میاں صاحب اور اُن کے ساتھیوں کی آشفتہ سری

ماضی میں بھی میاں صاحب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

mnoorani08@gmail.com

میاں نواز شریف کو جیل گئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ سزا انھیں غیر موجودگی میں سنائی گئی۔

وہ چاہتے تولندن سے واپس ہی نہ آتے۔ اپنی شریک حیات کی بیماری کا اُن کے پاس جائز اورحقیقی بہانہ موجود تھا لیکن انھوں نے انتہائی محبت کرنے والی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے بلکہ اپنے ساتھ جان سے زیادہ عزیز بیٹی مریم کو بھی لے آئے۔ سزا دلوانے والوں نے سوچا تھا کہ میاں صاحب قید و بند کی صعوبتیں زیادہ دن برداشت نہیں کر پائیں گے اور کسی ڈیل پر راضی ہو جائیں گے اور یوں سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو جائیں گے، لیکن اُن کی ساری توقعات عبث ثابت ہوئیں۔ میاں صاحب نے سزا کو ایک امتحان کے طور پر قبول کر لیا۔ اب وہ قید تنہائی کے بھی عادی ہو چکے ہیں۔

انھیں یقین ہے کہ اگر انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تو خدا انھیں بے آسرا نہیں چھوڑے گا۔ میاں صاحب کو اگر کسی ڈیل پر دستخط کرنا ہوتے تو وہ لندن سے واپس ہی نہ آتے۔ انھیں لندن سے زبردستی کوئی واپس لابھی نہیں سکتا تھا، وہ کوئی نئے نئے سیاستداں نہیں بنے تھے۔ ڈیل اور این آر او کی باتیں صرف اپنی ناکامی کو چھپانے کی غرض سے کی جا رہی ہیں۔ مخالفین اپنی خجالت اور آزردگی کو چھپانے کے لیے ایسے بیان داغ رہے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ کہیں وقت بدل نہ جائے اور میاں صاحب عدالتوں کے ذریعے فتح مند اور سرخرو نہ ہو جائیں۔

اُن کے خلاف کیے گئے فیصلوں کا شمار بھی ہماری عدالتی تاریخ کے اُن فیصلوں میں ہوتا ہے جنھیں ہم کبھی اپنی عدلیہ کے ماتھے کا جھومر قرار نہیں دے سکتے۔ جسٹس منیرکی عدالت سے لے کر آج تک ہونے والے کئی بڑے اور اہم فیصلے وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف اپنی اہمیت وافادیت کھوتے رہے ہیں بلکہ بعد ازاں اُن کے تحریرکرنے والوں نے خود ہی انھیں عدل وانصاف کے تقاضوں کے برخلاف اور متصادم قرار دیدیا۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کسی کو پھانسی کے تختہ پرلٹکا دیا،کسی کو زبردستی جلا وطن اورکسی کو اڈیالہ اورکوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا۔

ماضی میں بھی میاں صاحب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں صدر مملکت غلام اسحاق خان کی آٹھویں ترمیم 58-2b کاشکار ہوئے۔ پھر1999ء میں اپنے ہی نامزد کردہ آرمی چیف سے اختلافات کے باعث نہ صرف محروم اقتدار ہوئے بلکہ زبردستی جلاوطن بھی کیے گئے۔ تیسری بار بالکل ایک نئے طریقہ کارکے ذریعے ایوان اقتدار سے بیدخل کیے گئے بلکہ مختلف الزامات کے تحت سات سال کی قید کے مستحق بھی قرار پائے۔ اِس بار وہ تنہا اِن سخت گیر مشکلات کا شکار نہیں ہوئے بلکہ اُن کے کئی مخلص اور وفادار ساتھی بھی اُن کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں نیب کے قید میں دن گزار رہے ہیں۔

نیب یا قومی احتساب بیورو ہمارے یہاں سیاسی مخالفین کو پریشان کرنے اور اذیتیں دینے کے کام میں ہمیشہ استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی جانب سے کی جانے والی تمام کارروائیاںکبھی بھی معتبر اورمقدم سمجھی نہیں گئیں۔ البتہ اُس کے پاس کسی کو مجرم ثابت کرنے سے پہلے ہی غیر معینہ مدت کے لیے قید میں ڈالنے کے بے شمار اختیارات موجود ہیں اور وہ اپنے اِن اختیارات آج کل بے دریغ استعمال بھی کر رہا ہے۔


اِنہی اختیارات کے تحت اُس نے اپوزیشن کے کئی رہنماؤں کو کئی کئی مہینوں سے بندکیا ہوا ہے۔ جن میں میاں صاحب سے عہد وفا نبھانے والے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، مفتاح اسمعٰیل اور دیگر بہت سے وفادار لوگ جن پر آج کئی مہینے گزرجانے کے باوجود کوئی الزام درست اور سچ ثابت نہیں ہوا۔ نیب ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے لیکن اب تک کسی کو مجرم ثابت نہیں کر پایا۔

مسلم لیگ کے جس جس رہنما نے اِس ملک کی تھوڑی بہت خدمت کی ہے وہ سارے کے سارے آج نیب زد ہ ہیں۔ اِن میں شاہد خاقان عباسی تو وہ مرد آہن ہیں جنھوں نے خود اپنے طور پر نیب کو الزامات لگانے کی بجائے گرفتارکرنے کا کہا اور آج تک نہ کوئی ضمانت کی درخواست دی ہے اور نہ اپنے لیے کوئی وکیل مقرر کیا ہے۔

وہ خود ہی اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں اور نیب کی طرف سے 14 روز کے ریمانڈکی استدعا کے جواب میں وہ عدالت سے 90 دنوں کے ریمانڈ جاری کرنے کی درخواست بھی کرتے ہیں تاکہ وہ نیب والوں کو ایک ساتھ سارا مسئلہ سمجھا سکیں۔ اُن کی نیک نیتی اور ایمانداری کی اِس سے بڑی اور کیامثال ہو گی کہ وہ ہنسی خوشی نیب کی قید برداشت کر رہے ہیں۔

تاریخ میں ایسے نڈر اور بے باک لوگ کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے پاس ایسے کئی گوہر انوار اور پیکر عزم و استقلال موجود ہیں۔ جنھیں اپنی شرافت اور ایمانداری کا بھرپور یقین ہے کہ انھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ حالات کی سنگینیاں اور نیب کی سختیاں انھیں ثابت قدمی سے روک نہیں سکتیں۔ نیب کے کارندے گزشتہ ایک برس سے اُن کے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک کرپشن اور مالی بد عنوانی کا کوئی ایک ثبوت بھی نہیں مل سکا۔ گرفتار کرنے والے پریشان ہیں کہ کیا کریں۔ میاں صاحب اور اُن کے ساتھیوں کے عزم و استقلال کے آگے اب خود اُن کے اپنے اعصاب جواب دینے لگے ہیں اور وہ انھیں چھوڑنے کا کوئی بہانہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ اِسی لیے وہ ڈیل کی جھوٹی باتیں لوگوں میں پھیلارہے ہیں۔

مسلم لیگ نون نے اپنے آخری دور میں تعمیر و ترقی کے کئی اہم منصوبے شروع کیے۔ ملک بھر میںسڑکوں، شاہراہوں کے جال بچھانے سے لے کر توانائی اور بجلی کے بڑے بڑے منصوبے اپنے اِس مختصر دور میں مکمل کیے لیکن اب تک کسی ایک منصوبے میں سے بدعنوانی اور کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں مل پائے۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں نے اُن کے خلاف بے بنیاد اورجھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔ لیکن یاد رکھا جائے حقیقت ایک دن ضرور عیاں ہوکر رہتی ہے۔ متواترجھوٹ بولنے اور مسلسل دروغ گوئی سے کچھ دن کے لیے عوام الناس کو یا خود اپنے آپ کو دھوکہ تو ضرور دیا جاسکتا ہے لیکن انھیں قانون اور عدل و انصاف کی چھلنی سے گزارا نہیں جا سکتا۔

میاں صاحب کی خاموشی اور ثابت قدمی بتا رہی ہے کہ انھوں نے جبر و ظلم و ستم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے۔ وہ اپنی قید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان کے طور پر قبول کر لیں گے لیکن کسی این آر اور یا خفیہ ڈیل سے رہائی پاکر زندگی بھر کی نیک نامی پر پانی نہیں پھیریں گے۔ اُن کا عزم بتا رہا ہے کہ وہ سرخرو ہونگے اور وطن سے محبت میں اپنی خصلت سے باز نہیں آئین گے۔ خدا نے اگر انھیں پھر موقع دیا تو ملک وقوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم کے آگے کبھی سرنگوں نہیں ہونگے۔ اُن کی یہ دیوانگی اور شوریدہ سری اُن کے آخری سانسوں تک چلے گی۔
Load Next Story