911 اور ہالی ووڈ کا بیانیہ
تاریخ کہتی ہے کیپٹن امریکا نے جب جب بھی حقیقی جنگ لڑی، بالآخر اسے شکست ہوئی اور یہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا
کیپٹن امریکا بدلہ لینے کےلیے پریشان ہے۔ پچھلی بار اسے شکست ہوئی ہے۔ تھانوس نے آدھی دنیا تباہ کردی ہے تاکہ باقی آدھی دنیا سکون سے رہ سکے۔ لیکن کیپٹن امریکا اب دوبارہ سے اپنی بدلہ لینے والی ٹیم کے اتحاد کو تیار کررہا ہے تاکہ تھانوس سے انفینیٹی اسٹونز حاصل کرکے اس دنیا کو بچاسکے۔ یہ وہ اسٹوری لائن ہے جو ہالی ووڈ نے ایونجر اینڈ گیم میں پیش کی۔ ہم اس اینڈ گیم کو تھوڑی دیر کےلیے یہیں روکتے ہیں۔
یورپ سے نکلنے کے بعد یا نکالے جانے کے بعد یہودیوں نے امریکا کو اپنا مسکن جانا۔ وہ 1877 تک کیلیفورنیا کی کل آبادی کا 8 فیصد تھے۔ وہ امریکا میں آزادانہ رہ رہے تھے، جائیداد خرید سکتے تھے اور کاروبار کرسکتے تھے۔ وہ بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں حصہ لے رہے تھے۔ اسی عرصے کے دوران ہی ان کی ایک نئی صنعتی ایلیٹ معرض وجود میں آئی، جس میں انہوں نے کچھ مخصوص شعبوں کو اپنی منزل بنالیا۔ جیسے بینکنگ، ریٹیلنگ، ٹیکسٹائل اور میڈیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکی ماحول کا حصہ بن رہے تھے یا امریکیوں کو غیر محسوس طریقے سے یہودی ماحول کا حصہ بنا رہے تھے۔ وہ یہودی تو تھے ہی، لیکن اب امریکی بھی تھے۔ وہ امریکی سیاست اور امریکی کلچر کا حصہ بن رہے تھے۔ آزادی انقلاب کے بعد امریکی قانون آزادی نے ان کےلیے اور زیادہ آسانیاں پیدا کردی تھیں، زیادہ تر آزادی کے قوانین کی وجہ سے یہودیوں نے امریکا کو اپنا نیا گھر سمجھ لیا تھا۔
یورپ سے آنے والے اشک نازی یہودیوں نے امریکا کی بندرگاہوں پر بھی کام شروع کردیا تھا اور پورٹ سٹیز میں اپنی رہائشیں بھی بنالی تھیں، جیسے فلاڈیلفیا، نیویارک، بوسٹن اورنیو پورٹ۔ وہ امریکیوں کے ساتھ شادیاں بھی کررہے تھے اور اپنے یہودیت کے عقائد میں امریکی معاشرے کے مطابق ماڈرن تبدیلیاں بھی لارہے تھے۔ وہ اپنی روایتی سوچ کو معاشرتی محرکات اور دنیاوی لذت کے ساتھ مکس کررہے تھے۔ انہوں نے یورپ سے آنے والے نئے یہودی سیٹلرز کو ویلکم کہنے کےلیے کئی آرگنائزیشنز بھی بنالی تھیں۔
یہودیوں کی امریکنائزیشن کی چھاپ ادب و ثقافت میں بھی نظر آنے لگی تھی، جبکہ انہوں نے انگریزی ادب کو اپنے Yiddish لٹریچر کے ساتھ مکس کرنا شروع کردیا اور امریکا میں اپنے اس نئے وجود میں آنے والے لٹریچر اور بیانیہ کو امریکی تھیٹر اور خاموش فلموں میں پیش کرنا شروع کردیا۔
مشہور زمانہ چارلی چپلن کی ایک سے زیادہ مزاحیہ خاموش فلمیں اور بہت سی دوسری فلمیں اسی لٹریچر سے معرض وجود میں آئیں۔ جیسے چارلی کی دی گریٹ ڈکٹیٹر اور ایڈورڈ سولومن کی His people۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد تک آواز والی فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں۔ ایڈیسن اس وقت تک کائینیٹو اسکوپک ریل بھی ایجاد کرچکا تھا۔ باقی شعبوں کی طرح امریکن سینما میں ایک انقلاب آچکا تھا۔ امریکن آزادی، سہل پسندی، امریکی تہذیب و روایات اور ان سب کے ساتھ کیپٹلزم نے امریکی معاشرہ تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ اس تہذیب اور انقلاب میں پورا پورا ہاتھ ان اشکنازی یہودیوں کا تھا جو ہالی ووڈ آکر بس گئے تھے۔ سینما کی کیپٹلائزیشن اور ریوولوشن کےلیے انہی یہودیوں نے اپنے اسٹوڈیو تک خرید لیے تھے یا تعمیر کرلیے تھے، جن کے نیچے کئی کئی سینما تھیٹرز کام کرتے تھے اور اب تو یہی اسٹوڈیوز فلمیں پروڈیوس بھی کرنے لگے تھے۔ اور کوئی دوسرا فلم بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ان اسٹوڈیو کنگز میں کولمبیا کا Harry Cohn ، فاکس پکچرز کا William Fox جو مرجنگ کے بعد Tewntieth Century- Fox بنا، سموئیل گولڈون اور لوئس بی مائیر کا MGM، اور Carl Laemmle کا یونیورسل، Adolph Zukor کا پیراماؤنٹ اور جیک اینڈ ہیری وارنر کا وارنرز برادرز۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے ہالی ووڈ کو بنایا اور انہی کے پاس اب بھی مارکیٹ کا 90 فیصد شیئر ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہالی ووڈ کا بیانیہ نہ نظر آنے والے انداز سے پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔
ان چند ہاتھوں میں آج بھی پورے ہالی ووڈ کا ارتکاز ہے اور یہی ہالی ووڈ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ یہی وہ عقاب ہیں جو اپنے شکار کو اس انداز سے پھانستے ہیں کہ شکار خودبخود ان کی گود میں آگرتا ہے۔ یہ اپنے دیکھنے والوں کو ایک ایسی fantasy کی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں امریکا ٹیکنالوجی کا خدا، ہٹلر فرعون اور یہودی خود ایک معصوم قوم بن جاتے ہیں۔ وہ چارلی چپلن ہو یا آج کا سپرمین، خاموش فلموں کا فوجی ہیرو ہو یا جیمز بانڈ، ان سب کا بیانیہ مشترک ہے۔ جبکہ زیادہ تر مووی دیکھنے والوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہ امریکا کی ٹیکنالوجی، فوجی برتری اور یہودی معصومیت کے ذہنی مرید ہوجاتے ہیں۔
یہ ہالی ووڈ کے بادشاہ اور ان کی فلمیں ان کی سلطنت ہیں۔ جس میں وہ اپنی مرضی کی خیالی دنیا تشکیل دیتے ہیں، خواب دکھاتے ہیں، سیاست کرتے ہیں، لوگوں کی سوچ کو اپنے تابع کرتے ہیں اور آخر میں بلاک بسٹر بناکر بے تحاشا پیسہ اکٹھا کرلیتے ہیں۔ ایک مسیحا سپرمین بناتے ہیں جو امریکی فوج کے ساتھ الائنس بناتا ہے، جس کے پاس غیر مرئی طاقتیں ہیں اور وہی مسیحا پھر امریکیوں کو جنگ میں سپورٹ دیتا ہے۔ پھر ایک سبز گوریلا ہلک کے نام سے پیدا کرتے ہیں جسے غصے کا بہت برا دکھاتے ہیں، وہ بھی امریکی فورس سے مل جاتا ہے۔ ہولوگرام ٹیکنالوجی اور دیگر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال سے بے انتہا ایکشن اور مخصوص پیسے سے ایک بلاک بسٹر فلم بنتی ہے۔ اس سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے اور ساتھ میں دیگر کاروبار بنتے ہیں، بچوں کے اسکول بیگز، جوتے، شرٹس، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کے تھیمز، نیز ہر جگہ سے کاروبار چل نکلتا ہے۔
9/11 کے بیانیہ سے تو ان کی نکل پڑی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی آرمی اور ہالی ووڈ کسی دوسرے سیارے سے آنے والے مسیحا کے انتظار میں ہے، جو ان کے کہنے پر ان کی جنگیں لڑے گا۔ کتنی ہی پلاننگ سے کومک بیانیہ کو بڑھاوا دیا گیا جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ہم ایونجر اینڈ گیم کی طرف واپس آتے ہیں۔ پہلے ایک ایک کرکے سب ٹیم ممبرز کو الگ الگ فلموں میں متعارف کروایا گیا، پھر ان کو آپس میں لڑوایا گیا۔ کبھی یہ امریکن فورسز سے مل کر لڑتے ہیں اور کبھی ٹائم ٹریول کرکے ہٹلر کو روکنے کےلیے ونڈر وومن کو بھجوایا جاتا ہے، کبھی ورلڈ وار زی میں یروشلم پر زومبیز حملہ کرتے ہیں، جن پر اسرائیلی فوجی ہیلی کاپٹر بے پناہ گولیاں برساتا ہے۔ اب یہ کسے زومبیز کہہ رہے ہیں؟ جو ان کی خواہش کے مطابق گولیوں کے حقدار ہیں، جن کو مار کر یہ اپنے افسانوی بیانیہ میں اپنے احساس کی تسکین کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
جب انہوں نے دیکھا کہ9/11 کا بیانیہ اچھے دام میں بک رہا ہے تو مارول نے 500 ملین ڈالر کے بینک لون کے ساتھ ایک ذیلی کمپنی مارول اسٹوڈیو ہی بنا ڈالی، جس کے تحت ایونجر یعنی بدلہ لینے والے کا بیانیہ گھڑا گیا۔ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بار بار کہتی ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل ہے جبکہ میڈیا میں سفید فام عیسائی دہشت گرد کا نام بار بار نہ لیا جائے۔ ایک قانون کو تبدیل کرنے کے بعد وہ تو امن کی فاختہ بن گئیں لیکن دوسری طرف بدلہ لینے والوں کا بیانیہ نت نئے طریقے سے لوگوں کی سوچ پر قابض بھی ہوتا ہے اور انہی لوگوں کی جیبوں سے پیسہ بھی نکلواتا ہے۔
اس 2019 کی کیپٹن امریکا کی فلم پر 356 ملین ڈالر لگا کر 2.8 بلین ڈالر کمائے گئے اور بیانیہ دیا گیا کہ کیپٹن امریکا اور اس کی بدلہ لینے والی ٹیم نے دشمنوں کو راکھ بناکر دنیا کو ایک بار پھر بچالیا۔ اس کے بعد کیپٹن امریکا ریٹائر ہوجاتا ہے اور اپنی شیلڈ کسی اور کو تھما دیتا ہے۔ وہ کوئی اور کون ہے؟
یہ اپنی ہالی ووڈ کی افسانوی دنیا میں خود ہی دنیا کے رکھوالے بنے پھرتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ تاریخ کہتی ہے کیپٹن امریکا نے جب جب بھی حقیقی جنگ لڑی، بالآخر اسے شکست ہوئی اور یہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ جیسے اب افغانستان سے خوار ہو کر بھاگ رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یورپ سے نکلنے کے بعد یا نکالے جانے کے بعد یہودیوں نے امریکا کو اپنا مسکن جانا۔ وہ 1877 تک کیلیفورنیا کی کل آبادی کا 8 فیصد تھے۔ وہ امریکا میں آزادانہ رہ رہے تھے، جائیداد خرید سکتے تھے اور کاروبار کرسکتے تھے۔ وہ بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں حصہ لے رہے تھے۔ اسی عرصے کے دوران ہی ان کی ایک نئی صنعتی ایلیٹ معرض وجود میں آئی، جس میں انہوں نے کچھ مخصوص شعبوں کو اپنی منزل بنالیا۔ جیسے بینکنگ، ریٹیلنگ، ٹیکسٹائل اور میڈیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکی ماحول کا حصہ بن رہے تھے یا امریکیوں کو غیر محسوس طریقے سے یہودی ماحول کا حصہ بنا رہے تھے۔ وہ یہودی تو تھے ہی، لیکن اب امریکی بھی تھے۔ وہ امریکی سیاست اور امریکی کلچر کا حصہ بن رہے تھے۔ آزادی انقلاب کے بعد امریکی قانون آزادی نے ان کےلیے اور زیادہ آسانیاں پیدا کردی تھیں، زیادہ تر آزادی کے قوانین کی وجہ سے یہودیوں نے امریکا کو اپنا نیا گھر سمجھ لیا تھا۔
یورپ سے آنے والے اشک نازی یہودیوں نے امریکا کی بندرگاہوں پر بھی کام شروع کردیا تھا اور پورٹ سٹیز میں اپنی رہائشیں بھی بنالی تھیں، جیسے فلاڈیلفیا، نیویارک، بوسٹن اورنیو پورٹ۔ وہ امریکیوں کے ساتھ شادیاں بھی کررہے تھے اور اپنے یہودیت کے عقائد میں امریکی معاشرے کے مطابق ماڈرن تبدیلیاں بھی لارہے تھے۔ وہ اپنی روایتی سوچ کو معاشرتی محرکات اور دنیاوی لذت کے ساتھ مکس کررہے تھے۔ انہوں نے یورپ سے آنے والے نئے یہودی سیٹلرز کو ویلکم کہنے کےلیے کئی آرگنائزیشنز بھی بنالی تھیں۔
یہودیوں کی امریکنائزیشن کی چھاپ ادب و ثقافت میں بھی نظر آنے لگی تھی، جبکہ انہوں نے انگریزی ادب کو اپنے Yiddish لٹریچر کے ساتھ مکس کرنا شروع کردیا اور امریکا میں اپنے اس نئے وجود میں آنے والے لٹریچر اور بیانیہ کو امریکی تھیٹر اور خاموش فلموں میں پیش کرنا شروع کردیا۔
مشہور زمانہ چارلی چپلن کی ایک سے زیادہ مزاحیہ خاموش فلمیں اور بہت سی دوسری فلمیں اسی لٹریچر سے معرض وجود میں آئیں۔ جیسے چارلی کی دی گریٹ ڈکٹیٹر اور ایڈورڈ سولومن کی His people۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد تک آواز والی فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں۔ ایڈیسن اس وقت تک کائینیٹو اسکوپک ریل بھی ایجاد کرچکا تھا۔ باقی شعبوں کی طرح امریکن سینما میں ایک انقلاب آچکا تھا۔ امریکن آزادی، سہل پسندی، امریکی تہذیب و روایات اور ان سب کے ساتھ کیپٹلزم نے امریکی معاشرہ تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ اس تہذیب اور انقلاب میں پورا پورا ہاتھ ان اشکنازی یہودیوں کا تھا جو ہالی ووڈ آکر بس گئے تھے۔ سینما کی کیپٹلائزیشن اور ریوولوشن کےلیے انہی یہودیوں نے اپنے اسٹوڈیو تک خرید لیے تھے یا تعمیر کرلیے تھے، جن کے نیچے کئی کئی سینما تھیٹرز کام کرتے تھے اور اب تو یہی اسٹوڈیوز فلمیں پروڈیوس بھی کرنے لگے تھے۔ اور کوئی دوسرا فلم بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ان اسٹوڈیو کنگز میں کولمبیا کا Harry Cohn ، فاکس پکچرز کا William Fox جو مرجنگ کے بعد Tewntieth Century- Fox بنا، سموئیل گولڈون اور لوئس بی مائیر کا MGM، اور Carl Laemmle کا یونیورسل، Adolph Zukor کا پیراماؤنٹ اور جیک اینڈ ہیری وارنر کا وارنرز برادرز۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے ہالی ووڈ کو بنایا اور انہی کے پاس اب بھی مارکیٹ کا 90 فیصد شیئر ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہالی ووڈ کا بیانیہ نہ نظر آنے والے انداز سے پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔
ان چند ہاتھوں میں آج بھی پورے ہالی ووڈ کا ارتکاز ہے اور یہی ہالی ووڈ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ یہی وہ عقاب ہیں جو اپنے شکار کو اس انداز سے پھانستے ہیں کہ شکار خودبخود ان کی گود میں آگرتا ہے۔ یہ اپنے دیکھنے والوں کو ایک ایسی fantasy کی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں امریکا ٹیکنالوجی کا خدا، ہٹلر فرعون اور یہودی خود ایک معصوم قوم بن جاتے ہیں۔ وہ چارلی چپلن ہو یا آج کا سپرمین، خاموش فلموں کا فوجی ہیرو ہو یا جیمز بانڈ، ان سب کا بیانیہ مشترک ہے۔ جبکہ زیادہ تر مووی دیکھنے والوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہ امریکا کی ٹیکنالوجی، فوجی برتری اور یہودی معصومیت کے ذہنی مرید ہوجاتے ہیں۔
یہ ہالی ووڈ کے بادشاہ اور ان کی فلمیں ان کی سلطنت ہیں۔ جس میں وہ اپنی مرضی کی خیالی دنیا تشکیل دیتے ہیں، خواب دکھاتے ہیں، سیاست کرتے ہیں، لوگوں کی سوچ کو اپنے تابع کرتے ہیں اور آخر میں بلاک بسٹر بناکر بے تحاشا پیسہ اکٹھا کرلیتے ہیں۔ ایک مسیحا سپرمین بناتے ہیں جو امریکی فوج کے ساتھ الائنس بناتا ہے، جس کے پاس غیر مرئی طاقتیں ہیں اور وہی مسیحا پھر امریکیوں کو جنگ میں سپورٹ دیتا ہے۔ پھر ایک سبز گوریلا ہلک کے نام سے پیدا کرتے ہیں جسے غصے کا بہت برا دکھاتے ہیں، وہ بھی امریکی فورس سے مل جاتا ہے۔ ہولوگرام ٹیکنالوجی اور دیگر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے استعمال سے بے انتہا ایکشن اور مخصوص پیسے سے ایک بلاک بسٹر فلم بنتی ہے۔ اس سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے اور ساتھ میں دیگر کاروبار بنتے ہیں، بچوں کے اسکول بیگز، جوتے، شرٹس، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کے تھیمز، نیز ہر جگہ سے کاروبار چل نکلتا ہے۔
9/11 کے بیانیہ سے تو ان کی نکل پڑی۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی آرمی اور ہالی ووڈ کسی دوسرے سیارے سے آنے والے مسیحا کے انتظار میں ہے، جو ان کے کہنے پر ان کی جنگیں لڑے گا۔ کتنی ہی پلاننگ سے کومک بیانیہ کو بڑھاوا دیا گیا جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ہم ایونجر اینڈ گیم کی طرف واپس آتے ہیں۔ پہلے ایک ایک کرکے سب ٹیم ممبرز کو الگ الگ فلموں میں متعارف کروایا گیا، پھر ان کو آپس میں لڑوایا گیا۔ کبھی یہ امریکن فورسز سے مل کر لڑتے ہیں اور کبھی ٹائم ٹریول کرکے ہٹلر کو روکنے کےلیے ونڈر وومن کو بھجوایا جاتا ہے، کبھی ورلڈ وار زی میں یروشلم پر زومبیز حملہ کرتے ہیں، جن پر اسرائیلی فوجی ہیلی کاپٹر بے پناہ گولیاں برساتا ہے۔ اب یہ کسے زومبیز کہہ رہے ہیں؟ جو ان کی خواہش کے مطابق گولیوں کے حقدار ہیں، جن کو مار کر یہ اپنے افسانوی بیانیہ میں اپنے احساس کی تسکین کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
جب انہوں نے دیکھا کہ9/11 کا بیانیہ اچھے دام میں بک رہا ہے تو مارول نے 500 ملین ڈالر کے بینک لون کے ساتھ ایک ذیلی کمپنی مارول اسٹوڈیو ہی بنا ڈالی، جس کے تحت ایونجر یعنی بدلہ لینے والے کا بیانیہ گھڑا گیا۔ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم بار بار کہتی ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل ہے جبکہ میڈیا میں سفید فام عیسائی دہشت گرد کا نام بار بار نہ لیا جائے۔ ایک قانون کو تبدیل کرنے کے بعد وہ تو امن کی فاختہ بن گئیں لیکن دوسری طرف بدلہ لینے والوں کا بیانیہ نت نئے طریقے سے لوگوں کی سوچ پر قابض بھی ہوتا ہے اور انہی لوگوں کی جیبوں سے پیسہ بھی نکلواتا ہے۔
اس 2019 کی کیپٹن امریکا کی فلم پر 356 ملین ڈالر لگا کر 2.8 بلین ڈالر کمائے گئے اور بیانیہ دیا گیا کہ کیپٹن امریکا اور اس کی بدلہ لینے والی ٹیم نے دشمنوں کو راکھ بناکر دنیا کو ایک بار پھر بچالیا۔ اس کے بعد کیپٹن امریکا ریٹائر ہوجاتا ہے اور اپنی شیلڈ کسی اور کو تھما دیتا ہے۔ وہ کوئی اور کون ہے؟
یہ اپنی ہالی ووڈ کی افسانوی دنیا میں خود ہی دنیا کے رکھوالے بنے پھرتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ تاریخ کہتی ہے کیپٹن امریکا نے جب جب بھی حقیقی جنگ لڑی، بالآخر اسے شکست ہوئی اور یہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ جیسے اب افغانستان سے خوار ہو کر بھاگ رہا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔