خود بھی کچھ کیجیے

ایک شہری کی حیثیت سے ہم نے اس ملک کی تعمیروترقی میں اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے۔


خرم علی راؤ September 17, 2019

سب حکومتوں کا قصور ہے بھائی ، کوئی بھی ادارہ اپنا کام درست طور پرکر ہی نہیں رہا جناب، ارے ہر جگہ بگاڑکرپشن کا راج ہے۔کسی کو ملک کاکوئی خیال نہیں ہے بھیا! سب اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔کچھ ٹھیک نہیں ہوگا خرابیاں ہمہ گیر نوعیت کی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ اور ان سے ملتے جلتے بیانیے اندرون اور بیرون ملک ہر دور میں زبان زد عام رہے ہیں اور حسب روایت آج بھی ہیں اور شاید آیندہ بھی رہیں گے۔

ان سب بیانیوں کے پوری طرح سے غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر اور اس بات سے بھی قطع نظرکہ ہر بات ہرجگہ کرنے کی نہیں ہوتی خصوصاً بیرونِ ملک کہ اس سے اپنے ملک کی بدنامی ہوا کرتی ہے۔ ایک سوال ضرور ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ یہ سب باتیں شد ومد سے کرنے والے، اس ملک کے عام شہری اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اس زوال و بگاڑکی ذمے داری سے کیا بالکل پاک ہیں؟ مطلب یہ کہ جن باتوں کا شکوہ اور شکایت کرتے کرتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں ،کیا ان باتوں کی ذمے داری صرف سابقہ اور حالیہ حکومتوں اور اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے یا بطور فرزندِ زمیں ہم بھی کہیں کچھ نہ کچھ تو قصور وارہیں یا نہیں؟

ایک شہری کی حیثیت سے ہم نے اس ملک کی تعمیروترقی میں اپنا کتنا حصہ ڈالا ہے۔ معاشرہ تو افراد کے مجموعے کا نام ہے تو اگر معاشرتی بگاڑ ہے تو لازما افراد میں بھی نقائص کا پایا جانا لابد ہے۔کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر حصہ بقدرجثہ کے مصداق بگاڑ، بد عنوانی اور برائی کے خلاف مزاحمت نہیں کرتے رکاوٹ نہیں بنتے، اگر اپنے ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہو جائے تو وہاں دوسرے ملک جاکر ہم ان دوسرے ممالک میں بڑے قانون کے پابند اور تمیزدار شہری بن جاتے ہیں۔

وہاں تو روڈ پر پچکاریاں مارنے اور تھوکنے کا، دیوار کے ساتھ بیٹھ کر پانی بنانے کے عمل کو انجام دینے کا ، وال چاکنگ کا ، نوپارکنگ میں دیدہ دلیری سے پارکنگ کرنے کا، کسی محکمے یا ادارے میں اپنا کام کرانے کے لیے عملے کے رکن کو مٹھائی کے پیسے دینے کا یا اس کا اشارہ دینے کا، سڑک پر ہاتھا پائی اورگالم گلوچ کرنے کا ، سگنل توڑنے کا ، ہم جہاں کھڑے ہوجائیں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے۔

اوئے کے فلمی ڈائیلاگ کے عملی مظاہرے کا یا قطارکو توڑنے کا ، خواتین کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مطابق مسلسل گھورنے کا ، جھوٹ بولنے کا ، بے ایمانی کرنے کا ، ملاوٹ کرنے کا، کم تولنے کا ، ہر جگہ چیخم دھاڑ مچا کرکچھ بھی بولنے کا ، اسٹیم ہارن بجا بجا کر کانوں اور اعصاب میں زہرگھولنے کا ،کوئی بھی چیزکھا پی کر اس کا ڈبہ کہیں بھی پھینک دینے کااور بھی ایسی ہی کئی باتوں کو کرنے کا تصور بھی نہیں کرتے لیکن وطن عزیزمیں قدم رکھتے ہی نہ جانے ہم کیوں اتنے لاڈ میں آجاتے ہیں کہ ان سب باتوں کو اپنا حق سمجھ کرکرنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی ملک کی تصویر بگاڑنے میں پیش پیش ہواکرتے ہیں۔

کیوں ہم محلہ اور علاقے کی سطح پر علاقے کے لوگوں پر مشتمل فلاح و بہبود کے کام کرنے والی رضاکارانہ کمیٹیاں اور انجمنیں نہیں بناتے کہ جب بھی سیوریج ، صحت وصفائی ، بجلی پانی کے مسائل جنم لیں تو یہ انجمنیں اور ان کے اراکین جاکر متعلقہ اداروں میں پورے علاقے کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کی کوششیں کریں اور اپنے علاقوں کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور بلدیاتی نمائندوں سے اپنی مشکلات کے ازالے کے لیے رابطے کریں۔

ہر محلے اور علاقے میں مختلف سطحوں اور حیثیتوں کے کم و بیش معمر پڑھے لکھے ریٹائرڈ اور معزز افراد، ملک صاحب،چوہدری صاحب، شیخ صاحب ، چشتی صاحب ،صدیقی صاحب ،ماسٹر صاحب وغیرہ نامی ہوا کرتے ہیں کیوں یہ معززین چند نوجوانوں کو ساتھ لے کر اس قسم کی صحت مندانہ اورفلاحی سرگرمیوں کا ڈول نہیں ڈالتے اور بیڑا نہیں اٹھاتے جس سے علاقے کا بھی فائدہ ہو اور نوجوانوں کی بھی تربیت ہو اور وقت کا بھی بہترین استعمال ہو۔

مانا کہ حکومتیں اپنے فرائض کسی بھی وجہ سے درست طور پر سر انجام نہیں دے پا رہی اور عوامی مسائل حل نہیں کر پا رہی ہیں۔ مانا کہ عوامی خدمت کے ادارے تقریبا سب ہی غیر فعال اور برباد ہوچکے ہیں اور بس مال بنانے میں مصروف ہیں،مانا کہ بگاڑ اور مسائل بہت ہیں اور روز افزوں ہیں تو پھرکیا ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرکر یا تنقید کے نشتر چلاکر یا کوسنے اور گالیاں دے کے یا رونا دھونا مچا کر یہ مسائل حل ہو جائیں گے؟ نہیں ! ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہمیں خود ہی نکلنا پڑے گا اور ہر شہری کو اپنا اپنا حصہ طوعا وکرھا ان مسئلوں اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے ذرا سی مشقت اٹھا کر ڈالنا ہی ہوگا۔ ورنہ پھر یہ بگاڑ بڑھتا ہی چلاجائے گا۔

کہتے ہیں کہ ایک بھرے پرے خوشنما باغ میں کچھ درختوں پر الوؤں کے چند خاندان کہیں سے آ کر بس گئے۔کچھ دنوں کے بعد باغ میں سیرکے لیے آنے جانے والوں کی نظر میں وہ سارے الو آ گئے۔ لوگوں نے باغ کے بوڑھے چوکیدارکو بتایا کہ جس گلشن میں الو آجائیں وہ ویران ہوجاتا ہے۔

انھیں یہاں سے ہٹاؤ۔اس چوکیدار نے وہاں سے چند میل دور رہائش پذیر باغ کے مالک تک اطلاع پہنچائی تو مالک نے کہا کہ تو خود انھیں ہٹادے تنخواہ کس بات کی لیتا ہے! چوکیدار بڑا تپا کہ ایک تو اتنی دور آ کر اطلاع دی اور اوپر سے بیگار بھگتنے کا کہہ دیا مالک نے، دفع الوقتی کے تحت اس نے مالک سے کہا کہ اچھا جناب ایک دو روز میں سیڑھی وغیرہ لاکر ہٹا دوں گا، یہ خبر ملنے پر الو کے پٹھے یعنی الوؤں کے بچے بہت ڈرگئے اور اپنے سردار سے بولے !چلو نکل چلتے ہیں ورنہ نقصان ہوجائے گا ، سردار الو نے بے فکری سے کہا کہ بیٹھے رہو کچھ نہیں ہوگا۔

کچھ دن گزرے تو سیرکے لیے آنے والوں نے براہ راست جا کر مالک سے کہا تو اس نے چوکیدار کو موٹی سی گالی دے کر کہا کہ بڈھا ہڈ حرام ہوگیا ہے کہتا ہے کہ کمر میں درد کی وجہ سے سیڑھی لگا کر درخت پر نہیں چڑھ سکتا اور پھر اپنے ایک دوست سے کہا کہ یار میں ذرا بزی ہو تو دوچار مزدور لے کر جانا اور ان الوؤں کو وہاں سے بھگا دینا۔ یہ خبر بھی الو فیملیز تک پہنچی بچے پھر پریشان ہوئے تو بڑے الو نے اسی بے فکری سے کہا کہ بیٹھے رہوکچھ نہیں ہوگا۔ دوست نے بھی سنی ان سنی کر دی توچند دن بعد تیسری مرتبہ خبر ملنے پر مالک نے اپنے بیٹے کو یہی کہا کہ تم کچھ لڑکوں کے ساتھ جا کر یہ کام کر دینا۔ یہ خبر بھی الو فیملی تک پہنچی کہ اب کے تو مالک نے اپنے بیٹے سے کہا ہے تو فیملی بہت پریشان ہوگئی کہ اب تو ہمارے گھر اجڑ ے ہی اجڑے مگر بڑا الو اسی طرح بے فکری سے بولا کہ بیٹھے رہوکچھ نہیں ہوگا۔

جب نوجوان بیٹے نے بھی اپنے مشاغل کی مصروفیت کے سبب ادھرتوجہ نہ دی اور مالک تک پھر شکایت پہنچی کہ الوؤں کے گھرانے بدستور براجمان ہیں تو مالک نے بیٹے کو خوب پھٹکارا اور شکایت لانے والے لوگوں سے کہا کہ پرسوں میں خود آ کر ان الوؤں کو بھگاتا ہوں۔ جب یہ خبر باغ میں الوؤں تک پہنچی تو سردار الو نے کہا کہ اب بوریا بستر باندھ لو اورکوچ کی تیاری کروکہ جس کا کام تھا اب وہ خود ہی آ رہا ہے۔ تو اس قدیم حکایت کا مورال یا سبق اتنا سا ہی ہے کہ کام جب ہی ہوتے ہیں جب خود ذمے داری اٹھائی جائے۔

محض دوسروں کوکہنے سننے سے اور پھٹکارنے سے کام نہیں انجام پایا کرتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |