ڈالر کی سیمابیت
ڈالر کا 4 ماہ میں 10 روپے بڑھ جانا ہماری معیشت اور ہماری حکومت و ریاست کی پالیسیزپر مارکیٹ کےعدم اطمینان کا اظہار ہے۔
ڈالر کا چار مہینوں میں دس روپے بڑھ جانا، ہماری معیشت اور ہماری حکومت و ریاست کی پالیسیز پر مارکیٹ کے عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں کا یہ اپنی نوعیت کا نیا ریکارڈ ہے کہ اوپن مارکیٹ اور بینک ریٹ کے درمیان ڈھائی روپے ڈالر کی قیمت میں فرق ہے۔ امپورٹ بل ڈالر میں تو وہی ہے لیکن روپے میں دس فیصد بڑھ گیا۔
ان چار مہینوں میں بھلا اس حکومت سے ایسی کیا حرکت سرزد ہوئی جو افراط زر بے قابو ہوتی نظر آ رہی ہے؟ مرزا غالبؔ کے اس شعر کی طرح
''ایسا آساں نہیں لہو رونا'
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں''
بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ڈار صاحب نے اس برسوں پرانے مریض کو ٹھیک کرنے کے لیے اس کی برداشت سے زیادہ ڈوز دے دی۔ ہاں مگر انھیں سیلز ٹیکس بڑھانے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ جس کا براہ راست تعلق افراط زر سے ہے۔
مشرف کے زمانے میں ڈالر صرف آٹھ روپے بڑھا۔ زرداری آئے تو ڈالر چھیاسٹھ سے شوٹ کر کے 80 روپے تک آیا پھر دو سال اٹھاسی پر رہا اور جاتے جاتے ڈالر کو سو تک پر لگ گئے تھے۔
مارکیٹ کہتی ہے کہ جب تک زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر تک واپس نہیں آئیں گے ڈالر کی قیمت میں استحکام نہیں آئے گا۔ یعنی کم از کم چھ سات مہینوں کے امپورٹ بل کے برابر ذخائر کا ہونا ہر حال میں لازم ہے۔ 1960 سے 1970 تک دس سال میں ڈالر 4.76 روپے پر مستحکم رہا۔ 1975 سے 1978 تک 9.78 روپے پر، 1985 تک 16.28 روپے، 1990 میں 21.40، جا کے 2005 تک 59 روپے تک بڑھا۔ 2005 سے اب تک ان آٹھ سالوں میں 90 فیصد بڑھتا ہوا نظر آیا ہے۔ ڈالر کا اس تیزی سے بڑھنے کا تعلق ہمارے مجموعی قرضوں کے حجم سے بھی ہے جو کہ مجموعی پیداوار کہ 66 فیصد کے برابر ہو گئے ہیں۔
موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے ڈھائی مہینوں میں 800 ارب روپے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لیا۔ پچھلی حکومت نے مقامی بینکوں سے 1400 ارب روپے قرضہ لیا جس کا کچھ حصہ اسٹیٹ بینک سے بھی لیا تھا۔ اسٹیٹ بینک سے قرض لینا افراط زر کو بڑھاتا ہے کیوں کہ اسٹیٹ بینک حکومت کو پیسے دینے کے لیے نوٹ چھاپتا ہے اور حکومت کو سود کی مد میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی جب کہ مقامی بینکوں سے لیے قرضے میں لازماً کرنی پڑتی ہے۔ مقامی بینکوں کو نوٹ نہیں چھاپنے پڑتے بلکہ معیشت کے دوسرے حصوں کے لیے قرضہ دینے کے لیے بچتا ہی کچھ نہیں جس کو Crowding Out افیکٹ کہتے ہیں۔
پچھلی حکومت نے سال رفتہ مقامی بینکوں و اسٹیٹ بینک سے قرضے لینے کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے، اور اگر موجودہ حکومت اسی رفتار سے قرضے لیتی رہی تو مالی سال کے آخر میں یہ رقم جا کے 3500 ارب تک جا پہنچے گے۔
یہ ویسی افراط زر نہیں جو فطری ہوتی ہے یعنی بارشوں کی وجہ سے فصل کم ہو تو ٹماٹر کی قیمت بڑھ گئی بلکہ یہ تو ایک لحاظ سے ڈاکا زنی ہے کہ کاغذ کے ٹکڑوں کو چھاپ کر آپ موجودہ نوٹوں کی افادیت کم کریں۔ معاشیات کا اصول ہے کہ زیادہ نوٹ اتنے ہی چھاپنے چاہئیں جتنا آپ کی مجموعی پیدا وار میں اضافہ ہو۔
کیوں آخر حکومت مقامی بینکوں سے قرضے کی صورت میں پیسے نہیں لیتی۔ پچھلی حکومت نے جو 1400 ارب مقامی بینکوں وغیرہ سے لیے اس کے سود کی ادائیگی اب کرنی ہے۔ سود کی مد میں پچھلے سال کی نسبت 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی اس مالی سال میں کل مقامی قرضوں کی مد میں سود کی ادائیگی کے لیے 910 ارب روپے دینے ہوں گے جب کہ مجموعی مقامی قرضہ جات 9500 ارب روپے ہیں۔ صرف ایک مہینے کے حوالے سے دیکھیں کہ پچھلے سال جولائی میں حکومت نے 84 ارب سود کی ادائیگی کی جب کہ اس جولائی میں یہ بڑھ کر ایک ماہ کے حساب سے 123 ارب روپے ہو گئی ہے۔ اس طرح اس مالی سال میں 1500 ارب سود کی صورت میں بینکوں کو ادائیگی ہو گی جو کہ ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی کے 65 فیصد ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ لے کر لوگوں پر افراط زر کا ٹیکس نافذ کرنا چاہتی ہے اور مارکیٹ احمقوں سے بھری نہیں ہے بلکہ انتہائی بے رحم ہے۔ اس نے بھی حکومت کی اس بے راہ روی کو ڈالر Speculation کا لبادہ پہنا دیا۔ اب صورت حال واقعی ہاتھ سے نکلتی ہوئی کچھ اس طرح بھی نظر آ رہی ہے کہ شدت زر Velocity Of Money میں بھی غیر فطری اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگ اب روپے سے جان چھڑا کر سونا یا ڈالر یا کوئی اور چیز خرید کر رکھنا چاہتے ہیں یعنی کل جو روپیہ تیس دن لیتا تھا Circle پورا کرنے میں، آج مثال کے طور پر بیس دن لیتا ہے، جب ٹریڈر کے ہاتھ میں روپیہ آتا نہیں تو وہ سمجھ کر آگے کر دیتا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے دیے ہوئے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ پانچ سال ڈپازٹ اسکیم میں مجموعی ڈپازٹ کا 7.7 فیصد ہے جو کہ روپوں میں 153 ارب بنتا ہے۔ سب سے زیادہ ڈپازٹ چھ ماہ والے ہیں جو کہ 742 ارب روپے ہیں ۔86 فیصد ڈپازٹ کل فکسڈ ڈپازٹ کے دو سال کے اندر والے فکسڈ ڈپازٹ ہیں جس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ لوگ اب روپوں میں اپنی بچت نہیں رکھنا چاہتے اور اس سارے پیسے کے 85 فیصد سرمایہ کاری Government Papers (بانڈ وغیرہ) میں کی ہوئی ہے۔ جس کا پیداواری عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
اب جا کے اسٹیٹ بینک کی بھی آنکھ کھلی ہے اور 50 بنیادی پوائنٹس سود کی شرح میں اضافہ کیا ہے تا کہ Money Supply کم ہو اور اس طرح Velocity of Money بھی کم ہو جس کا مثبت اثر افراط زر کی شرح کم ہونے سے نظر آئے گا۔
نہ کیے حکومت نے جو کم ....وہ غیر ترقیاتی اخراجات ہیں۔ اگر 3500 ارب کی صورت میں ہر سال قرض لیے گئے یا بس نوٹ چھاپے گئے تو سمجھ لیجیے ڈالر اور روپے کے درمیان بہت بڑا فرق آ جائے گا۔ ایک ایسا بحران اٹھ سکتا ہے جو معاشی انارکی کو جنم دے گا اور وہ معاشی انارکی سول وار کو جنم دے سکتی ہے۔ خدا نہ کرے میاں صاحب اپنے پانچ سالوں میں ملک کو اتنا مقروض کر جائیں جس سے ماضی کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں ۔ بلاشبہ افراط زر بڑی مشکل سے پچھلے سال قابو میں آئی تھی اس کو دگنا تگنا کر جائیں گے تو ڈالر آسمان تک پہنچ جائے گا۔ اس دلدل سے نکلنے کا فوری حل یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک سے پیسے لینے سے بہتر ہے کہ مقامی بینکوں سے قرضے لیے جائیں۔ قرضے محسوس بھی ہوں کہ پچھلے سال کی نسبت کم لیے گئے ہیں۔ خدارا! ترقیاتی کاموں کی مد میں مختص کیے ہوئے پیسوں میں کٹوتی نہ کی جائے۔IMF کے کہنے پر 28 فیصد کی گئی ہے۔ رواں سال کے بجٹ میں 1155 ارب روپے رکھے گئے تھے اسے IMF سے معاہدے کے بعد گھٹا کر 834 ارب کیا گیا ہے اور اگر ایسا کیا بھی ہے تو اس کے استعمال میں شفافیت لائی جائے۔ ترقیاتی اخراجات کا براہ راست لوگوں کے معیار زندگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ معیاری انسانی وسائل مجموعی پیداوار میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اس وقت یہ ملک کسی بھی قسم کی بے راہ روی کا متحمل نہیں ہو سکتا ، وہ چاہے معاشی ہو یا امن لانے کی صورت میں دہشت گردوں سے جنگ۔ کیونکہ امن و استحکام بھی معیشت کو مضبوط کرتا ہے اور مضبوط معیشت ڈالر کی قیمت میں استحکام پیدا کرتی ہے۔