ویسا بنیں جیسا آپ چاہتے ہیں
مستقل مزاجی اورمصمم ارادہ شخصیت کی تعمیر میں کلیدی کردار کے حامل ہیں
KABUL:
کاشف میٹرک میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہوا، انگریزی کے مضمون میں بورڈ ٹاپ کیا، وہ ایف اے اور بی اے کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر میں ایم اے کرنا چاہتا تھا مگر اس کے والد چاہتے تھے کہ وہ انجینئر بنے اس لئے انھوں نے کاشف کو مجبور کیا کہ وہ پری انجینئرنگ میں داخلہ لے اور اپنی طبیعت کے میلان کے خلاف تعلیم حاصل کرے۔
کاشف نے اپنے والد کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ والد صاحب نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ اس کے تعلیمی اخراجات ادا نہیں کریں گے۔ مجبوراً کاشف نے پری انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا مگر وہ نیم دلی اور بے رغبتی سے پڑھتا رہا ۔ اس کی عادات بھی خراب ہو گئیں،راتوں کو جاگنا اور دن چڑھے تک سوتے رہنا ، دل کیا تو کالج چلے جانا ورنہ گھر یا ہاسٹل میں ہی پڑے رہنا۔پڑھائی سے بیزاری اس کی عادتِ ثانیہ بن گئی۔
والد صاحب نے جب بھی تعلیم کے متعلق استفسار کیا تو کاشف انھیں جھوٹی تسلیاں دے دیتا۔ والد صاحب اپنی جگہ خوش تھے کہ ان کا ہونہار سپوت جلد ہی انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیمی مدارج طے کر رہا ہو گا،مگر دو سال بعد جب ایف ایس سی کا رزلٹ آئوٹ ہوا تو کاشف بمشکل سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو سکا ۔ والد صاحب کے غیض و غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔وہ بضد تھے کہ کاشف دوبارہ ایف ایس سی کے امتحانات دے اور ہر حال میں انجینئرنگ یونیورسٹی کا میرٹ حاصل کرے۔
کاشف نے اپنے چچا سے اپنے مسائل بیان کئے اورپھر چچا نے اپنے بھائی کو سمجھا یا کہ کاشف کی زندگی تم نے نہیں گزارنی اسلئے اس کو اس کے شوق اور میلان کے مطابق تعلیم حاصل کرنے دو۔ والد صاحب نے طوعاً و کرہاً اجازت دے دی۔کاشف نے بی اے میں داخلہ لیا اور اپنی پسند کے مضامین منتخب کئے مگر اب اس کی بری عادات اس کے آڑے آنے لگیں۔اسے صبح خیزی کی عادت نہ رہی تھی اور پڑھائی سے بے رغبتی اور کے حصولِ تعلیم میں رکاوٹ بن رہی تھی۔
مگر کاشف نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنی عادات کو بدلنے کا مصمم ارادہ کیا اور دلجمعی کے ساتھ اپنی روش بدلنے پر کمر بستہ ہو گیا ۔ عادات بدلنے میں اسے مشکل تو پیش آئی مگر اس کے ارادے کی پختگی نے اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ اس نے امتیازی نمبروں میں بی اے کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا ۔ آج کاشف یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور بہت اچھا لکھاری بھی۔ والد صاحب بھی اس کی کامیابی سے خوش ہیں اور کاشف بھی کامیاب و مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ کاشف کا کہنا ہے کہ اگر انسان خودکو بہتر بنانے کے عمل پر عزم اور پورے ارادے سے عمل پیرا ہو' مستقل مزاجی اور جم کر خود کو بدلنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔
دنیا کے ہر شخص کے پاس ذاتی اقدار کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اسی پیمانے کے ذریعے وہ اپنے اردگرد کی دنیا حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی دیکھتا ہے۔ اسی کو Self Image یا عکس ذات کہتے ہیں۔ یعنی وہ شخصی تصور جو خود آپ نے اپنے بارے میں قائم کیا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم سب نے اپنے ذہن میں خود اپنی ایک تصویر بنا رکھی ہوتی ہے۔ مطلب کہ ہم کیسے ہیں، ہماری خواہشات کیا ہیں ، ترجیحات کیا ہیں اور ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ اقدار ہماری ظاہری شکل وصورت نہیں ہوتی' بلکہ یہ وہ تصویر ہوتی ہے جو ہم اپنی صفات،خوبیوں ،خامیوں اور اپنے خیالات کی بنیاد پر بنائے ہوتے ہیں۔
اکثر و بیشتر یہ تصویر اس رویہ سے متاثر ہو کر ہم بناتے ہیں جو ہمارے ساتھ آس پاس کے لوگ روا رکھتے ہیں۔ اس کا آغاز اسی وقت سے ہو جاتاہے کہ جب ہم بچے ہوتے ہیں۔ یوں ہم اکثر دوسرے افراد کے اس ردعمل کو پیش نظر رکھ کر اپنی ایک ذاتی تصویر بناتے ہیں جس کا مظاہرہ ہمیں روزمرہ زندگی میں دیکھنا پڑتا ہے۔ اکثر دوسروں کا رویہ' ان کے تبصروں اور باتوں سے ظاہر ہوتا ہے جو وہ ہمارے بارے میں کرتے ہیں' خواہ یہ تبصرے اچھے ہوں یا برے۔
عکس ذات کو بہتر بنانے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے۔ ابتدا میں بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوری نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ صبر و استقلال کے ساتھ عمل کر سکتے ہوں تو پھر آپ کے لئے ہم نیچے چند مشورے لکھ رہے ہیں جو آپ کے عکس ذات کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں گے۔
سب سے پہلے آپ اپنی تمام اچھی باتیں اور صفات کسی کاغذ پر لکھ لیں اور اسے کسی ایسی جگہ رکھ دیں جہاں اکثر آپ کی اس پر نگاہ پڑتی رہے۔ اس طرح آپ کو یہ باتیں ذہن نشین ہو جائیں گی اور آپ ہر وقت ان کادھیان رکھیں گے یعنی آپ کی ذات میں موجود منفی پہلوئوں کو بتدریج کم کرنے کی سعی کریں گے اور ساتھ ساتھ ہی مثبت پہلوئوں کی آبیاری کریں گے۔ پہلے پہل آپ کودانستہ طور پر یہ مشق کرنا ہو گی مگر آہستہ آہستہ یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور پھر آپ غیر محسوس طور پر ان پر عمل پیرا رہیں گے۔
اس مقصد کی تکمیل کیلئے اپنی ذات کے متعلق زیادہ اچھی اور مصدقہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اپنے جسمانی اور ذہنی پہلوئوں کاجائزہ لیں۔ یعنی دیکھیں جسمانی طور پر آپ مضبوط ہیں یا کمزور؟ خوب صورت ہیں ، عام شکل و صورت کے مالک ہیں یا بدشکل؟ اسی طرح ذہنی خواص کا بھی جائزہ لیں، یعنی دیکھیں آپ تیز دماغ ہیں یا بدھو' آپ کو بات عام آدمیوں کے مقابلے میں دیر سے سمجھ میں تو نہیں آتی۔
انھیں سوچنے کے بجائے کاغذ پر لکھ کر معلوم کریں کیونکہ زبانی کہی ہوئی باتیں تو شاید آپ بھول بھی جائیں مگر جو باتیں لکھ لی جائیں ان کو بھولنے کے امکانات بھی انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ آپ کے اندر کتنی عادات ایسی ہیں جو آپ نے کسی اور کی نقل کر کے حاصل کی ہیں۔ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ یہ عادات کتنی اچھی ہیں؟ اس کے بعد خود سے طے کریں کہ آپ کس طرح کی شخصیت کے حامل فرد بننے کے خواہش مند ہیں۔
ایک بات یاد رہے کہ خود احتسابی کا عمل نہایت مشکل کام ہے۔ انسان فطری طور پر خود پسند ہوتا ہے۔ جب کسی دوسرے کی ذات کو تولتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کی خوبیاں بھی اس کو خامیاں محسوس ہوں مگر جب بات اپنی ذات کی ہو تو اپنی خامیاں بھی اسے اتنی بری نہیں محسوس ہوتیں۔ اس لئے جب اپنی شخصیت کا جائزہ لیں تو حقیقت پسندی سے جائزہ لیں' حقیقت پسند بنیں اور پھر حقیقت پسندی سے ہی اپنی خامیوں کو بتدریج کم اور پھر ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنی طبیعت کے خلاف کام کرنا اور پھر اس کو از سرِ نو ترتیب دینا آسان عمل نہیں ہوتا ۔ ایسے مقاصد اختیار نہ کریں جو آپ کی ذات کے بس سے باہر ہوں۔
پہلے اپنی منزل اور مقصد کا تعین کریں۔ایسا مقصد جس کو آپ واقعی کرنا چاہتے ہوں یا کر سکتے ہوں۔ جب مقصد متعین ہو جائے تو آہستہ آہستہ ان پر عمل شروع کر دیں۔ عکس ذات کی تعمیر ایک دم سے نہیں ہو جاتی' اس کے لئے وقت لگتا ہے۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ ایسے بچے جو بہت ابتداء سے شرمیلے' غیر مجلسی اور دبے دبے ہوتے ہیں وہ اگر اپنی کلاس میں مقبول بننا چاہتے ہوں تو یہ کام ان کے لئے آسان نہیں ہوتا ۔ ایک شرمیلا بچہ کلاس روم میں مشہور ہونا چا ہے تو وہ یہ کام ایک دن میں نہیں کر سکتا۔ مثلاً وہ کلاس کے ایک اچھے بچے کو اپنا دوست بنائے' اس کے بعد اس کی مدد سے ایک اور دوست بنائے' اس طرح اس کے تعلقات کا حلقہ بڑھتا جائے گا ۔
اگر وہ بچہ ایک ہی دن میں کلاس کے سب بچوںسے دوستی اور ہر دلعزیزی کا خواب دیکھ کر اس پر فوراً عمل پیرا ہو جائے تو اس کا نتیجہ یقینا منفی صورت میں برآمد ہو گا اور ناکامی کی صورت میں وہ مزید اکیلا،شرمیلا اور دبا ہوا بن جائے گا ۔ اس لئے خرگوش کی طرح بگٹٹ بھاگ کر جلد تھک کر سو جانے سے بہتر ہے کہ کچھوے کی طرح آہستہ آہستہ منزل اور مقصد کی تکمیل کی جانب رواں رہا جائے تاکہ ناکامی کا امکان کم سے کم ہو۔ یاد رہے کہ جلد بازی میں منزل پر کبھی نہ پہنچنے کی بجائے ذرا دیر سے پہنچنا بدرجہا بہتر ہے۔
کسی نئے سیلف امیج کی تعمیر کے لئے ایسے افعال اور اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اس نئی شخصیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ماضی اور حال کے اچھے لکھاریوں یا مصنفوںپر بحث کے دوران آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں تو اس کے لئے آپ کو ان مصنفوں کی بہت سی تصنیفات پڑھنا پڑیں گی اور ان کے مصنفوں کے نام بھی یاد رکھنے ہوں گے۔ خوش لباسی اچھی لگتی ہے تو اس کے لئے پیسہ بھی خرچنا پڑے گا یا کم از کم صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرنا ہو گا ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی گفتگو میں وزن پیدا ہو' تو علم کو بڑھانا ہو گا' کتابوں سے' مباحثوں سے' مشاہدات اور تجربات سے۔
جس طرح شخصیت کی تبدیلی کیلئے نئے اور مثبت اقدامات ضروری ہوتے ہیں' اسی طرح آپ کی ذات میں جو منفی پہلوہیں ان کا اخراج بھی ضروری ہے مگر اس مقصد کیلئے بھی آپ کو عمداً اور بھر پور کوشش کرنا ہو گی کیونکہ آپ کی ذات میں موجود برسوں سے پرانی عادات کوبدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ یہ عادات لاشعوری طور پر آپ کی ذات کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں اور ان سے چھٹکارا صرف سخت شعوری کوشش سے ہی ممکن ہے، مثلاً اگر بہت جھک کر چلنے یا بیٹھنے کی عادت ہے تو اسے شعوراً چھوڑنے کی کوشش کریں' سیدھا ہو کر چلیں' مناسب انداز سے بیٹھیں' کھانا کھانے میں آواز پیدا ہوتی ہے تو اسے ہر صورت دور کریں،اگر آپ پائوں گھسیٹ کر چلتے ہیں تو اس عادت پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں۔
اپنی ہی بات پر ہنسنا اور وہ بھی دوسروں سے پہلے تو اس جیسی عادت پر بھی قابو پا ئیں' لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں' بے جا قسمیں نہ کھائیں،اگر دو افراد گفتگو کر رہے ہوں اور آپ کو درمیان میں کودنے کی عادت ہے تو اس کو فوراً بدل ڈالیں کیونکہ یہ عادت لوگوں پر بہت برا اثر ڈالتی ہے،اس لئے ان افراد کی بات ختم ہونے کا انتظار کریں اور پھر اپنی بات کریں،اگر بات بہت ضروری ہے تو گفتگو کے درمیان ایک دم کودنے کے بجائے پہلے رخنہ اندازی کی معذرت کریں اور پھراپنی بات کہیں،اس طرح مخاطبین کو برا بھی نہیں لگے گا اور آپ مناسب انداز میںاپنا مطمع نظر بھی بیان کر سکیں گے۔
ہر رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعد خود ا پنے ہی تصور میں اپنی تبدیل شدہ شخصیت کا تصور ابھاریں' خود کو نئی شخصیت میں دیکھیں اور طے کریں کہ آج آپ اپنی شخصیت کو ویسا ہی دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ جو آپ نے طے کی ہے۔ شام کو اپنا محاسبہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ پورے دن میں خود میں کیا تبدیلی پیدا کر سکے ہیں۔ اگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی تو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خود کو اپنی پسندیدہ شخصیت میں ڈھالنا آسان کام نہیں اور نہ ہی یہ کام ایک رات میں ممکن ہے۔مسلسل اور پیہم کوشش کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔
آپ محنت کرتے رہیں، ایک دن آپ کی محنت رنگ لائے گے کیونکہ دنیا میںکوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو محنت اور لگن سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ اس مقصد کیلئے ان افعال کا تجزیہ کریں جن پر ابھی آپ کو محنت کرنی ہے' یعنی وہ منفی باتیں جو آپ ابھی تک ترک نہیں کر پائے ہیں۔ لائحہ عمل طے کریں کہ اگلی بار آپ کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں اور پوری دلجمعی اور مصمم ارادہ سے اس کی تکمیل کیلئے ڈٹ جائیں۔ یقینا دوسری کوشش پہلی کی نسبت بہتر نتائج لائے گی۔اسی طرح آہستہ آہستہ آپ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں گے۔ بعض ا وقات بار بار ناکامی کامنہ بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے مگر بد دل نہ ہوں کیونکہ کسی عادت اور خاص کر کسی منفی عادت سے چھٹکارا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے' نئی شخصیت کی تعمیر میں دیر لگے گی مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔
ایک اور خاص نکتہ یہ کہ آپ کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ آپ میں کون سی چیزیں تبدیل ہو سکتی ہیں اور کون سی نہیں۔ کچھ چیزیں اٹل ہوتی ہیں' جن کو عام آدمی نہیں بدل سکتا مثلاً شکل و صورت،ناک نقشہ، رنگ اور قد بُت وغیرہ ۔ مائیکل جیکسن کی طرح نہ سب لوگوں کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنی کھال بدلوا سکتے ہیں' لہٰذا خدا کی بنائی ہوئی صورت تو جیسی ہے ویسی ہی آپ کو قبول کرنا پڑے گی۔ ہاں اسے سنوارا جا سکتا ہے اور نئی تکنیک کی بدولت اسے زیادہ جاذب نظر اور قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے۔
اپنے اوپر سخت تنقید نہ کریں' کوئی نہ بالکل اچھا ہوتا ہے اور نہ بالکل برا' اپنے اوپر تنقیدی نگاہ ڈالیں' منفی باتیں جو دور ہو سکتی ہیں انھیں دور کریں' مثبت باتوں کو ابھاریں' چہرے کے معمولی نقش و نگار بھی سلیقے سے سنوارے بالوں' صاف ستھرے لباس اور مسکراتے اور دلکش انداز سے اچھے لگنے لگتے ہیں۔ ہر وقت خود کے متعلق میں مت سوچیں کہ میری ناک تو بہت ہی بری ہے' دانت بڑے ہیں یا بال روکھے اور خشک ہیں' قد چھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ شخصیت بدلی جا سکتی ہے' آپ جب چاہیں خود کو بدل سکتے ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ انسانی عادات ایسے ہی بدلی جا سکتی ہیں جیسے لباس' یہاں تک کہ کسی جسمانی خامی کو بھی دوسرے خوبصورت حصوں کو ابھار کر دبایا جا سکتا ہے کیونکہ خدا نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خوبصورتی سے نوازا ہوتا ہے۔
بس آپ اپنی ذات میں موجود خوبصورتی کو تلاش کریں اور پھر اس میں نکھار پیدا کریں۔ اگر آپ بدصورت بھی ہیں تو اپنے رویوں کو اس قدر خوبصورت بنائیں،اپنی زبان میں اس قدر مٹھاس پیدا کریں اور ایسا دوستانہ رویہ اختیار کریں کہ آپ سے بات کرنے والا اور آپ کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے والا بھی آپ کی شخصیت کا گرویدہ ہو جائے اور دیگر لوگوں کے سامنے آپ کی تعریف کرنے پرمجبور ہو جائے ، یہی آپ کی کامیابی کی کلید ہے۔اگر آپ ایسا نہ کر سکے تو پھر آپ مکمل طور پر ناکام ہو جائیں گے کیونکہ ایک تو آپ کی صورت اورپھر آپ کے منفی رویے آپ کی معاشرتی و سماجی زندگی کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہو ں گے۔آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ہر قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں،اب یہ انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ ان کا منفی استعمال کرتا ہے یا مثبت۔
کاشف میٹرک میں امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس ہوا، انگریزی کے مضمون میں بورڈ ٹاپ کیا، وہ ایف اے اور بی اے کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر میں ایم اے کرنا چاہتا تھا مگر اس کے والد چاہتے تھے کہ وہ انجینئر بنے اس لئے انھوں نے کاشف کو مجبور کیا کہ وہ پری انجینئرنگ میں داخلہ لے اور اپنی طبیعت کے میلان کے خلاف تعلیم حاصل کرے۔
کاشف نے اپنے والد کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر بے سود۔ والد صاحب نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ اس کے تعلیمی اخراجات ادا نہیں کریں گے۔ مجبوراً کاشف نے پری انجینئرنگ میں داخلہ لے لیا مگر وہ نیم دلی اور بے رغبتی سے پڑھتا رہا ۔ اس کی عادات بھی خراب ہو گئیں،راتوں کو جاگنا اور دن چڑھے تک سوتے رہنا ، دل کیا تو کالج چلے جانا ورنہ گھر یا ہاسٹل میں ہی پڑے رہنا۔پڑھائی سے بیزاری اس کی عادتِ ثانیہ بن گئی۔
والد صاحب نے جب بھی تعلیم کے متعلق استفسار کیا تو کاشف انھیں جھوٹی تسلیاں دے دیتا۔ والد صاحب اپنی جگہ خوش تھے کہ ان کا ہونہار سپوت جلد ہی انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیمی مدارج طے کر رہا ہو گا،مگر دو سال بعد جب ایف ایس سی کا رزلٹ آئوٹ ہوا تو کاشف بمشکل سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو سکا ۔ والد صاحب کے غیض و غضب کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔وہ بضد تھے کہ کاشف دوبارہ ایف ایس سی کے امتحانات دے اور ہر حال میں انجینئرنگ یونیورسٹی کا میرٹ حاصل کرے۔
کاشف نے اپنے چچا سے اپنے مسائل بیان کئے اورپھر چچا نے اپنے بھائی کو سمجھا یا کہ کاشف کی زندگی تم نے نہیں گزارنی اسلئے اس کو اس کے شوق اور میلان کے مطابق تعلیم حاصل کرنے دو۔ والد صاحب نے طوعاً و کرہاً اجازت دے دی۔کاشف نے بی اے میں داخلہ لیا اور اپنی پسند کے مضامین منتخب کئے مگر اب اس کی بری عادات اس کے آڑے آنے لگیں۔اسے صبح خیزی کی عادت نہ رہی تھی اور پڑھائی سے بے رغبتی اور کے حصولِ تعلیم میں رکاوٹ بن رہی تھی۔
مگر کاشف نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنی عادات کو بدلنے کا مصمم ارادہ کیا اور دلجمعی کے ساتھ اپنی روش بدلنے پر کمر بستہ ہو گیا ۔ عادات بدلنے میں اسے مشکل تو پیش آئی مگر اس کے ارادے کی پختگی نے اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ اس نے امتیازی نمبروں میں بی اے کرنے کے بعد انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا ۔ آج کاشف یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور بہت اچھا لکھاری بھی۔ والد صاحب بھی اس کی کامیابی سے خوش ہیں اور کاشف بھی کامیاب و مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ کاشف کا کہنا ہے کہ اگر انسان خودکو بہتر بنانے کے عمل پر عزم اور پورے ارادے سے عمل پیرا ہو' مستقل مزاجی اور جم کر خود کو بدلنے کی کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں۔
دنیا کے ہر شخص کے پاس ذاتی اقدار کا ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ اسی پیمانے کے ذریعے وہ اپنے اردگرد کی دنیا حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی دیکھتا ہے۔ اسی کو Self Image یا عکس ذات کہتے ہیں۔ یعنی وہ شخصی تصور جو خود آپ نے اپنے بارے میں قائم کیا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ سمجھ لیں کہ ہم سب نے اپنے ذہن میں خود اپنی ایک تصویر بنا رکھی ہوتی ہے۔ مطلب کہ ہم کیسے ہیں، ہماری خواہشات کیا ہیں ، ترجیحات کیا ہیں اور ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ اقدار ہماری ظاہری شکل وصورت نہیں ہوتی' بلکہ یہ وہ تصویر ہوتی ہے جو ہم اپنی صفات،خوبیوں ،خامیوں اور اپنے خیالات کی بنیاد پر بنائے ہوتے ہیں۔
اکثر و بیشتر یہ تصویر اس رویہ سے متاثر ہو کر ہم بناتے ہیں جو ہمارے ساتھ آس پاس کے لوگ روا رکھتے ہیں۔ اس کا آغاز اسی وقت سے ہو جاتاہے کہ جب ہم بچے ہوتے ہیں۔ یوں ہم اکثر دوسرے افراد کے اس ردعمل کو پیش نظر رکھ کر اپنی ایک ذاتی تصویر بناتے ہیں جس کا مظاہرہ ہمیں روزمرہ زندگی میں دیکھنا پڑتا ہے۔ اکثر دوسروں کا رویہ' ان کے تبصروں اور باتوں سے ظاہر ہوتا ہے جو وہ ہمارے بارے میں کرتے ہیں' خواہ یہ تبصرے اچھے ہوں یا برے۔
عکس ذات کو بہتر بنانے کا عمل اتنا آسان نہیں ہے۔ ابتدا میں بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوری نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس وقت قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ صبر و استقلال کے ساتھ عمل کر سکتے ہوں تو پھر آپ کے لئے ہم نیچے چند مشورے لکھ رہے ہیں جو آپ کے عکس ذات کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں گے۔
سب سے پہلے آپ اپنی تمام اچھی باتیں اور صفات کسی کاغذ پر لکھ لیں اور اسے کسی ایسی جگہ رکھ دیں جہاں اکثر آپ کی اس پر نگاہ پڑتی رہے۔ اس طرح آپ کو یہ باتیں ذہن نشین ہو جائیں گی اور آپ ہر وقت ان کادھیان رکھیں گے یعنی آپ کی ذات میں موجود منفی پہلوئوں کو بتدریج کم کرنے کی سعی کریں گے اور ساتھ ساتھ ہی مثبت پہلوئوں کی آبیاری کریں گے۔ پہلے پہل آپ کودانستہ طور پر یہ مشق کرنا ہو گی مگر آہستہ آہستہ یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور پھر آپ غیر محسوس طور پر ان پر عمل پیرا رہیں گے۔
اس مقصد کی تکمیل کیلئے اپنی ذات کے متعلق زیادہ اچھی اور مصدقہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اپنے جسمانی اور ذہنی پہلوئوں کاجائزہ لیں۔ یعنی دیکھیں جسمانی طور پر آپ مضبوط ہیں یا کمزور؟ خوب صورت ہیں ، عام شکل و صورت کے مالک ہیں یا بدشکل؟ اسی طرح ذہنی خواص کا بھی جائزہ لیں، یعنی دیکھیں آپ تیز دماغ ہیں یا بدھو' آپ کو بات عام آدمیوں کے مقابلے میں دیر سے سمجھ میں تو نہیں آتی۔
انھیں سوچنے کے بجائے کاغذ پر لکھ کر معلوم کریں کیونکہ زبانی کہی ہوئی باتیں تو شاید آپ بھول بھی جائیں مگر جو باتیں لکھ لی جائیں ان کو بھولنے کے امکانات بھی انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ آپ کے اندر کتنی عادات ایسی ہیں جو آپ نے کسی اور کی نقل کر کے حاصل کی ہیں۔ اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ یہ عادات کتنی اچھی ہیں؟ اس کے بعد خود سے طے کریں کہ آپ کس طرح کی شخصیت کے حامل فرد بننے کے خواہش مند ہیں۔
ایک بات یاد رہے کہ خود احتسابی کا عمل نہایت مشکل کام ہے۔ انسان فطری طور پر خود پسند ہوتا ہے۔ جب کسی دوسرے کی ذات کو تولتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کی خوبیاں بھی اس کو خامیاں محسوس ہوں مگر جب بات اپنی ذات کی ہو تو اپنی خامیاں بھی اسے اتنی بری نہیں محسوس ہوتیں۔ اس لئے جب اپنی شخصیت کا جائزہ لیں تو حقیقت پسندی سے جائزہ لیں' حقیقت پسند بنیں اور پھر حقیقت پسندی سے ہی اپنی خامیوں کو بتدریج کم اور پھر ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ اپنی طبیعت کے خلاف کام کرنا اور پھر اس کو از سرِ نو ترتیب دینا آسان عمل نہیں ہوتا ۔ ایسے مقاصد اختیار نہ کریں جو آپ کی ذات کے بس سے باہر ہوں۔
پہلے اپنی منزل اور مقصد کا تعین کریں۔ایسا مقصد جس کو آپ واقعی کرنا چاہتے ہوں یا کر سکتے ہوں۔ جب مقصد متعین ہو جائے تو آہستہ آہستہ ان پر عمل شروع کر دیں۔ عکس ذات کی تعمیر ایک دم سے نہیں ہو جاتی' اس کے لئے وقت لگتا ہے۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ ایسے بچے جو بہت ابتداء سے شرمیلے' غیر مجلسی اور دبے دبے ہوتے ہیں وہ اگر اپنی کلاس میں مقبول بننا چاہتے ہوں تو یہ کام ان کے لئے آسان نہیں ہوتا ۔ ایک شرمیلا بچہ کلاس روم میں مشہور ہونا چا ہے تو وہ یہ کام ایک دن میں نہیں کر سکتا۔ مثلاً وہ کلاس کے ایک اچھے بچے کو اپنا دوست بنائے' اس کے بعد اس کی مدد سے ایک اور دوست بنائے' اس طرح اس کے تعلقات کا حلقہ بڑھتا جائے گا ۔
اگر وہ بچہ ایک ہی دن میں کلاس کے سب بچوںسے دوستی اور ہر دلعزیزی کا خواب دیکھ کر اس پر فوراً عمل پیرا ہو جائے تو اس کا نتیجہ یقینا منفی صورت میں برآمد ہو گا اور ناکامی کی صورت میں وہ مزید اکیلا،شرمیلا اور دبا ہوا بن جائے گا ۔ اس لئے خرگوش کی طرح بگٹٹ بھاگ کر جلد تھک کر سو جانے سے بہتر ہے کہ کچھوے کی طرح آہستہ آہستہ منزل اور مقصد کی تکمیل کی جانب رواں رہا جائے تاکہ ناکامی کا امکان کم سے کم ہو۔ یاد رہے کہ جلد بازی میں منزل پر کبھی نہ پہنچنے کی بجائے ذرا دیر سے پہنچنا بدرجہا بہتر ہے۔
کسی نئے سیلف امیج کی تعمیر کے لئے ایسے افعال اور اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو اس نئی شخصیت کے مطابق ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ماضی اور حال کے اچھے لکھاریوں یا مصنفوںپر بحث کے دوران آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں تو اس کے لئے آپ کو ان مصنفوں کی بہت سی تصنیفات پڑھنا پڑیں گی اور ان کے مصنفوں کے نام بھی یاد رکھنے ہوں گے۔ خوش لباسی اچھی لگتی ہے تو اس کے لئے پیسہ بھی خرچنا پڑے گا یا کم از کم صاف ستھرا لباس زیبِ تن کرنا ہو گا ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی گفتگو میں وزن پیدا ہو' تو علم کو بڑھانا ہو گا' کتابوں سے' مباحثوں سے' مشاہدات اور تجربات سے۔
جس طرح شخصیت کی تبدیلی کیلئے نئے اور مثبت اقدامات ضروری ہوتے ہیں' اسی طرح آپ کی ذات میں جو منفی پہلوہیں ان کا اخراج بھی ضروری ہے مگر اس مقصد کیلئے بھی آپ کو عمداً اور بھر پور کوشش کرنا ہو گی کیونکہ آپ کی ذات میں موجود برسوں سے پرانی عادات کوبدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ یہ عادات لاشعوری طور پر آپ کی ذات کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں اور ان سے چھٹکارا صرف سخت شعوری کوشش سے ہی ممکن ہے، مثلاً اگر بہت جھک کر چلنے یا بیٹھنے کی عادت ہے تو اسے شعوراً چھوڑنے کی کوشش کریں' سیدھا ہو کر چلیں' مناسب انداز سے بیٹھیں' کھانا کھانے میں آواز پیدا ہوتی ہے تو اسے ہر صورت دور کریں،اگر آپ پائوں گھسیٹ کر چلتے ہیں تو اس عادت پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں۔
اپنی ہی بات پر ہنسنا اور وہ بھی دوسروں سے پہلے تو اس جیسی عادت پر بھی قابو پا ئیں' لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں' بے جا قسمیں نہ کھائیں،اگر دو افراد گفتگو کر رہے ہوں اور آپ کو درمیان میں کودنے کی عادت ہے تو اس کو فوراً بدل ڈالیں کیونکہ یہ عادت لوگوں پر بہت برا اثر ڈالتی ہے،اس لئے ان افراد کی بات ختم ہونے کا انتظار کریں اور پھر اپنی بات کریں،اگر بات بہت ضروری ہے تو گفتگو کے درمیان ایک دم کودنے کے بجائے پہلے رخنہ اندازی کی معذرت کریں اور پھراپنی بات کہیں،اس طرح مخاطبین کو برا بھی نہیں لگے گا اور آپ مناسب انداز میںاپنا مطمع نظر بھی بیان کر سکیں گے۔
ہر رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعد خود ا پنے ہی تصور میں اپنی تبدیل شدہ شخصیت کا تصور ابھاریں' خود کو نئی شخصیت میں دیکھیں اور طے کریں کہ آج آپ اپنی شخصیت کو ویسا ہی دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ جو آپ نے طے کی ہے۔ شام کو اپنا محاسبہ کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ آپ پورے دن میں خود میں کیا تبدیلی پیدا کر سکے ہیں۔ اگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی تو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خود کو اپنی پسندیدہ شخصیت میں ڈھالنا آسان کام نہیں اور نہ ہی یہ کام ایک رات میں ممکن ہے۔مسلسل اور پیہم کوشش کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔
آپ محنت کرتے رہیں، ایک دن آپ کی محنت رنگ لائے گے کیونکہ دنیا میںکوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو محنت اور لگن سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ اس مقصد کیلئے ان افعال کا تجزیہ کریں جن پر ابھی آپ کو محنت کرنی ہے' یعنی وہ منفی باتیں جو آپ ابھی تک ترک نہیں کر پائے ہیں۔ لائحہ عمل طے کریں کہ اگلی بار آپ کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں اور پوری دلجمعی اور مصمم ارادہ سے اس کی تکمیل کیلئے ڈٹ جائیں۔ یقینا دوسری کوشش پہلی کی نسبت بہتر نتائج لائے گی۔اسی طرح آہستہ آہستہ آپ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں گے۔ بعض ا وقات بار بار ناکامی کامنہ بھی دیکھنا پڑ سکتا ہے مگر بد دل نہ ہوں کیونکہ کسی عادت اور خاص کر کسی منفی عادت سے چھٹکارا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تھوڑی محنت کرنا پڑتی ہے' نئی شخصیت کی تعمیر میں دیر لگے گی مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔
ایک اور خاص نکتہ یہ کہ آپ کو یہ بھی طے کرنا ہے کہ آپ میں کون سی چیزیں تبدیل ہو سکتی ہیں اور کون سی نہیں۔ کچھ چیزیں اٹل ہوتی ہیں' جن کو عام آدمی نہیں بدل سکتا مثلاً شکل و صورت،ناک نقشہ، رنگ اور قد بُت وغیرہ ۔ مائیکل جیکسن کی طرح نہ سب لوگوں کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے اور نہ وہ اپنی کھال بدلوا سکتے ہیں' لہٰذا خدا کی بنائی ہوئی صورت تو جیسی ہے ویسی ہی آپ کو قبول کرنا پڑے گی۔ ہاں اسے سنوارا جا سکتا ہے اور نئی تکنیک کی بدولت اسے زیادہ جاذب نظر اور قابلِ قبول بنایا جا سکتا ہے۔
اپنے اوپر سخت تنقید نہ کریں' کوئی نہ بالکل اچھا ہوتا ہے اور نہ بالکل برا' اپنے اوپر تنقیدی نگاہ ڈالیں' منفی باتیں جو دور ہو سکتی ہیں انھیں دور کریں' مثبت باتوں کو ابھاریں' چہرے کے معمولی نقش و نگار بھی سلیقے سے سنوارے بالوں' صاف ستھرے لباس اور مسکراتے اور دلکش انداز سے اچھے لگنے لگتے ہیں۔ ہر وقت خود کے متعلق میں مت سوچیں کہ میری ناک تو بہت ہی بری ہے' دانت بڑے ہیں یا بال روکھے اور خشک ہیں' قد چھوٹا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ شخصیت بدلی جا سکتی ہے' آپ جب چاہیں خود کو بدل سکتے ہیں۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ انسانی عادات ایسے ہی بدلی جا سکتی ہیں جیسے لباس' یہاں تک کہ کسی جسمانی خامی کو بھی دوسرے خوبصورت حصوں کو ابھار کر دبایا جا سکتا ہے کیونکہ خدا نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خوبصورتی سے نوازا ہوتا ہے۔
بس آپ اپنی ذات میں موجود خوبصورتی کو تلاش کریں اور پھر اس میں نکھار پیدا کریں۔ اگر آپ بدصورت بھی ہیں تو اپنے رویوں کو اس قدر خوبصورت بنائیں،اپنی زبان میں اس قدر مٹھاس پیدا کریں اور ایسا دوستانہ رویہ اختیار کریں کہ آپ سے بات کرنے والا اور آپ کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے والا بھی آپ کی شخصیت کا گرویدہ ہو جائے اور دیگر لوگوں کے سامنے آپ کی تعریف کرنے پرمجبور ہو جائے ، یہی آپ کی کامیابی کی کلید ہے۔اگر آپ ایسا نہ کر سکے تو پھر آپ مکمل طور پر ناکام ہو جائیں گے کیونکہ ایک تو آپ کی صورت اورپھر آپ کے منفی رویے آپ کی معاشرتی و سماجی زندگی کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہو ں گے۔آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ہر قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں،اب یہ انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ ان کا منفی استعمال کرتا ہے یا مثبت۔