتا۔اگردکھائی دیا ہوتا توحاکمِ وقت کوئی حیلہ کرتے،لیکن اب کے بار بھی سارے موسم وعدوں تک محدود ہیں۔
آئے دن اخبارات میں خودکشی کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ان خودکشیوں کی کیا وجوہات ہیں؟یہی آگ ہے،جن کے شعلوں میں یہ انسان اندر سے گھرے ہوتے ہیں اورجب یہ آگ زور پکڑتی ہے توباہر سے جلاکر راکھ کردیتی ہے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے؟شاید اب ہمارے ہاں یہی زندگی ہے۔اردو ادب کے بہت مقبول ادیب ممتاز مفتی کاکہنا تھا''سُکھ بھی دُکھ کے بعد ہی اچھا لگتاہے،اگر صرف سُکھ ہی سُکھ ہوگا تو اپنی کشش کھودے گا''مگر عہد ِحاضر کی یہ کیسی زندگی ہے،جو دُکھوں سے بھری ہوئی ہے اورعوام کوسُکھ کاسانس لینے کاموقع ہی نہیں مل رہا۔ جینا اتنا آسان نہیں رہا،جتنی سہولت سے اب موت دستیاب ہے۔
مگر پھر بھی زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔وقت اورزندگی کسی کے لیے رُکا نہیں کرتے،البتہ حروف تاریخ کی گواہی بنتے ہیں۔ان حروف کوجمع کرکے قلم بند کرنے والوں نے حرفِ زندگی کواپنے اپنے ڈھنگ سے بیان کیاہے۔برطانوی شہزادی''لیڈی ڈیانا''جس کے حسن کے چرچے ایک عرصے تک زبان زدِ عام رہے۔اس نے جب زندگی کوپرکھ لیا،تووہ اندر سے خالی ہوگئی۔زندگی کے سارے معنی اس کے لیے بے اثرہوگئے۔اسی لیے جب اس سے پوچھا گیاکہ آپ کی نظر میں لفظ''زندگی''کی کیااہمیت ہے،تواس نے کہا''زندگی صرف ایک سفر ہے۔''یہ کیساسفر ہے؟اس کاذکر اس نے نہیں کیا،مگر جس الم ناک موت سے حسن کی یہ شہزادی دوچار ہوئی،اس کو دیکھ کر اسی کاکہاہوا جملہ کروٹ بدلتاہے اورپھر اس کی معنویت ہمارے کانوں میں ''زندگی صرف ایک درد کاسفر ہے''بن کر گونجنے لگتی ہے۔
فرانس جیسا ملک،جہاں حسین نظاروں کو دیکھتے ہوئے پلکیں جھپکنابھول جائیں۔شہر پیرس کے وسط میںبہتے ہوئے دریائے سین کے کناروں پر سرمئی شامیں اورسنہری صبحیں اترتی ہوں۔وہاں ایک فرانسیسی مصنف''البرٹ کامیو''زندگی سے کلام کرنے کے بعد اپنے قلم سے ایک جملہ کنندہ کرتاہے''زندگی آنسوؤں میں رہنے کانام ہے۔''گوئٹے کے ملک جرمنی کا ایک مایہ ناز ادیب ''فرانز کافکا ''کی نظر میں زندگی کی معنویت کچھ یوں ہے ''یہ وہ شے ہے،جس کوایک دن رُکناہوتاہے اورآخر کار یہ رُک جاتی ہے۔''کاش کافکا بتاسکتاکہ زندگی خودبخود رُک جائے تواتنی تکلیف نہیں ہوتی ،مگر جب یہ بناقصور روکی جائے،تو بہت اذیت ہوتی ہے۔
بلوچستان کازلزلہ،پشاور کاسانحہ، کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ،امریکی ڈرون حملے،دشمنیاں اور جھگڑے، ہمارے ہاں زندگی کو بُری طرح روکاجا رہاہے۔معصوم جانوں سے کھیلنے والے یہ کیوں نہیں جانتے ،ایک دن انھیں بھی جان دینی ہے۔نہ جانے ان لوگوں کے سینے میں دل کیوں جامد ہے۔ان کے خون میں انسانیت کی گرمائش کیوں نہیں دہکتی۔ا ن کے اعصاب خوف خدا سے کیوں نہیں لرزتے۔ذمے داری کی ڈگڈی بجانے والوں کے منہ پر قدرت کوئی طمانچہ کیوں رسیدنہیں کرتی۔شاید دیر ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔
برطانوی مصنفہ''ورجیناوولف''لکھتی ہے۔''زندگی کونظرانداز کرکے امن حاصل نہیں ہوسکتا۔''نہ جانے یہ کون لوگ ہیں،جن کو یقین ہے کہ اتنی زندگیوں کونظر انداز کرکے وہ اپنی زندگی ٹھیک سے جی لیں گے۔ایساکیسے ممکن ہے۔یہی حرفِ زندگی جب اپنے معنی تبدیل کرتا ہے،توکوئی سوچ بھی نہیں سکتا،حالات کیسے مخالف سمت اختیار کرلیتے ہیں۔اسی لیے جاپانی ناول نگار''ہاروکی موراکامی''نے زندگی کے بارے میں مشاہدہ کرتے ہوئے لکھا۔''موت زندگی کا دوسرا رُخ تونہیں ہے،البتہ اس کا ایک حصہ ہے۔''یعنی زندگی اپنے اندر کئی پہلو رکھتی ہے۔یہ متحرک ہے،اسی لیے زندگی کہلاتی ہے۔
روسی ادیب''لیوٹالسٹائی''جس نے دوسری جنگ عظیم میںحصہ لیا اور قتل وغارت کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔اس نے اپنے اسی تجرنے سے ''واراینڈ پیس''جیسا لازوال ناول لکھا۔وہ کہتا تھا''ہرکوئی سوچتا ہے،وہ دنیا کو بدلے گا،مگر کوئی خود کو بدلنے کا نہیں سوچتا۔''ہمارے ہاں یہ سوچ کیوں نہیں پنپتی۔ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے۔ہمارے ہاں کوئی ایسا ناول لکھنے والا کیوں نہیں ہے؟جو فکشن کے رنگوں میں حقیقت کی آمیزش کرے۔
وہ دورکب آئے گا،جب ہمارے ہاں زندگی انسانیت کی علامت میں ڈھل جائے گی۔ہم لوگ مدرٹریسا،نیلسن منڈیلا اورعبدالستار ایدھی کی طرز پر سوچنے لگیں گے۔ہاتھ سے جاتی ہوئی تہذیب کو محفوظ کرنے کاکوئی چارہ کریں گے۔ہم پر زندگی کب موسم بہار بن کراترے گی۔ہم کب سنہری صبحیں اورسرمئی شاموں کودیکھ پائیں گے۔
ہمارے شہروں سے کب بموں کا دھواں چھٹے گا۔کب ہمیں اچھی کتابیں دیکھ کر خوشی ہوا کرے گی اورکب ہم مادی اشیا پر بحث کرنا چھوڑ دیں گے۔یہ لفظ ''زندگی''ہمارے لیے تو صرف سوالوں اورفریادوں کی بازگشت بن کے رہ گیا ہے۔ایسی بازگشت ،جس کی گونج ہماری روح کے کھنڈر میں بھٹکتی رہتی ہے،مگر اب ایسا لگتا ہے،کوئی سننے والا نہیں ہے۔زندگی بہت سارے جوابات سے محروم سوالوں کا نام بھی ہے۔
ہم جب مغرب کے ادب کو پڑھتے ہیں،تو ان کے ہاں حروف دوسرے معنوں میں سانس لیتے ہیں۔ڈرون حملے کرنے والوں کے ملک میں بھی ''جم بُچر''جیساقلم کار ہے۔جس کو انسانیت سے لگاؤ ہے۔وہ بھی زندگی کوایک سفر سمجھتاہے۔اس مسافت میں وقت کودریا لکھتاہے اورکہیں کہیں زندگی اس کے لیے نیم وا دروازہ ہے۔ہم پاکستانی امن کے متلاشی اس نیم وا دروازے کے اُدھر کی زندگی کودیکھنے کی چاہ میں جیے جا رہے ہیں۔ہماری زندگی درد کے دریا میں بہتی جارہی ہے اورہماری آنکھیں زندگی کے نیم وا دروازے پر جمی ہوئی ہیں،شاید اس نیم وا دروازے کے اُدھر زندگی کوئی امید افزا سحر،کوئی امن کاآفتاب لیے طلوع ہو اورہم تہذیبی اندھے پن سے بچ جائیں۔
کچھ حروف ایسے ہوتے ہیں،جن کی حتمی تعریف ممکن نہیں ہوتی۔ان کوکسی طرح سے بیان کربھی دیاجائے ،مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ہم لوگ الفاظ کو اپنے اپنے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔کسی کے ذہن میں لفظ کاپس منظر کچھ ہوتاہے ،کوئی اسے بالکل دوسرے رُخ سے دیکھتاہے۔یہی لفظیات کی جادوگری ہے۔ایک لفظ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتاہے،وہ لفظ''زندگی''ہے۔
پڑھنے میں یہ حرف بہت عام سا ہے ،لیکن اس کی معنویت پورے زمانے پر پھیلی ہوئی ہے۔بقول شاعر''سمٹے تودلِ عاشق،پھیلے تو زمانہ''۔یہ لفظ اپنی معنویت میں جامع اور وسیع پھیلاؤ کاحامل لفظ ہے۔ہر شخص کے ذہن میں اس کی مختلف تعریف ہے۔لفظوں کی معنویت کاتعلق تجربات سے بھی ہوتاہے۔جن کے ہاں زندگی خوش نمائی کا ایک حسین باب رہی ہو،وہ اس لفظ کو رومانوی لحاظ سے متصور کریں گے اورجنہوں نے زندگی کے نام پر بے تحاشا اذیتیں برداشت کی ہوں،ان کے لیے یہ لفظ ایک بوجھل احساس کی طرح ہوگا۔
حروفِ تہجی میں یہ لفظ صرف ''زندگی''تک محدودنہیں ہے،بلکہ یہ حیات،جاوید،زندہ اوردیگر معنوں میں ڈھلتاہوا زندگی کے معنی کوکھول کرسمجھاتاہے۔عمومی طورپر زندگی کے تجربات سے لوگ اس کے معنی کشیدکرتے ہیں۔کسی کے لیے زندگی چاروں موسموں کا مجموعہ ہوسکتی ہے،تو کسی کے لیے چاندنی رات کی ٹھنڈک میں کافی کاکپ تھامے ہوئے کوئی حسین چہرہ،جسے دیکھ کر بھرپور زندگی کااحساس بیدار ہوتاہے۔کوئی اس لفظ کو دھوپ میں گھنے سایے سے تشبیہہ دیتاہے اورکسی کے لیے یہ زندگی کالفظ کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔
کیفیات اورمحسوسات کے ردوبدل سے اس زندگی کے معنی تبدیل ہوتے ہیں۔اس لیے حرفِ زندگی کی کوئی حتمی تعریف ممکن نہیںہے،مگر دنیا کی معروف شخصیات نے اسے اپنے رُخ سے دیکھ اورسمجھ کر اس کے بارے میں اظہارِخیال کیاہے۔کبھی کبھی ہمارے حالات بھی زندگی کی مقررکردہ تعریف بن جاتے ہیں۔ان دنوں کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔ہمارے شہروں میں بم دھماکے ہو رہے ہیں۔عوام ڈرون حملوں میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔سرکاری محکموں میں مالی کرپشن اورمعاشرتی سطح پر اخلاقی کرپشن اپنی انتہائی حدوں کوچھو رہی ہے۔اس منظر نامے پر تہذیبی مزاج کے لوگ صرف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ روز اخبارات کے پہلے صفحات پر ایک تصویرشایع ہوئی ۔مجھے اس تصویر نے بہت دنوں تک اذیت میں مبتلا رکھا۔ایک شخص آگ کے شعلوں میں گھرا ہواہے۔اپنی جان کو راکھ میں بدلنے کی کوشش کررہاہے۔اس کوشش کوناکام بنانے کے لیے،کچھ لوگ متاثرہ شخص کوبچانے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ کیابے بسی ہے۔اس شخص کے اندر کتنی آگ ہوگی،جس نے اس کے باہر کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اورکچھ بعید نہیں ،اگر معاشرے کے ان تکلیف دہ مسائل کا تدارک نہ کیاگیا،تویہ آگ پھیل کر ہم سب کواپنی لپیٹ میں لے گی۔خام خیالی ہے ان ذمے داروں کی،جن کواقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر یہ لگتاہے کہ وہ اس آگ سے محفوظ رہیںگے۔آگ کرسی کوشناخت نہیں کرسکتی،وہ صرف راکھ کرنا جانتی ہے۔
دنیا میں کچھ لوگوں نے حرفِ زندگی کو محسوس کرکے اپنے احساس کوقلم بند کیا۔فرانسیسی جنرل نپولین بوناپارٹ نے کہاتھا''ایک تصویر ہزار لفظوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔''مگر شاید اس تصویر کے لیے ہزار الفاظ بھی تھوڑے ہیں۔ہمارے معاشرے میں اب جیسے حالات ہوگئے ہیں،اس میں حروف نے خاموشی اختیار کرلی ہے،مگر تصویریں گفتگو کرنے لگی ہیں۔یہ اذیت کاعجیب رُخ ہے،اس میں درد محسوس توہوتاہے مگر یہ کسی کودکھائی نہیں دیتا۔اگردکھائی دیا ہوتا توحاکمِ وقت کوئی حیلہ کرتے،لیکن اب کے بار بھی سارے موسم وعدوں تک محدود ہیں۔
آئے دن اخبارات میں خودکشی کی خبریں شایع ہوتی ہیں۔ان خودکشیوں کی کیا وجوہات ہیں؟یہی آگ ہے،جن کے شعلوں میں یہ انسان اندر سے گھرے ہوتے ہیں اورجب یہ آگ زور پکڑتی ہے توباہر سے جلاکر راکھ کردیتی ہے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے؟شاید اب ہمارے ہاں یہی زندگی ہے۔اردو ادب کے بہت مقبول ادیب ممتاز مفتی کاکہنا تھا''سُکھ بھی دُکھ کے بعد ہی اچھا لگتاہے،اگر صرف سُکھ ہی سُکھ ہوگا تو اپنی کشش کھودے گا''مگر عہد ِحاضر کی یہ کیسی زندگی ہے،جو دُکھوں سے بھری ہوئی ہے اورعوام کوسُکھ کاسانس لینے کاموقع ہی نہیں مل رہا۔ جینا اتنا آسان نہیں رہا،جتنی سہولت سے اب موت دستیاب ہے۔
مگر پھر بھی زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے۔وقت اورزندگی کسی کے لیے رُکا نہیں کرتے،البتہ حروف تاریخ کی گواہی بنتے ہیں۔ان حروف کوجمع کرکے قلم بند کرنے والوں نے حرفِ زندگی کواپنے اپنے ڈھنگ سے بیان کیاہے۔برطانوی شہزادی''لیڈی ڈیانا''جس کے حسن کے چرچے ایک عرصے تک زبان زدِ عام رہے۔اس نے جب زندگی کوپرکھ لیا،تووہ اندر سے خالی ہوگئی۔زندگی کے سارے معنی اس کے لیے بے اثرہوگئے۔اسی لیے جب اس سے پوچھا گیاکہ آپ کی نظر میں لفظ''زندگی''کی کیااہمیت ہے،تواس نے کہا''زندگی صرف ایک سفر ہے۔''یہ کیساسفر ہے؟اس کاذکر اس نے نہیں کیا،مگر جس الم ناک موت سے حسن کی یہ شہزادی دوچار ہوئی،اس کو دیکھ کر اسی کاکہاہوا جملہ کروٹ بدلتاہے اورپھر اس کی معنویت ہمارے کانوں میں ''زندگی صرف ایک درد کاسفر ہے''بن کر گونجنے لگتی ہے۔
فرانس جیسا ملک،جہاں حسین نظاروں کو دیکھتے ہوئے پلکیں جھپکنابھول جائیں۔شہر پیرس کے وسط میںبہتے ہوئے دریائے سین کے کناروں پر سرمئی شامیں اورسنہری صبحیں اترتی ہوں۔وہاں ایک فرانسیسی مصنف''البرٹ کامیو''زندگی سے کلام کرنے کے بعد اپنے قلم سے ایک جملہ کنندہ کرتاہے''زندگی آنسوؤں میں رہنے کانام ہے۔''گوئٹے کے ملک جرمنی کا ایک مایہ ناز ادیب ''فرانز کافکا ''کی نظر میں زندگی کی معنویت کچھ یوں ہے ''یہ وہ شے ہے،جس کوایک دن رُکناہوتاہے اورآخر کار یہ رُک جاتی ہے۔''کاش کافکا بتاسکتاکہ زندگی خودبخود رُک جائے تواتنی تکلیف نہیں ہوتی ،مگر جب یہ بناقصور روکی جائے،تو بہت اذیت ہوتی ہے۔
بلوچستان کازلزلہ،پشاور کاسانحہ، کراچی میں مسلسل جاری ٹارگٹ کلنگ،امریکی ڈرون حملے،دشمنیاں اور جھگڑے، ہمارے ہاں زندگی کو بُری طرح روکاجا رہاہے۔معصوم جانوں سے کھیلنے والے یہ کیوں نہیں جانتے ،ایک دن انھیں بھی جان دینی ہے۔نہ جانے ان لوگوں کے سینے میں دل کیوں جامد ہے۔ان کے خون میں انسانیت کی گرمائش کیوں نہیں دہکتی۔ا ن کے اعصاب خوف خدا سے کیوں نہیں لرزتے۔ذمے داری کی ڈگڈی بجانے والوں کے منہ پر قدرت کوئی طمانچہ کیوں رسیدنہیں کرتی۔شاید دیر ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔
برطانوی مصنفہ''ورجیناوولف''لکھتی ہے۔''زندگی کونظرانداز کرکے امن حاصل نہیں ہوسکتا۔''نہ جانے یہ کون لوگ ہیں،جن کو یقین ہے کہ اتنی زندگیوں کونظر انداز کرکے وہ اپنی زندگی ٹھیک سے جی لیں گے۔ایساکیسے ممکن ہے۔یہی حرفِ زندگی جب اپنے معنی تبدیل کرتا ہے،توکوئی سوچ بھی نہیں سکتا،حالات کیسے مخالف سمت اختیار کرلیتے ہیں۔اسی لیے جاپانی ناول نگار''ہاروکی موراکامی''نے زندگی کے بارے میں مشاہدہ کرتے ہوئے لکھا۔''موت زندگی کا دوسرا رُخ تونہیں ہے،البتہ اس کا ایک حصہ ہے۔''یعنی زندگی اپنے اندر کئی پہلو رکھتی ہے۔یہ متحرک ہے،اسی لیے زندگی کہلاتی ہے۔
روسی ادیب''لیوٹالسٹائی''جس نے دوسری جنگ عظیم میںحصہ لیا اور قتل وغارت کا مشاہدہ بھی کیا تھا۔اس نے اپنے اسی تجرنے سے ''واراینڈ پیس''جیسا لازوال ناول لکھا۔وہ کہتا تھا''ہرکوئی سوچتا ہے،وہ دنیا کو بدلے گا،مگر کوئی خود کو بدلنے کا نہیں سوچتا۔''ہمارے ہاں یہ سوچ کیوں نہیں پنپتی۔ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے۔ہمارے ہاں کوئی ایسا ناول لکھنے والا کیوں نہیں ہے؟جو فکشن کے رنگوں میں حقیقت کی آمیزش کرے۔
وہ دورکب آئے گا،جب ہمارے ہاں زندگی انسانیت کی علامت میں ڈھل جائے گی۔ہم لوگ مدرٹریسا،نیلسن منڈیلا اورعبدالستار ایدھی کی طرز پر سوچنے لگیں گے۔ہاتھ سے جاتی ہوئی تہذیب کو محفوظ کرنے کاکوئی چارہ کریں گے۔ہم پر زندگی کب موسم بہار بن کراترے گی۔ہم کب سنہری صبحیں اورسرمئی شاموں کودیکھ پائیں گے۔
ہمارے شہروں سے کب بموں کا دھواں چھٹے گا۔کب ہمیں اچھی کتابیں دیکھ کر خوشی ہوا کرے گی اورکب ہم مادی اشیا پر بحث کرنا چھوڑ دیں گے۔یہ لفظ ''زندگی''ہمارے لیے تو صرف سوالوں اورفریادوں کی بازگشت بن کے رہ گیا ہے۔ایسی بازگشت ،جس کی گونج ہماری روح کے کھنڈر میں بھٹکتی رہتی ہے،مگر اب ایسا لگتا ہے،کوئی سننے والا نہیں ہے۔زندگی بہت سارے جوابات سے محروم سوالوں کا نام بھی ہے۔
ہم جب مغرب کے ادب کو پڑھتے ہیں،تو ان کے ہاں حروف دوسرے معنوں میں سانس لیتے ہیں۔ڈرون حملے کرنے والوں کے ملک میں بھی ''جم بُچر''جیساقلم کار ہے۔جس کو انسانیت سے لگاؤ ہے۔وہ بھی زندگی کوایک سفر سمجھتاہے۔اس مسافت میں وقت کودریا لکھتاہے اورکہیں کہیں زندگی اس کے لیے نیم وا دروازہ ہے۔ہم پاکستانی امن کے متلاشی اس نیم وا دروازے کے اُدھر کی زندگی کودیکھنے کی چاہ میں جیے جا رہے ہیں۔ہماری زندگی درد کے دریا میں بہتی جارہی ہے اورہماری آنکھیں زندگی کے نیم وا دروازے پر جمی ہوئی ہیں،شاید اس نیم وا دروازے کے اُدھر زندگی کوئی امید افزا سحر،کوئی امن کاآفتاب لیے طلوع ہو اورہم تہذیبی اندھے پن سے بچ جائیں۔