مسجد دائی لاڈو
لاہور شہر میں واقع چار سو برس پرانی مسجد اور اس کے گردونواح کے گلی کوچوں کے نقش اُبھارتی ہوئی تحریر
مسجد دائی لاڈو۔ فوٹو: فائل
KARACHI:
لاہور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو میو اسپتال کے نام سے واقفیت نہ رکھتا ہو۔ اِسی اسپتال کی مشرقی سیدھ کی دیواروں کے ساتھ گُزرتی سڑک رتن چند روڈ کے نام سے معروف ہے۔ روز اس سڑک سے لاکھوں بندوں کا گُزر ہوتا ہے اور جو بھی اس سڑک سے گُزرا اُس نے ایک بار ضرور رک کر ایک عظیم الشان گنبد والی مسجد کو دیکھا ہے۔ اس مسجد کی مغربی بیرونی دیواریں رتن چند روڈ سے مُتصّل ہیں اور اس کا داخلی دروازہ چیمبر لین روڈ پر واقع ہے۔ یہ مسجد آج سے قریباً چار سو برس قبل تعمیر کی گئی تھی۔
''مسجد دائی لاڈو'' کے نام سے جانی جانے والی اس مسجد کی بانیہ مُغل عہد میں شاہی خاندان کی ایک قابلِ احترام دایہ تھیں۔ تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ لاڈو نامی دایہ مغل عہد کی ایک معزز خاتون تھیں۔ لیکن عہداکبری اور عہدِ جہانگیری کے تنازعے میں مؤرخین دو الگ الگ گروہوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ وہ عہد اکبری کی خاتون تھیں اور شہزادہ سلیم کو دودھ پلانے والی دایہ تھیں۔ اس گروہ میں کنہیا لال ہندی جیسے جیّد اور کہنہ مشق مؤرخ بھی شامل ہیں۔ دوسرے گروہ کا یہ کہنا ہے کہ وہ عہدِ جہانگیری کی ایک دایہ تھیں اور بادشاہ شاہ جہاں بھی ان ہی کے ہاتھوں تولّد ہوئے۔ اس رائے سے اتفاق کرنے والے مؤرخین میں سیّد نُور احمد چشتی اور سیّد لطیف جیسے نامور مؤرخ بھی ملتے ہیں۔ راقم بذات خود بھی مؤخرالذکر رائے کو زیادہ مُستند سمجھتا ہے۔
لاڈو نامی اس دایہ سے متعلق دِیگر معلومات کُچھ یوں ہیں کہ اُن کے شوہر کا نام محمد اسمٰعیل تھا اور اُن کے بیٹے کانام محمد شکور تھا 'جو اس مسجد کے پہلے نگران مُقرر کیے گئے تھے۔ جس مقام پر یہ مسجد واقع ہے، مغل دورِ حکومت میں اس جگہ کو ''محلہ ٹِلا'' کے نام سے پُکارا جاتا تھا۔ اس خوبصورت مسجد کی تعمیر کے بعد اس مسجد میں اپنے عہد کے نامور علماء کرام نے درس دیا اسی تناظر میں مولوی عصمت کانام آج بھی زندہ و جاویداں ہے۔
اور نگ زیب عالمگیر کے وقت تک، یہ مسجد اپنے جاہ و جلال کے ساتھ قائم و دائم رہی۔ عالمگیری دور کے بعد مُغل سرکار زوال پذیری کی جانب مائل تھی۔ اس زوال پذیری کے سبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسجد کا احترام بھی قدر کھوتا گیا۔ یہاں تک کہ خالصہ عہد میں ایک ہندو سنیاسی جوگی،جس کا نام سنت گرا تھا' اس مسجد پر قابض ہو گیا۔ اُس کے قبضے کا عرصہ کئی برسوں پر محیط رہا یہاں تک کہ خالصہ عہد کے بعد انگریز سرکار کا راج آگیا۔ اس دور میں سائیں مہر نامی شخص نے کُچھ دوسرے نوجوان مسلمانوں کوساتھ ملا کر مسجد کو ہندو جوگی کے تسلط سے آزاد کرایا۔ پھر سائیں مہر کی ہی کوششوں کے سبب مسجد میں نماز کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہوا۔ مسجد کی عمارت کے بارے میں کنہیا لال ہندی اپنی کتاب تاریخ لاہور میں لکھتا ہے:
''یہ مسجد پختہ چونے کی عمارت نہایت مضبوط بنی ہوئی ہے۔ تین محرابیں اور ایک گنبد عالی شان ۔ سقف قالبوتی ہے صحنِ مسجد میں پختہ فرش ہے اور پختہ حوض ہے مگر حوض اب بند ہے اور صحن کے شرق کی سمت قبر پختہ دائی لاڈو کی بنی ہوئی ہے۔ بیرونی چار دیواری پختہ مہر شاہ فقیر نے بنوائی ہے۔ پہلی عمارت سوائے مسجد کے باقی نہیں رہی۔ چھوٹا چاہ جو اب مسجد کے جنوب کی سمت کو ہے، ہندو فقیر نے کھدوایا تھا۔ پہلا چاہ و عمارت متعلقہ مسجد سب کنہیا مل کمپو والا نے، جس کا باغ شمال کی طرف ہے سب گرادی تھی اور قدیمی چاہ کی اینٹیں نکلوا لی تھیں۔ اب اس کا نشان بھی باقی نہیں ہے۔''
دایہ لاڈو کا انتقال 1069ھ بمطابق 1659ء میں ہوا۔ اس تاریخ کی شہادت کنہیا لال ہندی کے مسجد پر تحریر کردہ مضمون کے ہاشیئے سے بھی ملتی ہے۔ دایہ لاڈو کی وفات کے بعد اُنہیں اِسی مسجد کے صحن میں دفن کر دیا گیا تھا۔ عہد حاضر میں مسجد کے قریب ہی رتن چند روڈ پر واقع لیڈی ایچیسن اسپتال کی مشرقی سیدھ میں ایک قبر پر ''دائی لاڈو کی قبر'' کے نام کی تختی مُزین ہے۔ لیکن تاریخی حقائق اور مُستند کتب میں درج حوالہ جات کے مطابق مسجدکے صحن میں ہی دایہ لاڈو اور سائیں مہر شاہ کی قبور تھیں جن کو مسجد کی از سرِ نو تعمیر کے دوران صحن کے فرش کے ساتھ برابر کر دیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ لیڈی ایچسن اسپتال میں موجود وہ قبر بھی کسی قابلِ عزت شخصیت کی ہو لیکن وہ دایہ لاڈو کی قبر نہیں ہے۔
موجودہ دور میں جب ہم مال روڈ، جی۔پی۔ او کے سامنے بائیں جانب کو سڑک پر آتے ہیں تو یہ سڑک آغا شورش کاشمیری کے نام سے منسوب ملتی ہے۔ اسی سڑک سے آگے بڑھتے ہوئے دائیں جانب ٹیلی فون ایکسچینج کی پُرانی عمارت واقع ہے اور کچھ آگے بائیں جانب لڑکیوں کا ایک مشہور اسکول سیکرڈ ہارٹ کے نام سے ملتا ہے۔ اس اسکول کی انتظامیہ میں زیادہ تر افراد عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں' جن میں '' ننز'' (راہبائیں) بھی شامل ہیں۔
اس اسکول سے آگے چوک میں بائیں جانب گارڈی ٹرسٹ کی پُرانی عمارت موجود ہے اسی سڑک پر آگے بائیں جانب سڑک کے ساتھ ساتھ کئی ٹھیلوں پر برقی آلات رکھے کباڑئیے دکھائی دیتے ہیں ان سے کچھ آگے چوک میں مسجد اپنے عظیم الشان گنبد کے ساتھ واقع ہے۔ مسجد کے داخلی دروازے کی جانب سڑک چیمبر لین روڈ ہے جبکہ پچھلی اور مغربی سیدھ کی سڑک رتن چند روڈ کہلاتی ہے۔ مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے بائیں جانب سے مشرقی سیدھ میں ایک سڑک ناز سینماکو جاتی ہے۔ اس سینما کی ٹکٹ گھر کی اصل عمارت ایک پرانے مندر کی عمارت ہے۔ یہ سڑک مشن روڈ کے نام سے معروف ہے۔
مسجد کی عمارت کے ساتھ واقع چوک میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہوسٹل کا سوئمنگ پول ہے۔ رتن چند روڈ پر میو اسپتال کی عمارت آگے ''وانساںوالا بازار''تک جاتی ہے۔ مسجد کی مغربی سیدھ میں میواسپتال کا ''ڈیپارٹمنٹ آف یورالوجی'' ہے۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میںواقع محلّے اور آبادی احاطہ کشن کشور کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ تقسیم کے وقت ان محلّوں میں دو اشخاص کی بہت سی جائداد ملتی تھی جس میں مہدی حسن نامی ایک شخص بھی تھے جو کہ اس وقت اسٹیٹ بینک کے آفیسر تھے اور دوسرے شخص کرنل ضیاء نامی تھے۔ مسجد کے عین سامنے اب کیمروں اور برقی آلات کی بہت سی دُکانیں موجود ہیں۔
تقسیم کے وقت نسبت روڈ سے سوئمنگ پول تک یہاں پر کوئی دکان نہ تھی بلکہ تین بڑی کوٹھیاں تھیں۔ ان میں ایک کوٹھی خواجہ عبدالرحمن غازی نامی ایک شخص کی تھی جو کہ تقسیم سے قبل کانگریس کے ایک انتہائی سرگرم کارکن تھے اور ان کے پنڈت جواہرلال نہرو سے ذاتی مراسم بھی تھے۔ ان کی کوٹھی سے اگلی کوٹھی بائو انیس کی تھی جو فرنیچر کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ ان کی کوٹھی سے اگلی کوٹھی شیخ فریدالدین اور شیخ غلام قادر کی تھی۔مسجد کے عین نیچے کیمرے مرمت کرنے والے دکاندار محمد عرفان خان اور حاجی پرویز بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بھائی حاجی برکت کے ساتھ مل کر ایوب دور میں اس دکان پر راشن ڈپو چلایا کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ مسجد کی پچھلی سیدھ میں ہمیں آج بہت ساری دوائیوں کی دُکانیں ملتی ہیں اور سامنے کی سیدھ میںبہت ساری کیمروں اور برقی آلات کی دُکانیں دیکھی جاتی ہیں۔ تقسیم کے وقت یہاں پر زیادہ تر دُکانیں حکیموں کی تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ سائیکلوں کی ایک دکان تھی اس کے ساتھ آگے ایک قصاب کی اور اس کے ساتھ مہریں بنانے والی ایک دکان تھی۔ ان کے ساتھ ہی اس وقت مشہور دندان ساز ڈاکٹر ملک محمد حسن کی دکان تھی۔ ان سے کچھ آگے میاں ٹیلرز کی دکان تھی۔ اس درزی کے پاس اپنے وقت کے مشہور فلمسٹار اور سیاسی لیڈر کپڑے سلواتے تھے۔ اس وقت ان تمام دکانوں کے لیے لفظ ''ہٹی'' استعمال کیا جاتا تھا کہ فلاں کی ہٹی۔
میو اسپتال کی جنوب مشرقی سیدھ میں دوائیوں کے دو بڑے اسٹور ہوا کرتے تھے ، ان دونوں دکانوں کے ساتھ اس وقت کے مشہور ایم بی بی ایس ڈاکٹر، ڈاکٹر یحییٰ کا کلینک بھی ہوا کرتا تھا۔ رتن چند روڈ پر ہی اس جگہ سے کچھ آگے بھارت بلڈنگ ہوا کرتی تھی جس میں واپڈا کا ایک قدیم دفتر بھی تھا۔ اس دفتر کی تعمیر میں زیادہ تر لکڑی کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ٹائمز اور امروز کے دفاتر بھی تھے۔ آج کل یہ عمارت محض سرکاری کاغذوں کا گودام بن کر رہ گئی ہے۔ اس سے آگے ایک اور مشہور عمارت ''آزاد پاکستان بلڈنگ '' کے نام سے جانی جاتی تھی۔ اس کے قریب ہی پہلوانی کا ایک مشہور اکھاڑہ ''کا کا خلیفہ کا اکھاڑہ''ہوا کرتا تھا اسی اکھاڑے میں پاک وہند کے عظیم پہلوان، یونس پہلوان اور چھما پہلوان کسرت کیا کرتے تھے۔
کاکا خلیفہ عہد حاضر کی مشہور سماجی شخصیت بئی پہلوان کے والد بھی تھے۔ اسی اکھاڑے کے مشرقی محلہ میں مشہور نغمہ نگار خواجہ پرویز کا آبائی گھر بھی تھا۔ ان کے گھر کے قریب ہی گوالمنڈی کی پرانی سبزی منڈی ہوا کرتی تھی۔ جس میں مشہور زمانہ ادیب اور مُفکر مُستنصر حُسین تارڑ کے والد کی دکان ہوا کرتی تھی۔ یہ دکان ''کسان بیج والے'' کے نام سے معروف تھی۔ اس منڈی سے کچھ آگے تقسیم کے بعد تھڑوں پر بیٹھنے والے دو مشہور زمانہ بدمعاشوں فخر اور فوجی کے گھر ہوا کرتے تھے۔
نسبت روڈ کے آغاز پر ہی ''چھبو پہلوان پاناں والا'' کی دکان ہے۔ یہ پہلوان اپنے بچپن سے عظیم درویش شاعر ساغر صدیقی کا بہت بڑا مداح تھا۔ آج بھی اس دکان پر ساغر صدیقی کی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان سے آگے حکیم اشفاق احمد خان دہلوی کا مطب تھا ۔ حکیم صاحب اپنے وقت کے دہلی کے مشہور مسلم لیگی کارکن تھے۔ اس سے آگے چوک میں ایک پانی کی ہودی ہواکرتی تھی جس سے تانگے والے اپنے گھوڑوں کوپانی پلاتے تھے آج کل یہاں پرایک پلازہ دیکھنے کو ملتا ہے، جس میں سی ڈیز کی دکانیں ہیں۔
قدیم لاہور کے باسی ہمیشہ سے اپنی زندہ دلی' تحمل اور بردباری کے لئے ممتاز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب دسویں محرم کو ذوالجناح کا جلوس کلسی ہائوس سے نکلتا تھا تو اس جلوس کی زیارت کے لیے شہر لاہور کی زیادہ تر وہ آبادی آتی تھی جو کہ اہلِ تشیع نہ تھی۔ یہ جلوس ''مہدی حسن کا گھوڑا'' کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس سے کچھ آگے اپنے وقت کی ایک مشہور دکان ''شیخ ریوڑیاں والے'' ہواکرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس دکان نے اہل لاہور کو چینی سے بنی ریوڑیوں کا مزا دیا وگرنہ پہلے یہاں زیادہ تر گڑ اور شکر سے بنی ہوئی ریوڑیاں ملتی تھیں۔ پرویز صاحب نے بتایا کہ اس وقت زیادہ تر لوگ پتنگ بازی، کبوتر بازی، پہلوانی کرنا اور تھڑوں پر بیٹھ کر باراںٹینی اور تاش کھیل کر فرصت کے اوقات گزارتے تھے۔
مسجد کی مشرقی سیدھ میں آج بھی کچھ مکانات میںلوگ رہائش پذیر ہیں۔ ان گھروں میںسے بیشتر گھروں کے اندر تہہ خانے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان مکانات میں لنڈے بازار ' گودام بن چکے ہیں اور عہد حاضر میںزیادہ تر رہائشی گھر ختم ہو کر اسی مال کے گودام اور دکانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مسجد کی جنوب مغربی سیدھ میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے سامنے ''مندر پوروِیاں'' ہوا کرتا تھا۔ گوالمنڈی، نسبت روڈ شہر لاہور کے سیاسی اکھاڑے کا اہم حصہ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاجی برکت کے راشن ڈپو پرا میر محمد خان (گورنر مغربی پاکستان) غلام مصطفی کھر، جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف بھی آتے رہے۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ایوب خان کے دور میں وہ چینی چودہ آنے سیر، چونتیس روپے من چاول اور سولہ روپے سینتیس پیسے من آٹا فروخت کرتے تھے۔
مسجد کے ساتھ جُڑی ان معاشرتی اور سیاسی معلومات کے بعد ہم ایک بار پھر مسجد ہی کی جانب آتے ہیں۔ مسجد کے کھلے اور کچے فرش کو سنگِ مر مر سے نیا کر دیا گیا ہے۔ اس کے اوپر مسجد کی دوسری منزل بھی تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے قدیمی ہال میں کئی دیواروں اور فرش پر کبھی قدیم نقش و نگار ہوا کرتے تھے انکا اب کوئی وجود باقی نہیں ۔ مسجد کے عظیم الشان گنبد اور اس کے قدیمی نام کے علاوہ مسجد کی کوئی بھی پرانی چیز دیکھنے کو نہیںملتی۔ یوں کہنا چاہیے کہ مسجد کا بیرونی حصہ تو نہیں بدلا لیکن اندرونی حصے کو مکمل طور پر بدل دیا گیا ہے اور اس بات کا بالکل دھیان نہیں کیا گیا کہ قدیم طرز تعمیر اور ہنر کے اظہار کو محفوظ کر لیا جائے۔
حالانکہ یورپ میں 2 ہزار برس پرانی عمارتیں بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہیں۔اس مسجد میں امامت کے حوالے سے بھی ایک اہم بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ پچھلی تین دہائیوں میںلاہور کی مساجد میں زیادہ تر امام صاحبان لاہور سے باہر کے علاقوں سے تشریف لائے۔ لیکن اس وقت مسجد کے قائم امام مولانا شکیل احمد خالصتاً لاہوری ہیں۔ ان سے پہلے ان کے والد مولانا حسین احمد اور دادا مولانا جمیل احمد اور حافظ مختار مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ان سب کا تعلق لاہور کی پرانی اور قدیمی آبادی سے تھا۔ ان کے علاوہ اپنے وقت کے شعلہ بیان مقرر و خطیب ''مولانا ترنم'' بھی جمعہ کا خطبہ اور نماز کی امامت کراتے رہے ہیں۔
دایہ لاڈو کی یہ قدیم مسجد اپنی قدامت اور خوبصورتی کے باعث ایک قومی ورثہ ہے اور مغل عہد کی اس یادگار کی حفاظت کا فرض حکومت کے ساتھ ساتھ عوام الناس پر بھی عائد ہوتا ہے۔