پولیو کا مرض رجعت پسند ذہن

سندھ میں ایک بچی کو پولیو کے قطرے دیے مگر وہ اس وائرس کے خلاف مدافعت نہیں کرسکی۔

tauceeph@gmail.com

BEIJING:
پولیو کے مرض پر قابو پانے کی کوشش نا کام ہوگئی۔ اس سال پورے ملک سے 62 بچے اپاہج ہوئے۔ عالمی ادارئہ صحت نے پاکستان میں پولیو پروگرام کو ناکام قرار دیدیا۔ (W.H.O)کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امسال پولیو کے سب سے زیادہ 46 کیس خیبر پختون خوا میں سامنے آئے۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف 6سال سے برسر اقتدار ہے۔

دستیاب اعداد وشمار کے مطابق سندھ میں 6 بچے اس مرض کا شکار ہوئے جب کہ پنجاب اور بلوچستان میں پانچ، پانچ بچے معذور ہوئے۔ گلگت اور آزاد کشمیر وہ خوش قسمت علاقے ہیں جو نہ اس ملک کے صوبوں میں شمار ہوتے ہیں نہ وہ مکمل خود مختار ہیں مگر وہاں پولیو کا مرض کسی بچے کو متاثر نہ کرسکا۔ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی دو بچے پولیو کے وائرس کی نذر ہوئے۔

کراچی میں آباد ایک افغان اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دو شہریوں کی بچیاں پولیوکے وائرس سے متاثر ہوئیں۔ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی نگرانی کرنے والے افسران نے بتایا کہ ان متاثرہ بچیوں کے خاندانوں نے بچیوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکارکیا تھا۔

سندھ میں ایک بچی کو پولیو کے قطرے دیے مگر وہ اس وائرس کے خلاف مدافعت نہیں کرسکی۔ ڈاکٹروں نے اس کیس پر تحقیق کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ بچی انتہائی لاغر اور Low on immunity کا شکار ہے۔ اس بچی کا جسم پولیو کے قطرے پینے کے باوجود فضا میں یا گٹر لائنوں میں موجود وائرس کو ناکا م نہ بناسکا ۔ پولیو کے سب سے زیادہ کیس خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں ہوتے ہیں۔

قبائلی علاقوں سے متصل افغانستان میں یہ مرض موجود ہے۔ پولیو کے قطرے نہ پلانے کا معاملہ انسانی ذہن کے رجعت پسندانہ رویے سے منسلک ہے۔گزشتہ مہینے بنوں میں تاجروں نے حکومت کے عائد کردہ ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا۔ ان تاجروں کی انجمن کے عہدیداروں نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ احتجاجاً بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائیں گے۔

پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے خلاف اتنی زیادہ نفرت ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے والے عملے پر حملوں میں شہید ہونے والے کارکن جن میں خواتین بھی شامل ہیں دو ہندسوں سے تجاوز کرگئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پولیو کی ویکسین تو عالمی ادارہ صحت فراہم کرتا ہے مگر اس مہم میں شریک عملے کی سیکیورٹی پر تعینات پولیس اور رینجرز پر آنے والے اخراجات پر حکومت کے بجٹ کا خاصا حصہ صرف ہوتا ہے۔

پاکستان میں سائنسی طرز فکر کی اہمیت پر توجہ دینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مزاحمت افغانستان میں ہونے والے واقعات سے منسلک ہے۔ جب امریکا کے صدر ریگن اور تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے سی آئی اے کے منصوبے کے تحت افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کا پروجیکٹ شروع کیا تو اس پروجیکٹ میں جہاد کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا، یوں افغانوں کے علاوہ عرب ممالک کے باشندوں کو بھی اس پروجیکٹ میں شامل کرنے کے لیے پاکستان بلایا گیا۔


یہ افغان مجاہدین امریکی امداد سے افغانستان کی حکومت کے خلا ف لڑے۔ پورے ملک میں جہادی مدرسوں کا جال بچھادیا گیا۔ اگرچہ یہ مجاہدین امریکا کے تیار کردہ جدید ہتھیاروں سے لڑائی لڑرہے تھے مگر ذہنی طور پر یہ اس خطے کو ہزاروں سال پیچھے لے جانا چاہتے تھے۔ یوں افغان مجاہدین کا دور آیا۔ اس دور میں نہ صرف افغانستان میں بلکہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں نوزائیدہ بچوں کو بنیادی E.P.I کے پروگرام کے تحت انجکشن لگانے سے گریزکیا جانے لگا۔

طالبان کی حکومت میں خواتین اور بچوں کی اہمیت نہیں تھی۔ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔ جب امریکا نے اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعہ ہیپاٹائیٹس کے مرض کا پتہ چلانے کے نام پر ایبٹ آباد میں خون کے نمونے جمع کرنے کی مہم شروع کی اور اسامہ امریکی مرین کمانڈوز کے حملے میں ہلاک ہوئے تو پھر رجعت پسندوں کو ایک نیا ہتھیار مل گیا۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشور، استاد اور صحافی بھی پولیو کے قطرے کی مہم کو امریکا کی سازش سمجھتے تھے اور بعض اب بھی اس خیال پر یقین رکھتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتی ہے فوری طور پر منفی پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے۔ چند ماہ قبل پشاور میں یہ منظم مہم چلائی گئی کہ اسکولو ںکے بچے قطرے استعمال کرنے سے بیمار ہوئے۔ مہم چلانے والے عناصر نے جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہتھیار سوشل میڈیا کے ذریعہ جعلی ویڈیوز وائرل کیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کی مشینری دیر سے متحرک ہوئی اور جعل سازوں کوگرفتار کیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پولیو کے قطرے نہ پلانے والے والدین کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے میں فوجداری مقدمہ نہیں بنے گا بلکہ لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے گا۔

گزشتہ 19 برسوں کے دوران اس مسئلے پر کافی تحقیق ہوئی۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر مذہبی تنظیموں کے علماء سے رابطہ کیا گیا۔ ان علماء نے فتویٰ جاری کیے کہ پولیو کے قطرے پلانے جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی سماجی تنظیم الخدمت پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلاتی ہے۔ مگر یہ مہم صرف شہروں تک محدود ہے۔ قبائلی علاقے کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے منتخب رہنما اسلام آباد میں ٹی وی پر بیٹھ کر اس مہم کی حمایت کرتے ہیں مگر اپنے آبائی علاقوں میں اپنی تقاریر میں اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اب تو بعض اینکر پرسن طالبان کے نظام کی تعریفیں کررہے ہیں۔

اس سال کے شروع میں تحریک انصاف کے اقلیتی رکن رمیش کمار نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ دو وفاقی وزراء نے اپنے ساتھی کی اس تجویز کی شدید مذمت کی۔ تمام مذہبی جماعتیں اس بل کے خلاف متحد ہوگئیں، یوں قومی اسمبلی اور سینیٹ کمیٹی نے اس بل کے مسودے کو مسترد کردیا۔ کم سن بچیوں کی شادی کا مسئلہ لاغر بچیوں کی پیدائش سے منسلک ہے۔ لاغر بچے کو پیدا ہوتے ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، یوں پولیو کے قطرے پینے کے باوجود انھیں پیروں کی معذوری سے نہیں بچا سکتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا تعلق رجعت پسندی سے ہے۔ رجعت پسندی پاکستانی ریاست کا ہتھیار تھا۔

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کی قدیم آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور ساری زندگی برطانیہ کی مغربی زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر انھوں نے کبھی رجعت پسندانہ ذہن کے خلاف جدوجہد نہیں کی۔ یہ رجعت پسندانہ ذہن صدیوں سے اس خطے میں موجود ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی اکثریت جدید تعلیم اور سائنس سے اپنی زندگیوں کو بہتر بناتی ہے مگر سائنسی بنیادوں پر اپنی فکر کو تبدیل نہیں کرتی۔ مدرسوں کے نصاب کا تو ذکر ہی کیا اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ تک رجعت پسندی پر فخرکرتے ہیں۔

آج بھی بہت سے طالب علموں اور اساتذہ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ کے بنائے ہوئے جدید بحری جہاز ٹائیٹینک جو ہندوستان آیا تھا اور اس جہاز سے ایک رومانی داستان منسلک ہے ا س کی تباہی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو یہ فورا جواب دیتے ہیں کہ برطانیہ والے اس عظیم جہاز کی بناء پر غرور اور تکبر کا شکار ہوئے تھے ، یوں اﷲ تعالیٰ نے اس جہاز کو تباہ کردیا۔ جب تک ریاست سائنسی ذہن کی اہمیت کو محسوس نہیں کرے گی، پولیو کے قطرے پلانے کی مہم ناکام ہی رہے گی، زچہ وبچہ کی ہلاکت کی شرح میں دنیا کا کوئی ملک ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔
Load Next Story