سپریم کورٹ کا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس حکومت کی جانب سے نوٹی فکیشن پیش
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لوڈشیڈنگ بحران کے بارے میں از خود نوٹس کیس کی سماعت شروع کی تو چیئرمین نیپرا نے عدالت کو بتایا کہ تمام ڈسکوز نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے کی استدعا کی تھی مگر حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ بجلی کے واجبات کی مد میں 441 ارب روپے ابھی تک وصول نہیں ہوسکے ہیں کئی ادارے تاحال نادہندہ ہیں، آزاد کشمیر کے ذمہ 24 ارب، چاروں صوبوں کے ذمہ 74ارب روپے ، فاٹا کے 20 ارب جبکہ نجی شعبہ کے ذمہ 28ارب روپے واجب الادا ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہی حکومتی رٹ ہے کہ بل وصول نہیں ہورہے اور الٹا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، یہ اضافہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں پر ایک ناجائز اضافی بوجھ ہے جو نہیں ڈالا جانا چاہیے تھا،
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کریں، انہوں نے کچھ دیر بعد عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری پانی و بجلی کسی اجلاس میں ہیں اس لئے نوٹیفکیشن پیش نہیں کیاجاسکتا، اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ حالیہ اضافہ کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکومت کو اختیار ہی نہیں، اگر نوٹی فکیشن غلط ثابت ہوا تو عدالت اپنا عبوری حکم جاری کرے گی، بعد ازاں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے 30ستمبر کو نیپرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ نوٹیفکیشن حکومت کا نہیں اور نیپرا حکومت نہیں ہے اس لئے حکومتی نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے حکومتی نوٹی فکیشن طلب کیا ہے اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کردیئے ہیں۔