2دھماکوں سے طالبان کے اظہارلا تعلقی نےمذاکرات کی راہ دوبارہ ہموارکردی

آخری3میں سے2 دھماکوں سےطالبان کےاظہار لاتعلقی نےمذاکرات کےحوالے سےبند ہوتےہوئےدروازوں میں کھڑکی کھول دی ہے۔

حکومت کیجانب سے بلائی گئی اے پی سی کے تحت طالبان سےمذاکرات کا فائدہ لازمی یہ ہوگا کہ وہ گروپ جو طالبان کے نام پر کاروائیاں کررہے ہیں وہ خود بخود سامنے آجائیں گے۔۔فوٹو: فائل

پشاور کے ایک چرچ میں ہونے والے دھماکے کے بعد حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہیں بند ہوتی دکھائی دے رہی تھیں۔

جبکہ رہی سہی کسر اس کے بعد ہونے والے 2 دھماکوں نے پوری کردی تاہم 3میں سے 2 دھماکوں سے طالبان کے اظہار لاتعلقی نے مذاکرات کے حوالے سے بند ہوتے ہوئے دروازوں میں کھڑکی ضرور کھول دی ہے اور اسی کھلی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی کے فیصلوں کے تحت طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز فوری طور پر کیا جائے جس کا فائدہ لازمی طور پر یہ ہوگا کہ وہ گروپ جو طالبان کے نام پر کاروائیاں کررہے ہیں وہ خود بخود آشکارا ہوجائیں۔

جن کے خلاف حکومت کے سکیورٹی ادارے تو کاروائی کریں گے ہی طالبان کی جانب سے بھی ان کے خلاف کاروائی کا امکان ہوگا ۔ یہی بات وزیراعظم کے وطن واپس آنے کے بعد اب آگے بڑھے گی جس کے حوالے سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت اور سکیورٹی ادارے کسی بھی قسم کی کاروائی سے قبل بات چیت اور مذاکرات کا آپشن ضرور استعمال کریں گے تاکہ اس حوالے سے کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور یہی وجہ ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان بات چیت کے لیے میدان ہموار کرنے کی غرض سے ٹریک ٹو کے ذریعے معاملات آگے بڑھائے جا رہے ہیں جن کے بعد ہی باقاعدہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگا۔

طالبان کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے سب سے اہم مرحلہ دھاگے کا سرا تلاش کرنا ہے کہ بات چیت کہاں سے شروع کی جائے اور یہ کام بلاشبہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو قبائلی رسوم رواج سے واقف ہوں کیونکہ یہ مذاکرات جن کے ساتھ ہونے جارہے ہیں وہ سب قبائل ہی سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے رسوم ورواج کے مطابق ہی بات چیت کرنے میں سہولت محسوس کریں گے اور اس حوالے سے تاحال حکومت کا کوئی باقاعدہ میکنزم نظر نہیں آرہا ،گو کہ یہ کہاجا رہا ہے کہ حکومت ، طالبان کے ساتھ بات چیت کا ماحول بنانے کے لیے جن کو استعمال کر رہی ہے ۔

ان میں کچھ پرانے جہادی ،کچھ علماء کرام اور کچھ قبائلی مشران شامل ہیں، اگر حکومت ان ہی کے ذریعے معاملات کو آگے بڑھانا چاہتی ہے تو یہ بھی بہتر ہے تاہم مناسب یہی رہے گا کہ حکومت اس طریقہ کار کی جانب جائے جس پر گزشتہ حکومت میں جمعیت علماء اسلام(ف)کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں اتفاق کیا گیا تھا اور وہ تھا وہ قبائلی جرگہ جس کی تشکیل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کی تھی جس پر اعتماد کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی شامل تھے اور مذکورہ جرگہ نے اپنا کام بھی شروع کردیا تھا۔




جسے یہ کام اس لیے جاری رکھنا چاہیے تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود گورنر خیبرپختونخوا بھی اپنی جگہ پر موجود تھے اور صدر پاکستان بھی ، اور یہی وہ دو اتھارٹیز ہیں جو قبائلی علاقہ جات کے تمام معاملات کو کنٹرول کرتی ہیں تاہم اس وقت یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھنے نہیں دیا گیا ،کیوں نہیں بڑھنے دیا گیا ؟اس کا جواب بھی مرکزی حکومت کو ضرور لینا اور قوم کے سامنے پیش کرنا چاہیے کیونکہ اس تاخیر کی وجہ سے جو خونریزی ہوئی ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے گی؟

موجودہ حالات میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ حکومت کے پاس ضائع کرنے کے لیے مزید وقت نہیں ہے اس لیے کہ اگر مزید وقت ضائع کیاجاتا ہے تو اس کا نتیجہ مزید نقصان ہی کی صورت میں نکلے گا اس لیے اب نہ صرف مرکز بلکہ خیبرپختونخوا حکومت کو بھی پہل کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ جو بھی نقصان ہو رہا ہے وہ خیبرپختونخوا میں ہو رہا ہے اس لیے صوبائی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات اور قیام امن کے معاملات مرکز پر ڈالتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ۔

اسے پہل کرنا ہوگی وہ خود مرکز سے بات کرے تا کہ بلاتاخیر قیام امن کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں اور اگر مرکزی حکومت طالبان کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات کا عمل شررع کرنے کا ارادہ بناتی ہے تو اس کے لیے اسے فوری طور پر میکنزم بھی چاہیے ہوگا جو اس قبائلی جرگہ کی صورت میں موجود ہے جو گزشتہ حکومت میں تشکیل دیا گیا تھا ،اس جرگہ کے ذریعے بات چیت کو آگے بڑھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک جانب تو یہ طالبان کے ساتھ ان کے ماحول میں جاکر ان کے حالات کے مطابق بات چیت کرے گا اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن جس شدومد کے ساتھ مذاکرات اور مذکورہ قبائلی جرگہ کے استعمال کی باتیں کر رہے ہیں وہ بھی واضح ہوجائیں گی۔

تاہم اس کے لیے حکومت او ر اس کے اداروں کو مخلصانہ طور پر اس جرگہ یا کوئی بھی دوسرے اپنائے جانے والے طریقہ کار کی پشت پر کھڑا ہونا پڑے گا تبھی معاملات آگے بڑھ پائیں گے کیونکہ اب بھی یہ تاثر بہرکیف موجود ہے کہ حکومت او ر اس کے ادارے ایک صف میں نہیں کھڑے ہوئے بلکہ الگ سمتوں میں چل رہے ہیں ا س لیے اس تاثر کے خاتمے اور حقیقی امن کے قیام کے لیے انھیں ایک ہی سمت کا رخ کرنا پڑے گا بصورت دیگر اگر کوئی دوسرا فیصلہ مقصود ہو تو وہ بھی فوری طور پر ہونا چاہیے تاکہ دہشت گردی کی نئی لہر کو روکا جاسکے، البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر حکومت اور اس کے ادارے فوجی آپریشن کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے لیے انھیں خطے کے حالات اور اپنی معاشی صورت حال کو دیکھنا پڑے گا جو نہایت واضح ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر اعظم ہوتی نے اپنے برادرنسبتی اور پارٹی کے سابق صدر اسفندیارولی خان کے خلاف خط لکھ کر ہلچل پیدا کردی ہے، مذکورہ خط کے بعد امکان یہ ظاہر کیاجا رہا تھا کہ اے این پی کے وہ سارے رہنما اور ورکر اعظم ہوتی کے گرد اکھٹے ہوجائیں گے جو اے این پی کے دور اقتدار سے کسی ایک وجہ یا دوسری وجہ کی بناء پر ناراض چلے آرہے تھے تاہم اعظم ہوتی کی اس کوشش کو اسی طرح پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جس طرح اس سے قبل بیگم نسیم ولی خان نے اس سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بعد ولی باغ چارسدہ کے دروازے کھولتے ہوئے پارٹی کے دیرینہ کارکنوں اور رہنمائوں کو ان کے ساتھ ا کھٹے ہونے کی دعوت دی تھی لیکن بات آگے نہ بڑھ سکی کیونکہ پارٹی رہنما اور ورکر بھی ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔

وہ جانتے ہیں کہ یہ 2005 ء نہیں کہ جب پارٹی کے سارے رہنمائوں نے اسفندیارولی خان کے گرد اکھٹے ہوکر اس وقت کی پارٹی کی صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان اور جنرل سیکرٹری فرید طوفان کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا ، اس وقت کی صورت حال یہ تھی کہ پارٹی کے رہبر تحریک خان عبدالولی خان شدید علیل تھے جبکہ بیگم نسیم ولی خان اور فرید طوفان کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے کئی رہنما اور ورکر ناراض تھے۔

جس کا اس وقت فائد ہ اٹھایا گیا تھا تاہم آج ویسی صورت حال اس لیے نہیں ہے کہ اسفندیارولی خان خود میدان میں بھرپور طریقہ سے موجود ہیں اور کسی بھی بغاوت کا توڑ کرنے اور سخت سے سخت بات کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں اس لیے ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے کسی نے بھی اعظم ہوتی کی آواز پر لبیک نہیں کہا، حتیٰ کہ ان کے اپنے صاحبزادے امیر حیدر ہوتی نے بھی حسب توقع اپنے والد کی بجائے اسفندیارولی خان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ان کی نظر اپنے سیاسی کیرئیر پر ہے۔
Load Next Story