جی آیا نوں… پخیر راغلے
وزیر اعظم نواز شریف نے فرمایا ہے’’طالبان تو کہہ رہے ہیں کہ پشاور میں ہونے والے قتل عام میں وہ ملوث نہیں ہیں‘
لاہور:
وزیر اعظم نواز شریف نے فرمایا ہے''طالبان تو کہہ رہے ہیں کہ پشاور میں ہونے والے قتل عام میں وہ ملوث نہیں ہیں' انھوں نے سوال کیا ہے کہ تو پھر یہ کون ہیں جو دھماکے کر رہے ہیں؟ پتہ نہیں یہ سوال انھوں نے کس سے پوچھا ہے کیونکہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں' ساری ایجنسیاں اور ادارے ان کے ماتحت ہیں' اصولاً تو انھیں مجرموں کا علم ہونا چاہیے لیکن یہ مملکت خداد ہے' یہاں جس کی ذمے داری ہو' اسے کچھ خبر نہیں ہوتی اور مجھ جیسے فارغ اور ویلے کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر جناب وزیر اعظم نے پوچھ ہی لیا ہے تو پھر حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ سچ بول ہی دیا جائے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ پشاور میں خود کش حملے اور بم دھماکے کون لوگ کرا رہے ہیں۔
ملک و قوم کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے میں انکشاف کیے دیتا ہوں۔ ''پشاور میں قتل عام دہشت گردوں نے کیا ہے''۔ میرا خیال ہے' اب حکومت کی تسلی ہو گئی ہو گی' اسے کم از کم یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ کام دہشت گردوں کا ہے' اگلا مرحلہ ان دہشت گردوں کی شناخت ہے' یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لاہور میں داتا دربار کے باہر بہت سے مزدور بیٹھے ہوتے ہیں' ایجنسیاں انھیں اٹھا کر شاہی قلعہ لاہور کی سیر کرائیں تو وہ باآسانی پشاور دھماکوں کا اعتراف بھی کر لیں گے اور بہت سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات بھی فراہم کر دیں گے۔ یوں حکومت دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور پھر جناب وزیراعظم کو یہ سوال کرنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی کہ اگر طالبان دھماکے نہیں کر رہے تو پھر کون کر رہا ہے؟
ویسے ہمارے حکمرانوں' سیاستدانوں اور علمائے کرام کو طالبان مخالف لوگ بلاوجہ تنگ کرتے ہیں۔ لبرل اور مادر پدر آزادیوں کے علمبردار لوگ در اصل حکمرانوں' سیاستدانوں اور علمائے کرام سے حسد کرتے ہیں' معاشرے میں ان کی عزت اور اقتدار ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ انھیں امور مملکت کا پتہ ہے نہ امور سلطنت چلانے کا تجربہ اور نہ ہی انھیں دین کا علم ہے۔ اگر انھیں دین کا حقیقی علم ہوتا تو پھر طالبان کی کبھی مخالفت نہ کرتے۔ ابھی کل ہی ہمارے جید علمائے کرام نے حکومت اور طالبان کو اللہ اور اس کے رسول کا واسطہ دے کر فوری جنگ بندی کی بڑی دلسوزی سے اپیل کی ہے۔ قارئین اب آپ ہی بتائیں' اس سے بڑھ کر وہ کیا کر سکتے تھے۔ ''اخبارات میں اکثر ایسی خبریں شایع ہوتی ہیں کہ لڑکی کو گھر میں تنہا پا کر غنڈے گھسے اور اسے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا' مظلوم لڑکی خدا رسولؐ کے واسطے دیتی رہی لیکن ظالموں کو رحم نہیں آیا۔ علمائے کرام نے اپنی اپیل میں حکومت اور طالبان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی غلط قرار نہیں دیا' صرف اتنا کہا ہے کہ بھائی بس کریں' بہت قتل عام ہو چکا' اب صلح کر لیں' اب اگر طالبان اور حکومت پھر بھی رحم نہیں کھاتے تو پھر عوام کا مقدر ہی خراب ہے' علماء حضرات کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
میاں نواز شریف اور علمائے کرام سے بھی بڑھ کر پتے کی بات فاتح ورلڈ کرکٹ کپ' فخر پاکستان جناب عمران خان نے کی ہے۔ پشاور میں سانحہ پاکستان چرچ کے بعد انھوں نے فرمایا تھا کہ لاشوں پر سیاست نہ کی جائے' شاید ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ لاشوں کو آرام و سکون سے دفنایا جا سکے' ویسے بھی موت کا اک دن معین ہے' اس پر احتجاج اور واویلا کرنا خدا کے کاموں میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔ انھوں نے قوم کو نکتے کی بات بھی سمجھائی ہے کہ طالبان کو شکست نہیں دی جا سکتی' مزید قتل عام سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ ان سے ہاتھ جوڑ کر صلح کر لی جائے۔ خان صاحب کی بات دل کو لگتی ہے۔ وہ جوش سے نہیں ہوش سے بولتے ہیں۔ وہ لیڈر اور رہنما پاگل ہوتے ہیں جو اپنی قوم میں لڑنے کا جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں' انھوں نے دلیل سے ثابت کر دیا ہے کہ گیدڑ شیر سے زیادہ ذہین اور سمجھدار ہوتا ہے جو بہادری سے ایک دن زندہ رہ کر مرنے کے بجائے سو سال زندہ رہنے کے اصول پر عمل کرتا ہے' انھوں نے ایک اور پتے کی بات کی ہے کہ پاکستان میں طالبان کا دفتر قائم کیا جائے' میں اس تجویز کا دل و جان سے حامی ہوں' یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس دفتر میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا حساب کتاب آسانی سے چیک کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کو بھی درست اطلاع مل جائے گی کہ انھوں نے کتنے لوگوں کو 'جہنم و اصل' کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ عالی مرتبت پرویز خٹک نے تو ذہانت اور کھوج بینی کی انتہا کو چھو لیا ہے۔ فرماتے ہیں''دھماکے میڈیا کرا رہا ہے' انھیں ٹی وی پر دھماکوں کی کوریج دیکھ کر شرم بھی بہت آتی ہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔جناب پرویز خٹک نے تو مجھ پر لرزا طاری کر دیا ہے' وہ حقیقی مجرم تک پہنچ گئے ہیں' میں نے تو اپنے کالم کے شروع میں میاں صاحب کو بتایا تھا کہ دہشت گرد مزدوروں کے بھیس میں داتا دربار کے باہر بیٹھے ہوتے ہیں' قارئین' آپ سے کیا پردہ' میں نے غلط اطلاع فراہم کی تھی' اس کا مقصد در اصل حکومت اور ایجنسیوں کو دھوکا دینا تھا' مجھے کیا پتہ تھا کہ خیبر پختونخوا میں جو حکومت قائم ہے' اس کا پردھان آج کا ابن صفی یا جیمز بانڈ ہے' وہ اصل مجرم تک پہنچ چکا ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مشکل آسان کر دی ہے اور اپنے قائد عمران خان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے' اب وہ دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ دیکھا ' ان کے وزیر اعلیٰ نے وہ کام کر دیا جو پرویز مشرف سے لے کر آصف زرداری تک کوئی نہیں کر سکا۔ بہتر یہی ہے کہ میڈیا کا حصہ ہونے کی بنا پرمیں اپنے جرم کا اعتراف کر لوں کہ میں ہی دہشت گرد ہوں' میں ہی قاتل ہوں۔ ہمارے حکمرانوں' سیاستدانوں' علمائے کرام اور طالبان کا کوئی قصور نہیں۔
''زندہ باد میاں صاحب' پایندہ باد عمران خان صاحب' تابندہ باد علمائے کرام' مرحبا پرویز خٹک اور آخر میں جی آیا نوں' پخیر راغلے' طالبان''۔
وزیر اعظم نواز شریف نے فرمایا ہے''طالبان تو کہہ رہے ہیں کہ پشاور میں ہونے والے قتل عام میں وہ ملوث نہیں ہیں' انھوں نے سوال کیا ہے کہ تو پھر یہ کون ہیں جو دھماکے کر رہے ہیں؟ پتہ نہیں یہ سوال انھوں نے کس سے پوچھا ہے کیونکہ وہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں' ساری ایجنسیاں اور ادارے ان کے ماتحت ہیں' اصولاً تو انھیں مجرموں کا علم ہونا چاہیے لیکن یہ مملکت خداد ہے' یہاں جس کی ذمے داری ہو' اسے کچھ خبر نہیں ہوتی اور مجھ جیسے فارغ اور ویلے کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ اب اگر جناب وزیر اعظم نے پوچھ ہی لیا ہے تو پھر حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ سچ بول ہی دیا جائے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ پشاور میں خود کش حملے اور بم دھماکے کون لوگ کرا رہے ہیں۔
ملک و قوم کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے میں انکشاف کیے دیتا ہوں۔ ''پشاور میں قتل عام دہشت گردوں نے کیا ہے''۔ میرا خیال ہے' اب حکومت کی تسلی ہو گئی ہو گی' اسے کم از کم یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ کام دہشت گردوں کا ہے' اگلا مرحلہ ان دہشت گردوں کی شناخت ہے' یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لاہور میں داتا دربار کے باہر بہت سے مزدور بیٹھے ہوتے ہیں' ایجنسیاں انھیں اٹھا کر شاہی قلعہ لاہور کی سیر کرائیں تو وہ باآسانی پشاور دھماکوں کا اعتراف بھی کر لیں گے اور بہت سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں معلومات بھی فراہم کر دیں گے۔ یوں حکومت دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور پھر جناب وزیراعظم کو یہ سوال کرنے کی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑے گی کہ اگر طالبان دھماکے نہیں کر رہے تو پھر کون کر رہا ہے؟
ویسے ہمارے حکمرانوں' سیاستدانوں اور علمائے کرام کو طالبان مخالف لوگ بلاوجہ تنگ کرتے ہیں۔ لبرل اور مادر پدر آزادیوں کے علمبردار لوگ در اصل حکمرانوں' سیاستدانوں اور علمائے کرام سے حسد کرتے ہیں' معاشرے میں ان کی عزت اور اقتدار ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ انھیں امور مملکت کا پتہ ہے نہ امور سلطنت چلانے کا تجربہ اور نہ ہی انھیں دین کا علم ہے۔ اگر انھیں دین کا حقیقی علم ہوتا تو پھر طالبان کی کبھی مخالفت نہ کرتے۔ ابھی کل ہی ہمارے جید علمائے کرام نے حکومت اور طالبان کو اللہ اور اس کے رسول کا واسطہ دے کر فوری جنگ بندی کی بڑی دلسوزی سے اپیل کی ہے۔ قارئین اب آپ ہی بتائیں' اس سے بڑھ کر وہ کیا کر سکتے تھے۔ ''اخبارات میں اکثر ایسی خبریں شایع ہوتی ہیں کہ لڑکی کو گھر میں تنہا پا کر غنڈے گھسے اور اسے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا' مظلوم لڑکی خدا رسولؐ کے واسطے دیتی رہی لیکن ظالموں کو رحم نہیں آیا۔ علمائے کرام نے اپنی اپیل میں حکومت اور طالبان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی غلط قرار نہیں دیا' صرف اتنا کہا ہے کہ بھائی بس کریں' بہت قتل عام ہو چکا' اب صلح کر لیں' اب اگر طالبان اور حکومت پھر بھی رحم نہیں کھاتے تو پھر عوام کا مقدر ہی خراب ہے' علماء حضرات کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
میاں نواز شریف اور علمائے کرام سے بھی بڑھ کر پتے کی بات فاتح ورلڈ کرکٹ کپ' فخر پاکستان جناب عمران خان نے کی ہے۔ پشاور میں سانحہ پاکستان چرچ کے بعد انھوں نے فرمایا تھا کہ لاشوں پر سیاست نہ کی جائے' شاید ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ لاشوں کو آرام و سکون سے دفنایا جا سکے' ویسے بھی موت کا اک دن معین ہے' اس پر احتجاج اور واویلا کرنا خدا کے کاموں میں مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔ انھوں نے قوم کو نکتے کی بات بھی سمجھائی ہے کہ طالبان کو شکست نہیں دی جا سکتی' مزید قتل عام سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ ان سے ہاتھ جوڑ کر صلح کر لی جائے۔ خان صاحب کی بات دل کو لگتی ہے۔ وہ جوش سے نہیں ہوش سے بولتے ہیں۔ وہ لیڈر اور رہنما پاگل ہوتے ہیں جو اپنی قوم میں لڑنے کا جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں' انھوں نے دلیل سے ثابت کر دیا ہے کہ گیدڑ شیر سے زیادہ ذہین اور سمجھدار ہوتا ہے جو بہادری سے ایک دن زندہ رہ کر مرنے کے بجائے سو سال زندہ رہنے کے اصول پر عمل کرتا ہے' انھوں نے ایک اور پتے کی بات کی ہے کہ پاکستان میں طالبان کا دفتر قائم کیا جائے' میں اس تجویز کا دل و جان سے حامی ہوں' یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس دفتر میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا حساب کتاب آسانی سے چیک کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کو بھی درست اطلاع مل جائے گی کہ انھوں نے کتنے لوگوں کو 'جہنم و اصل' کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ عالی مرتبت پرویز خٹک نے تو ذہانت اور کھوج بینی کی انتہا کو چھو لیا ہے۔ فرماتے ہیں''دھماکے میڈیا کرا رہا ہے' انھیں ٹی وی پر دھماکوں کی کوریج دیکھ کر شرم بھی بہت آتی ہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی۔جناب پرویز خٹک نے تو مجھ پر لرزا طاری کر دیا ہے' وہ حقیقی مجرم تک پہنچ گئے ہیں' میں نے تو اپنے کالم کے شروع میں میاں صاحب کو بتایا تھا کہ دہشت گرد مزدوروں کے بھیس میں داتا دربار کے باہر بیٹھے ہوتے ہیں' قارئین' آپ سے کیا پردہ' میں نے غلط اطلاع فراہم کی تھی' اس کا مقصد در اصل حکومت اور ایجنسیوں کو دھوکا دینا تھا' مجھے کیا پتہ تھا کہ خیبر پختونخوا میں جو حکومت قائم ہے' اس کا پردھان آج کا ابن صفی یا جیمز بانڈ ہے' وہ اصل مجرم تک پہنچ چکا ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مشکل آسان کر دی ہے اور اپنے قائد عمران خان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے' اب وہ دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ دیکھا ' ان کے وزیر اعلیٰ نے وہ کام کر دیا جو پرویز مشرف سے لے کر آصف زرداری تک کوئی نہیں کر سکا۔ بہتر یہی ہے کہ میڈیا کا حصہ ہونے کی بنا پرمیں اپنے جرم کا اعتراف کر لوں کہ میں ہی دہشت گرد ہوں' میں ہی قاتل ہوں۔ ہمارے حکمرانوں' سیاستدانوں' علمائے کرام اور طالبان کا کوئی قصور نہیں۔
''زندہ باد میاں صاحب' پایندہ باد عمران خان صاحب' تابندہ باد علمائے کرام' مرحبا پرویز خٹک اور آخر میں جی آیا نوں' پخیر راغلے' طالبان''۔