ٹی وی والے تماشے نہ لگائیں تو کیا کریں
نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان ہونے والی ملاقات کو دونوں ممالک کے حکام نے نے’’مفید اور ضروری‘‘ قرار دیا۔
MULTAN:
مارشل میک لوہان جدید دُنیا کا وہ پہلا مفکر تھا جس نے ساری زندگی ابلاغ اور اس کے ذرایع کو سمجھنے میں صرف کر دی۔ اس کا یہ خیال بھی تھا کہ ٹی وی نوٹنکی میں دکھائے جانے والے تماشوں کو ایک چھوٹی اسکرین کے ذریعے آپ کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ایجاد ہوا ہے۔ اس سے کسی سنجیدہ اور گمبھیر مسئلے کی بردبار تفہیم کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ ہم لوگوں کو مگر خود کو عقلِ کُل ثابت کرنے کی بیماری ہے۔ ضرورت سے زیادہ جذباتیت کا مرض بھی لاحق ہے۔ اپنی کہی بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور کوئی اس سے اختلاف کر بیٹھے تو اپنی توہین سمجھتے ہوئے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ پاکستان میں فیس بک اور ٹویٹر پر ہمہ وقت متحرک لوگوں کا بغور مشاہدہ آپ کو میری یہ بات پوری طرح سمجھا دے گا۔
صحافی اور سیاست دان میں لیکن بہت فرق نظر آنا چاہیے۔ نواز شریف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ملاقات سے پہلے دونوں ملکوں کے ٹی وی کے لیے کام کرنے والے بڑے ہی مشہور لوگ اگر اس بات میں اُلجھ گئے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے ہم منصب کو ایک بوڑھی دیہاتی عورت قرار دیا یا نہیں تو ان کا رچایا ''بازیچۂ اطفال'' سمجھا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی جو ''دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کا وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں، اگر اسی قضیے کو لے کر دہلی کے ایک جلسہ عام میں ہمارے عمران خان کی طرح ''اوئے نواز شریف'' والی تقریر کر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ حیرت من موہن سنگھ کی اس احتیاط اور سوچی سمجھی سرد مہری پر بھی جو انھوں نے نواز شریف سے ملاقات کے ابتدائی مراحل میں ہم سب کو دکھائی۔
دونوںکے درمیان ہونے والی اس ملاقات کی تصویری جھلکیاں میرے اس کالم کا موضوع ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ ملاقات 70 منٹ تک جاری رہی۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایک گھنٹے سے زیادہ والی اس بات چیت میں کافی اہم موضوعات پر سوال جواب اور شکوہ شکایات ہوئے ہوں گے۔ اس کے بعد کسی ایک بات پر تو اتفاق ہو گیا ہو گا۔ وہ بات جس پر ان دونوں نے اتفاق کیا چاہے ایک صفحہ کا سہی کسی ''مشترکہ بیان'' کی صورت دُنیا کے سامنے لائی جا سکتی تھی۔ ایسا اعلامیہ نہیں آیا۔ جب کوئی مشترکہ اعلان نہ ہوتو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ مشترکہ پریس کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔ وہ بھی نہ ہوئی۔ مشترکہ پریس کانفرنس نہ ہوتو وزارتِ خارجہ کا کوئی افسر پاکستان اور بھارت کی طرف سے اپنے اپنے صحافیوں کو دو وزرائے اعظموں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں بریف کر دیتا ہے۔ ہم لوگ ان کی باتوں کو ''باوثوق ذرایع'' کا حوالہ دے کر آپ کو بتا دیتے ہیں۔ اس دفعہ وہ بھی نہیں ہوا۔
ملاقات کے فوراََ بعد بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی شیو شنکر مینن نے خود کو دونوں ممالک کے صحافیوں کے سامنے براہِ راست دکھائی جانے والی نشریات کے لیے پیش کر دیا۔ مینن سفارت کار ابنِ سفارتکار ہیں۔ ان کے والد برطانوی ہند کی نمایندگی آج کل کے سنکیانگ میں کیا کرتے تھے۔ موصوف خود بھی چین میں بھارت کے سفیر رہے ہیں۔ چار مختلف لہجوں میں چینی زبان بول لیتے ہیں۔ چین کے بعد وہ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر رہے۔ یہاں کے بعد وہاں کی وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری اور وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب کئی برسوں سے بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی۔ مختصر ترین لفظوں میں نپی تلی بات کرتے ہیں۔ ان سے Breaking News والا سودا ملنا تقریباََ ناممکن ہے۔ ''اصل بات'' مگر وہ کہہ جاتے ہیں۔
نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کو انھوں نے ''مفید اور ضروری'' قرار دیا۔ Usefull کا Necessary کے ساتھ یہ امتزاج کافی کچھ کہہ گیا۔ مگر ان سے سوالات کرنے والے دوستوں نے اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ بالآخر وہ یہ بات تقریباََ صاف لفظوں میں کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے مذاکرات کا سلسلہ اسی صورت دوبارہ شروع ہو گا اگر LOC پر کشیدگی کے واقعات نہ ہونے کا کوئی واضح طریقہ بن جائے۔ دوسری شرط ممبئی کے واقعات کی بھارت کی نظر میں ذمے دار افراد کی گرفتاری اور چارہ جوئی وغیرہ ہے۔
مینن کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری جلیل عباس جیلانی نے الگ سے سوالات وغیرہ لیے۔ انھوں نے بھی بھارت میں طویل عرصہ گزارا ہے۔ ٹھنڈے آدمی ہیں۔ ماحول خراب نہیں ہونے دیتے۔ تقریباََ مینن کی بتائی باتوں کو ذرا مختلف انداز میں دہرا دیا۔ جیلانی اور مینن نے جو کچھ کہا اس کا بھرپور تجزیہ میرے جیسے عام رپورٹر کے بس کی بات نہیں۔ جو بات میری موٹی عقل میں فوراََ آئی وہ صرف اتنی ہے کہ بھارت یا پاکستان کی طرف سے کسی ''سیاستدان'' کو نیویارک میں نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں صحافیوں سے سوالات لینے کی جرأت نہ ہوئی۔ دونوں ممالک کی طرف سے یہ فریضہ وزارتِ خارجہ کے ''افسروں'' نے سر انجام دیا۔
دونوں سفارتکاروں نے اس ملاقات کو ''مفید'' ٹھہرانے کے لیے سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ پاکستانی اور بھارتی وزیر اعظموں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنر (DGMOs) ایک دوسرے سے مل کر کوئی ایسا بندوبست یا طریقہ کار دریافت کریں گے جو LOC پر متعین افواج کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والے واقعات کا تدارک کر سکے۔ مجھے اس فیصلے کو سن کر فوری طور پر یہ محسوس ہوا کہ بھارت کے من موہن اور پاکستان کے نواز شریف جیسے انتہائی تجربہ کار وزیر اعظموں نے جو کام خود کرنا تھا اپنے اپنے DGMOs کے حوالے یا آج کے زمانے میں جسے Outsource کہا جاتا ہے، کر دیا ہے۔ 2003 سے دونوں ممالک میں DGMOs کے حوالے سے ایسا بندوبست پہلے سے موجود ہے۔ یہ کچھ دن پہلے تک بڑا موثر بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ اپنی افادیت بتدریج کیوں کھو بیٹھا ہے اس سوال کا جواب اور اس ضمن میں سامنے آنے والی مشکلات کا تدارک پاکستان اور بھارت کے وزیر اعظموں کی ذمے داری تھی۔ دونوں نے نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اپنی یہ ذمے داری پوری کرنا تو دور کی بات ہے اس کا احساس تک نہیں کیا ہے۔ ٹی وی والے اب تماشے نہ لگائیں تو کیا کریں؟
مارشل میک لوہان جدید دُنیا کا وہ پہلا مفکر تھا جس نے ساری زندگی ابلاغ اور اس کے ذرایع کو سمجھنے میں صرف کر دی۔ اس کا یہ خیال بھی تھا کہ ٹی وی نوٹنکی میں دکھائے جانے والے تماشوں کو ایک چھوٹی اسکرین کے ذریعے آپ کے گھروں تک پہنچانے کے لیے ایجاد ہوا ہے۔ اس سے کسی سنجیدہ اور گمبھیر مسئلے کی بردبار تفہیم کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ ہم لوگوں کو مگر خود کو عقلِ کُل ثابت کرنے کی بیماری ہے۔ ضرورت سے زیادہ جذباتیت کا مرض بھی لاحق ہے۔ اپنی کہی بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور کوئی اس سے اختلاف کر بیٹھے تو اپنی توہین سمجھتے ہوئے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ پاکستان میں فیس بک اور ٹویٹر پر ہمہ وقت متحرک لوگوں کا بغور مشاہدہ آپ کو میری یہ بات پوری طرح سمجھا دے گا۔
صحافی اور سیاست دان میں لیکن بہت فرق نظر آنا چاہیے۔ نواز شریف اور من موہن سنگھ کی نیویارک میں ملاقات سے پہلے دونوں ملکوں کے ٹی وی کے لیے کام کرنے والے بڑے ہی مشہور لوگ اگر اس بات میں اُلجھ گئے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے ہم منصب کو ایک بوڑھی دیہاتی عورت قرار دیا یا نہیں تو ان کا رچایا ''بازیچۂ اطفال'' سمجھا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی جو ''دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت'' کا وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں، اگر اسی قضیے کو لے کر دہلی کے ایک جلسہ عام میں ہمارے عمران خان کی طرح ''اوئے نواز شریف'' والی تقریر کر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ حیرت من موہن سنگھ کی اس احتیاط اور سوچی سمجھی سرد مہری پر بھی جو انھوں نے نواز شریف سے ملاقات کے ابتدائی مراحل میں ہم سب کو دکھائی۔
دونوںکے درمیان ہونے والی اس ملاقات کی تصویری جھلکیاں میرے اس کالم کا موضوع ہرگز نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یہ ملاقات 70 منٹ تک جاری رہی۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایک گھنٹے سے زیادہ والی اس بات چیت میں کافی اہم موضوعات پر سوال جواب اور شکوہ شکایات ہوئے ہوں گے۔ اس کے بعد کسی ایک بات پر تو اتفاق ہو گیا ہو گا۔ وہ بات جس پر ان دونوں نے اتفاق کیا چاہے ایک صفحہ کا سہی کسی ''مشترکہ بیان'' کی صورت دُنیا کے سامنے لائی جا سکتی تھی۔ ایسا اعلامیہ نہیں آیا۔ جب کوئی مشترکہ اعلان نہ ہوتو دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ مشترکہ پریس کانفرنس کر ڈالتے ہیں۔ وہ بھی نہ ہوئی۔ مشترکہ پریس کانفرنس نہ ہوتو وزارتِ خارجہ کا کوئی افسر پاکستان اور بھارت کی طرف سے اپنے اپنے صحافیوں کو دو وزرائے اعظموں کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں بریف کر دیتا ہے۔ ہم لوگ ان کی باتوں کو ''باوثوق ذرایع'' کا حوالہ دے کر آپ کو بتا دیتے ہیں۔ اس دفعہ وہ بھی نہیں ہوا۔
ملاقات کے فوراََ بعد بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی شیو شنکر مینن نے خود کو دونوں ممالک کے صحافیوں کے سامنے براہِ راست دکھائی جانے والی نشریات کے لیے پیش کر دیا۔ مینن سفارت کار ابنِ سفارتکار ہیں۔ ان کے والد برطانوی ہند کی نمایندگی آج کل کے سنکیانگ میں کیا کرتے تھے۔ موصوف خود بھی چین میں بھارت کے سفیر رہے ہیں۔ چار مختلف لہجوں میں چینی زبان بول لیتے ہیں۔ چین کے بعد وہ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر رہے۔ یہاں کے بعد وہاں کی وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری اور وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اب کئی برسوں سے بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی۔ مختصر ترین لفظوں میں نپی تلی بات کرتے ہیں۔ ان سے Breaking News والا سودا ملنا تقریباََ ناممکن ہے۔ ''اصل بات'' مگر وہ کہہ جاتے ہیں۔
نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات کو انھوں نے ''مفید اور ضروری'' قرار دیا۔ Usefull کا Necessary کے ساتھ یہ امتزاج کافی کچھ کہہ گیا۔ مگر ان سے سوالات کرنے والے دوستوں نے اس طرف توجہ ہی نہ دی۔ بالآخر وہ یہ بات تقریباََ صاف لفظوں میں کہنے پر مجبور ہو گئے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے لیے مذاکرات کا سلسلہ اسی صورت دوبارہ شروع ہو گا اگر LOC پر کشیدگی کے واقعات نہ ہونے کا کوئی واضح طریقہ بن جائے۔ دوسری شرط ممبئی کے واقعات کی بھارت کی نظر میں ذمے دار افراد کی گرفتاری اور چارہ جوئی وغیرہ ہے۔
مینن کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری جلیل عباس جیلانی نے الگ سے سوالات وغیرہ لیے۔ انھوں نے بھی بھارت میں طویل عرصہ گزارا ہے۔ ٹھنڈے آدمی ہیں۔ ماحول خراب نہیں ہونے دیتے۔ تقریباََ مینن کی بتائی باتوں کو ذرا مختلف انداز میں دہرا دیا۔ جیلانی اور مینن نے جو کچھ کہا اس کا بھرپور تجزیہ میرے جیسے عام رپورٹر کے بس کی بات نہیں۔ جو بات میری موٹی عقل میں فوراََ آئی وہ صرف اتنی ہے کہ بھارت یا پاکستان کی طرف سے کسی ''سیاستدان'' کو نیویارک میں نواز شریف اور من موہن سنگھ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں صحافیوں سے سوالات لینے کی جرأت نہ ہوئی۔ دونوں ممالک کی طرف سے یہ فریضہ وزارتِ خارجہ کے ''افسروں'' نے سر انجام دیا۔
دونوں سفارتکاروں نے اس ملاقات کو ''مفید'' ٹھہرانے کے لیے سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ پاکستانی اور بھارتی وزیر اعظموں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنر (DGMOs) ایک دوسرے سے مل کر کوئی ایسا بندوبست یا طریقہ کار دریافت کریں گے جو LOC پر متعین افواج کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والے واقعات کا تدارک کر سکے۔ مجھے اس فیصلے کو سن کر فوری طور پر یہ محسوس ہوا کہ بھارت کے من موہن اور پاکستان کے نواز شریف جیسے انتہائی تجربہ کار وزیر اعظموں نے جو کام خود کرنا تھا اپنے اپنے DGMOs کے حوالے یا آج کے زمانے میں جسے Outsource کہا جاتا ہے، کر دیا ہے۔ 2003 سے دونوں ممالک میں DGMOs کے حوالے سے ایسا بندوبست پہلے سے موجود ہے۔ یہ کچھ دن پہلے تک بڑا موثر بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ اپنی افادیت بتدریج کیوں کھو بیٹھا ہے اس سوال کا جواب اور اس ضمن میں سامنے آنے والی مشکلات کا تدارک پاکستان اور بھارت کے وزیر اعظموں کی ذمے داری تھی۔ دونوں نے نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں اپنی یہ ذمے داری پوری کرنا تو دور کی بات ہے اس کا احساس تک نہیں کیا ہے۔ ٹی وی والے اب تماشے نہ لگائیں تو کیا کریں؟