تحریک انصاف کے نئے سیکرٹری جنرل کو سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا

عمران خان نے پی ٹی آئی کے سب سے فعال رہنما جہانگیر خان ترین کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل نامزد کردیا ہے۔


October 02, 2013
جہانگیر ترین پارٹی کے اندرعمران خان کے بعد سب سے مقبول رہنما تصور کیئے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری سے ملک کے معروف سیاستدان اور پی ٹی آئی کے سب سے فعال رہنما جہانگیر خان ترین کو تحریک انصاف کا سیکرٹری جنرل نامزد کردیا ہے۔

اس فیصلے نے ملک بھر میں تحریک انصاف کے اندر ایک نیا جوش وجذبہ پیدا کیا ہے۔ جہانگیر ترین پارٹی کے اندر عمران خان کے بعد سب سے مقبول رہنما تصور کیئے جاتے ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے پالیسی ساز سیل کے سربراہ بھی ہیں۔11 مئی سے قبل انہوں نے انرجی، ایجوکیشن اور اکانومی کے حوالے سے ملک گیر سطح کیلئے مکمل روڑ میپ بھی تیار کیا تھا جسے اب خیبر پختونخواہ میں دستیاب وسائل کے مطابق نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جہانگیر ترین کی غیر معمولی ذہانت اور مقبولیت ان کے لئے نقصان دہ بھی ثابت ہوتی رہی ہے۔

تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں جہانگیر ترین مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدہ کے لئے الیکشن لڑنا چاہتے تھے اور ان کی کامیابی بھی یقینی دکھائی دیتی تھی۔ حامد خان ، جاوید ہاشمی، فردوس نقوی اور ان کے ہمنوا ،سابق سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی کو ہی آئندہ بھی سیکرٹری جنرل بنانے کیلئے کوشاں تھے۔ سنٹرل باڈی کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی تاریخ سے چند روز قبل حامد خان نے بطور چیف الیکشن کمشنر ایک نوٹیفیکیشن جاری کردیا جس کے مطابق پارٹی کا چیئرمین اور سیکرٹری جنرل ایک صوبے سے منتخب کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔

حامد خان کے اس فیصلے پر پارٹی کے اندر گروپ بندی بڑھ گئی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر عارف علوی سیکرٹری جنرل کا الیکشن ہار گئے اور پرویز خٹک نئے سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے تھے۔ پرویز خٹک کے وزیر اعلی بننے کے بعد عمران خان نے بحرانوں کا شکار پی ٹی آئی کو فعال اور منظم کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو سیکرٹری جنرل بنانے کا فیصلہ کیا تو ایک مرتبہ پھر ''وار لارڈز''نے روڑے اٹکانے کی کوشش کی مگر عمران خان نے سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے منظوری لے کر نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔

جہانگیر ترین نے عہدہ سنبھالنے کے بعد چند روز میں ہی اپنی کارکردگی ظاہر کرنا شروع کردی ہے ۔ وہ لاہور پر بالخصوص زیادہ توجہ دے رہے ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پارٹی کو مین سٹریم میں لانے کیلئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے حوالے سے بھی جہانگیر ترین اہم اقدامات کرنے والے ہیں تا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کو منظم طریقے سے آپریٹ کیا جا سکے۔ عمران خان کے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج خیبر پختونخوا حکومت کو ''کامیاب'' قرار دلانا ہے۔

11 مئی کے انتخابی نتائج کے بعد مولانا فضل الرحمن کی بھرپور کوشش تھی کہ میاں نواز شریف کو راضی کر کے خیبر پختونخواہ میں مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت قائم کر لی جائے مگر میاں نواز شریف رضامند نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) کے با خبر رہنمائوں کے مطابق میاں صاحب بخوبی جانتے تھے کہ خیبر پختونخواہ میں چیلنجز بڑھتے چلے جائیں گے اور اگر تحریک انصاف کو یہاں حکومت بنانے کا موقع دیاجاتا ہے تو سنگین نوعیت کے مسائل کی وجہ سے تحریک انصاف کیلئے بہتر کارکردگی مشکل ہو جائے گی۔ اس تناظر میں عمران خان کی سیاسی مقبولیت کو نقصان ہوگا جبکہ پی ٹی آئی کے ''تبدیلی'' کے دعوے ناکام ثابت ہو کر مسلم لیگ(ن) کو فائدہ پہنچائیں گے۔



 

عمران خان نے پرویز خٹک کو وزیر اعلی بنانے کے لئے جس بھی دبائو یا سفارش پر فیصلہ کیا تھا، آج ان کا یہ فیصلہ شدید تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ پرویز خٹک اور ان کی ٹیم ابھی تک ہر شعبے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس پر قابو پانے کے لئے وفاقی حکومت نے شریف برادران کی گڈ بک میں شامل سینئر پولیس افسر ناصر درانی کو آئی جی خیبر پختونخواہ تعینات کیا ہے۔ اے این پی کے رہنما پی ٹی آئی حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنا رہے ہیں۔

چرچ اور قصہ خوانی بازار میں ہونے والے بڑے دھماکوں کے فوری بعد سب سے پہلے اے این پی کے رہنما جائے حادثہ پر پہنچے اور عوام کے ساتھ مل کر امدادی کاروائیوں میں حصہ لیا جبکہ خیبر پختونخواہ حکومت کا کوئی وزیر، مشیر یا تحریک انصاف کا کوئی رہنما کئی گھنٹوں تک جائے حادثہ پر نہیں پہنچ سکا۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت ہر صورت خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت کو عوامی مقبولیت کی بلندی تک دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان نے جہانگیر ترین کو خیبر پختونخواہ حکومت کو پالیسی سازی میں تعاون کرنے کی درخواست کی ہے۔

اسی دبائو کے نتیجہ میں عمران خان نے یہ متنازعہ بیان بھی دیا ہے کہ ملک میں امن وامان کے قیام کے سلسلے میںطالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے لئے طالبان کے دفترکا قیام ناگزیر ہے کیونکہ ان سے غاروںمیں مذاکرات ممکن نہیں اورنہ اخبارات اورمیڈیاکے ذریعے گفتگو وشنید سے کوئی قابل ذکرنتیجہ متوقع ہے۔ ان کے اس بیان پر ملک کے اندر ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے جبکہ وفاقی حکومت کے متعدد وزراء عمران خان کے اس مطالبے کو رد کر چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمرا ن خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے پنجاب بالخصوص لاہور پر فوکس کیئے ہوئے ہیں ۔

گزشتہ دنوں عمران خان اور جہانگیر ترین نے شامی روڈ آفس میں اہم ترین اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔ ٹاون کی سطح پر قائم کی جانے والی کمیٹیوں کے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اہم فیصلے کے گئے، اجلاس میں ، عبدالعلیم خان، پنجاب کے صدر اعجاز احمد چوہدری ،ڈاکٹر یاسمین راشد، جنرل سیکرٹری میاں افتخار، سیکرٹری اطلاعات فرخ جاوید مون، جمشید اقبال چیمہ، شعیب صدیقی، حامد معراج، میاں اسلم اقبال، مراد راس،سعدیہ سہیل، ڈاکٹر زرقا تیمور، عائشہ خالد، چوہدری منشاء سندھو، ظہیر عباس کھو کھر، یاسر گیلانی، جمشید اقبال بٹ، عمر سرفراز چیمہ، مہر واجد عظیم، شفیع جوئیہ، سہیل شہزاد، کرنل (ر ) شوکت، اویس یونس، اویس لیاقت، حاجی صادق، خالد گجر، حافظ فرحت عباس، ولید اقبال، میاں محمود احمد، ملک وقار ، طارق حمید، نیلم اشرف،سلونی بخاری،ثانیہ کامران،فضہ ذیشان ،ارشد خان ، یامین ٹیپو، فواد رسول ،کرنل کاردار، طارق ثناء باجوہ سمیت کثیر تعداد میں پارٹی عہدیداران ورکنگ کمیٹی، ٹکٹ ہولڈر نے شرکت کی۔

عمران خان نے کہا کہ تنظیم کو منظم کر کے بلدیاتی انتخابات میں بھر پور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے، ملک نو سال سے دہشت گردی کی جنگ میں تباہ ہو گیا ہے خیبر پختوانخواہ کی انڈسٹری بند ہو چکی ہے ساری قوم امن چاہتی ہے ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ملٹری اپریشن سے امن نہیں آئے گا، انہوں نے کہا کہ امریکہ اپنے دشمن سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ان لوگوں سے ہم مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے ، چار آل پارٹیز کانفرنس ہو چکی ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، ڈائیلاگ کے لئے سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے مذاکرات ہونے چاہیے دونوں طرف سے سیز فائر ہونا چاہیے،اخبارات کے ذریعے ڈائیلاگ نہیں ہو سکتے، قبائلی بزرگوں کے ذریعے بھی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی سیاست اور ''فیملی پارٹی'' کی سیاست میں سے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کو پسند کرتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے لاہور پر خصوصی توجہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے اکثر وار لارڈز کا تعلق یہیں سے ہے اور ہر اندرونی سازش کے تانے بانے لاہور سے ہی ملتے ہیں۔ عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں نے ضلعی صدر عبدالعلیم خان کو مکمل با اختیار بنادیا ہے ۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید نے پارلیمانی محاذ کو کامیابی سے سنبھال رکھا ہے جبکہ پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری دوسرے اضلاع میں خاصی محنت کر رہے ہیں ۔ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف سے کسی اپ سیٹ کی امید تو نہیں کی جا سکتی کیونکہ فی الوقت تو قوم نے مسلم لیگ(ن) کو بھاری بھرکم مینڈیٹ دیا ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کے اندر اگر بلدیاتی الیکشن میں 30 فیصد پرفارمنس دینے میں کامیاب ہو گئی تو یہ عمران خان کیلئے اطمینان کی بات ہو گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں