پاکستان44 کروڑڈالرکی چکن پراڈکٹس برآمد کرسکتا ہے خلیل ستار
پراسس اور ویلیو ایڈڈچکن فوڈپر سیلز ٹیکس صفر،درآمدی مشینری پراستثنیٰ دیا جائے،صدرپی پی اے
پاکستان دنیا بھر میں حلال فوڈ کی بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور موجودہ 10فیصد زندہ مرغیوں کی برآمد کو اگر چکن مصنوعات کی برآمد میں تبدیل کردیا جائے تو ہر سال 44 کروڑ ڈالر کی حلال فوڈ برآمد کی جاسکتی ہے۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر خلیل ستار کے مطابق سال 2018 تک یہ شعبہ موجودہ 1.02 ارب برائلر کے بجائے 1.4 ارب برائلر پیدا کرے گا، موجودہ 15 فیصد پیداواری شرح کو برقرار رکھنے کے لیے فیڈ کی پیداوار کو بڑھانا ہوگا، خاص طور پر مکئی کی فصل میں 15 فیصد سالانہ اضافہ کرنا ہوگا، کسی بھی باہمی ترجیحی معاہدے یا پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے معاہدے میں یکساں قواعد و ضوابط اور برآمد کے یکساں مواقع مہیا کی فراہمی تک پولٹری شعبے کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پراسس چکن فوڈ اور ویلیو ایڈڈ پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر کرنے پر زور دیا کیونکہ زیرو ریٹنگ ہٹانے سے پیداواری لاگت میں 20 تا45 روپے کلو اضافہ ہوا اور پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری انڈسٹری کو درآمدی مشینری، آلات اور دیگر ضروری اشیا پر ایڈوانس انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے۔ انہوں نے دیگر ملکوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں بھی پراسس چکن مصنوعات کو کھانے پینے کی روز مرہ اشیا کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور ان پر زیرو سیلز ٹیکس ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پولٹری سیکٹر ملک میں غربت کی شرح کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے خاص طور پر گاؤں دیہات کی سطح پر سال 2011-12 میں 17 لاکھ ہنرمند، غیر ہنر مند اور دیگر افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر خلیل ستار کے مطابق سال 2018 تک یہ شعبہ موجودہ 1.02 ارب برائلر کے بجائے 1.4 ارب برائلر پیدا کرے گا، موجودہ 15 فیصد پیداواری شرح کو برقرار رکھنے کے لیے فیڈ کی پیداوار کو بڑھانا ہوگا، خاص طور پر مکئی کی فصل میں 15 فیصد سالانہ اضافہ کرنا ہوگا، کسی بھی باہمی ترجیحی معاہدے یا پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے معاہدے میں یکساں قواعد و ضوابط اور برآمد کے یکساں مواقع مہیا کی فراہمی تک پولٹری شعبے کو شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پراسس چکن فوڈ اور ویلیو ایڈڈ پر سیلز ٹیکس کی شرح صفر کرنے پر زور دیا کیونکہ زیرو ریٹنگ ہٹانے سے پیداواری لاگت میں 20 تا45 روپے کلو اضافہ ہوا اور پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری انڈسٹری کو درآمدی مشینری، آلات اور دیگر ضروری اشیا پر ایڈوانس انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے۔ انہوں نے دیگر ملکوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں بھی پراسس چکن مصنوعات کو کھانے پینے کی روز مرہ اشیا کے زمرے میں رکھا جاتا ہے اور ان پر زیرو سیلز ٹیکس ہوتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پولٹری سیکٹر ملک میں غربت کی شرح کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے خاص طور پر گاؤں دیہات کی سطح پر سال 2011-12 میں 17 لاکھ ہنرمند، غیر ہنر مند اور دیگر افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔