Square Kilometre Array دُنیا کی طاقت ور ترین دُوربین

سائنس دانوں کو کائنات کے ان گنت رازوں کے افشا کی اُمید

سائنس دانوں کو کائنات کے ان گنت رازوں کے افشا کی اُمید۔ فوٹو: فائل

UNITED NATIONS:
سائنس داں برسوں سے کائنات کے بارے میں جاننے کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ کیسے وجود میں آئی، یہ کتنی وسیع ہے اور اس میں زمین کے علاوہ کسی سیارے پر حیات کا وجود ہے یا نہیں؟ کائنات کا پس منظر جاننے کے لیے سائنس دانوں کی کوششوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ اس کا سبب سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں روز افزوں ترقی ہے، جس کی بہ دولت وہ ایسے جدید ترین آلات تیار کررہے ہیں جو انھیں خلائے بسیط کی بے کراں وسعتوں میں جھانکنے کے قابل بنارہے ہیں۔ تسخیر کائنات کے لیے جدید سے جدید تر ٹیکنالوجی اور آلات کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اب دنیا کے بڑے کمپیوٹر ساز ادارے آئی بی ایم نے بھی اس ضمن میں بہت اہم پیش رفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، بلکہ اس ضمن میں کام کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔

یہ کمپنی دنیا کی سب سے طاقت ور دُوربین تیار کررہی ہے، جس کی ' آنکھ' اس قدر تیز ہوگی کہ یہ ماضی میں جھانکتے ہوئے، تیرہ ارب سال قبل کے اس لمحے تک پہنچ جائے گی، جب کائنات نے جنم لیا تھا اور عظیم دھماکا ( بگ بینگ) ہوا تھا۔ یہ دور بین کئی ٹیکنالوجیز کا مجموعہ ہوگی۔ اس کے لیے دنیا کے طاقت ور ترین کمپیوٹر کی تیاری پر بھی کام جاری ہے۔ یہ کمپیوٹر کتنا طاقت ور ہوگا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پورے انٹرنیٹ پر جتنا ڈیٹا سفر کرتا ہے، اس کمپیوٹر میں اس سے دگنا ڈیٹا سماسکے گا۔ یہ سپرکمپیوٹر 1900 مربع کلومیٹر پر پھیلے ڈش اینٹیناؤں کے سلسلے سے منسلک ہوگا۔

ان اینٹیناز سے ڈیٹا کمپیوٹر میں منتقل ہوگا۔ اس ڈیٹا کو کمپیوٹر پروسیس کرے گا اور تیرہ ارب سال قبل پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے گا۔ آئی بی ایم نے اس پروجیکٹ کو Square Kilometre Array (ایس کے اے) کا نام دیا ہے۔ اس ریڈیو ٹیلی اسکوپ کا کمپیوٹر موجود تیز ترین پرسنل کمپیوٹر سے لاکھوں گنا تیز رفتار ہوگا اور لارج ہیڈرن کولائیڈر کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ڈیٹا پروسیس کرسکے گا۔ لارج ہیڈرن کولائیڈر سائنسی تاریخ کی سب سے بڑی اور منہگی ترین مشین ہے، جس کے ذریعے سائنس داں آغاز کائنات کے بارے میں جاننے کی سعی کررہے ہیں۔


اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 2024ء کا سال مقرر کیا گیا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ دوربین کہکشاؤں کی تشکیل اور ارتقاء، ڈارک میٹر کی حقیقت کا کھوج لگانے اور تیرہ ارب سال قبل، تخلیق کائنات کے دور میں جھانکنے کی کوشش کرے گی۔

یہ انتہائی طاقت ور سروے ٹیلی اسکوپ لاکھوں ڈش اینٹیناؤں پر مشتمل ہوگی، جو ریڈیائی اشارات جمع کریں گے۔ یہ اینٹینا 1900 مربع کلومیٹر کے علاقے میں مخصوص فاصلوں پر نصب کیے جائیں گے۔ ان اینٹیناؤں کی سطح کا مجموعی رقبہ ایک مربع کلومیٹر ہوگا۔ آئی بی ایم کے ماہرین کے مطابق ایس کے اے موجودہ حساس ترین ریڈیائی آلے سے پچاس گنا زیادہ حساس ہوگی۔ فعال ہونے کے بعد توقع ہے کہ ایس کے اے روزانہ چند ایگزابائٹ ڈیٹا جمع کرے گی (ایک ایگزابائٹ 1073741824 گیگابائٹ کے مساوی ہوتا ہے)۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس تمام ڈیٹا کی پروسیسنگ کے بعد روزانہ 300 سے 1500پیٹا بائٹ ڈیٹا محفوظ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ واضح رہے کہ ایک پیٹابائٹ 1048576گیگا بائٹ کے مساوی ہوتا ہے۔

صحیح معنوں میں اس منصوبے پر کام کا آغاز 2016ء میں ہوگا۔ ان دنوں جنوبی افریقا کے صحرائے کارو میں ایس کے اے کے پروٹوٹائپ کی آزمائش کی جارہی ہے، جو سولہ میٹر قطر کے سات ڈش اینٹینا پر مشتمل ہے۔ سائنس دانوں کو امید ہے کہ اپنی نوعیت کی اس اہم ترین دور بین کے فعال ہونے کے بعد کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھ جائے گا۔
Load Next Story