پاکستان کا بھارت کیساتھ ’’بیک چینل‘‘ مذاکرات سے انکار
بڑی طاقتیں اور اسلامی ممالک کشیدگی کم کرانے کیلیے سرگرم
پاکستان نے بڑی طاقتوں اوربعض اسلامی ممالک کے اصرار کے باوجود بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کیلیے ''بیک چینل'' مذاکرات شروع کرنے سے انکارکردیا ہے ۔
ان ممالک نے وزیراعظم عمران خان پرزور دیا ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے بارے میں اپنا لہجہ نرم کریں اور انہیں اپنی تقریروں میں ایڈولف ہٹلر قرار دینے سے گریز کریں تاہم پاکستان نے ان کی یہ درخواستیں مسترد کردی ہیں اور کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ خاموش یا روایتی سفارتکاری کے تحت اسی صورت میں مذاکرات ہوسکتے ہیں جب وہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیواور دیگر پابندیوں کوختم اورمقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔
سعودی عرب کے نائب وزیرخارجہ اور متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ 3 ستمبر کواپنی قیادت اور بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا پیغام لیکر ہی آئے تھے۔اس دورے میں سعودی نائب وزیرخارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارت کے وزیرخارجہ عبداللہ بن النہیان نے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ملاقاتیں کی تھیں ۔
وہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملے تھے۔یہ ملاقاتیں اتنی خفیہ تھیں کہ وزارت خارجہ کے صرف سینئر حکام کو ہی ان میں بیٹھنے کی اجازت تھی۔ایک اعلیٰ افسر کے بقول سعودی اور اماراتی ایلچیوں نے کشمیر پر کشیدگی ختم کرانے کی بھی پیشکش کی تھی۔ وہ دونوں ملکوں کو بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہتے تھے۔وہ مقبوضہ کشمیرمیں پابندیاں ختم کرانے کیلیے بھارت کو اس بات پر آمادہ کرنے کو بھی تیار تھے اور ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی قیادت سے درخواست کی تھی کہ بھارتی وزیراعظم کے بارے میں لب ولہجے میں نرمی لائی جائے۔ 5 اگست کے بعد سے وزیراعظم عمران خان مودی کے بارے میں باربار سخت الفاظ استعمال کررہے ہیں۔
وہ ان کے آرایس ایس کے ساتھ رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں نازی جرمنی کے لیڈرایڈولف ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں بھی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ان پر کیے جانے والے سخت حملوں کی شکایت کرچکے ہیں۔
گو ان کوششوں سے پاکستان اوربھارت میں کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے میں تو مدد ملی ہے جس کا اظہارحال ہی میں صدر ٹرمپ بھی کرچکے ہیں لیکن پاکستان بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات شروع کرنے پر تیار نہیں ۔پلوامہ حملہ جس کے بعد دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، پاکستان نے بعض بڑی طاقتوں کے ذریعے کشیدگی کو روکنے کیلیے بھارت سے بیک چینل رابطے کیے تھے تاہم اس بار پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ تیسرے فریق کی مداخلت اور گارنٹی کے بغیر بھارت سے کوئی بات چیت نہیں کریگا۔گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی سے انکار کیا تھا۔پاکستان نے عالمی سطح پر کشمیرکے بارے میں ملنے والی سفارتی کامیابیوں کے بعد بھارت کے بارے میں اپنا موقف مزید سخت کرلیا ہے اور وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس تک اس کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ وہ 27 سمتبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران بھارتی پالیسیوں کو ننگا کریں گے ۔ اس سب کچھ کے باوجود عالمی طاقتوں نے ابھی تک پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کیلیے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔
وزیراعظم عمران خان کے 19 ستمبر کو دورہ سعودی عرب کے دوران بھی کشمیرکا معاملہ بات چیت میں سرفہرست ہوگا۔ 5اگست کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اوروزیراعظم عمران خان کے درمیان 4 بار ٹیلی فون رابطہ ہوچکا ہے ۔سعودی ولی عہد کے وزیراعظم عمران خان اورمودی دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم کرانے کیلیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرینگے ۔
ان ممالک نے وزیراعظم عمران خان پرزور دیا ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے بارے میں اپنا لہجہ نرم کریں اور انہیں اپنی تقریروں میں ایڈولف ہٹلر قرار دینے سے گریز کریں تاہم پاکستان نے ان کی یہ درخواستیں مسترد کردی ہیں اور کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ خاموش یا روایتی سفارتکاری کے تحت اسی صورت میں مذاکرات ہوسکتے ہیں جب وہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیواور دیگر پابندیوں کوختم اورمقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو بحال کرے۔
سعودی عرب کے نائب وزیرخارجہ اور متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ 3 ستمبر کواپنی قیادت اور بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا پیغام لیکر ہی آئے تھے۔اس دورے میں سعودی نائب وزیرخارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارت کے وزیرخارجہ عبداللہ بن النہیان نے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ملاقاتیں کی تھیں ۔
وہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام سے بھی ملے تھے۔یہ ملاقاتیں اتنی خفیہ تھیں کہ وزارت خارجہ کے صرف سینئر حکام کو ہی ان میں بیٹھنے کی اجازت تھی۔ایک اعلیٰ افسر کے بقول سعودی اور اماراتی ایلچیوں نے کشمیر پر کشیدگی ختم کرانے کی بھی پیشکش کی تھی۔ وہ دونوں ملکوں کو بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہتے تھے۔وہ مقبوضہ کشمیرمیں پابندیاں ختم کرانے کیلیے بھارت کو اس بات پر آمادہ کرنے کو بھی تیار تھے اور ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی قیادت سے درخواست کی تھی کہ بھارتی وزیراعظم کے بارے میں لب ولہجے میں نرمی لائی جائے۔ 5 اگست کے بعد سے وزیراعظم عمران خان مودی کے بارے میں باربار سخت الفاظ استعمال کررہے ہیں۔
وہ ان کے آرایس ایس کے ساتھ رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے انہیں نازی جرمنی کے لیڈرایڈولف ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں بھی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ان پر کیے جانے والے سخت حملوں کی شکایت کرچکے ہیں۔
گو ان کوششوں سے پاکستان اوربھارت میں کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے میں تو مدد ملی ہے جس کا اظہارحال ہی میں صدر ٹرمپ بھی کرچکے ہیں لیکن پاکستان بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات شروع کرنے پر تیار نہیں ۔پلوامہ حملہ جس کے بعد دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے، پاکستان نے بعض بڑی طاقتوں کے ذریعے کشیدگی کو روکنے کیلیے بھارت سے بیک چینل رابطے کیے تھے تاہم اس بار پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ تیسرے فریق کی مداخلت اور گارنٹی کے بغیر بھارت سے کوئی بات چیت نہیں کریگا۔گزشتہ ہفتے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی سے انکار کیا تھا۔پاکستان نے عالمی سطح پر کشمیرکے بارے میں ملنے والی سفارتی کامیابیوں کے بعد بھارت کے بارے میں اپنا موقف مزید سخت کرلیا ہے اور وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس تک اس کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ وہ 27 سمتبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران بھارتی پالیسیوں کو ننگا کریں گے ۔ اس سب کچھ کے باوجود عالمی طاقتوں نے ابھی تک پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے کیلیے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔
وزیراعظم عمران خان کے 19 ستمبر کو دورہ سعودی عرب کے دوران بھی کشمیرکا معاملہ بات چیت میں سرفہرست ہوگا۔ 5اگست کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اوروزیراعظم عمران خان کے درمیان 4 بار ٹیلی فون رابطہ ہوچکا ہے ۔سعودی ولی عہد کے وزیراعظم عمران خان اورمودی دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم کرانے کیلیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرینگے ۔