زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئےامدادی کاروائیاں جاری

بلوچستان میں زلزلے کے بعد عمارتوں کے صرف نشان ہی باقی نظر آتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں کوئی رہتا تھا۔


رضا الرحمٰن October 02, 2013
وزیر اعلیٰ بلوچستان خود آواران میں موجود ہیں اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

قیامت خیز زلزلے کے جھٹکوں نے بلوچستان کے علاقے ضلع آواران کو ملیا میٹ کردیا۔

عمارتوں کے صرف نشان ہی باقی نظر آتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں کوئی رہتا تھا۔ اس خوفناک زلزلے جس کی ریکٹر سکیل پر پہلی مرتبہ شدت7.8 اور دوسری مرتبہ7.2 ریکارڈ کی گئی تھی میں اب تک ایک اندازے کے مطابق500 سے زائد افراد جاں بحق اور800 سے زائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ5 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں ۔ ملبے تلے دبے لوگوں کی لاشیں نکالنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، امدادی کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جو کہ زلزلے کے دوران بیرون ملک (لندن) کے دورے پر تھے اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچ گئے اور وہ اس وقت خود بھی آواران میں موجود ہیں اور امدادی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ علاقے کے ایم پی اے اور ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو بھی علاقے میں ہیں۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے زلزلہ سے متاثرہ عوام کی فوری امداد ، بنیادی سہولتوں کی بحالی اور زخمیوں کے علاج معالجے کیلئے40 کروڑ روپے کا اجراء کیا گیا ہے جبکہ پی ڈی ایم اے کے توسط سے153 ٹرکوں کے ذریعے14,805ٹینٹ،18390 راشن فوڈ پیکٹس،6625 کمبل،5300 مچھر دانیاں،7 ٹرک بسکٹ،6 ٹرک زندگی بچانے والی ادویات متاثرہ علاقوں میں پہنچادی گئی ہیں۔

پنجاب اور خیبر پختونخواکی حکومتوں کی طرف سے بھی فراخدلانہ امداد زلزلہ متاثرین کیلئے بھیجی گئی ہے۔ وزراء اعلیٰ پنجاب و سندھ کی جانب سے15 کروڑ روپے امداد اور5 ہزار خیمے و ادویات دینے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ وفاقی حکومت بھی بھرپور امداد کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کرچکے ہیں جبکہ وفاقی وزراء چوہدری نثار علی، جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور جام کمال نے بھی ضلع آواران کا دورہ کیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے متاثرین کی بھرپور امداد اور بحالی کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

دوسری جانب توقع ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف بھی بیرون ملک دورے سے واپسی کے فوری بعد متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔ امدادی کارروائیوں کے دوران ڈاکٹروں کی ٹیم ، ہیلی کاپٹرز اور ایف سی کے کانوائے پر فائرنگ کے ناخوشگوار واقعات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزاحمتی تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ زلزلے سے پیدا شدہ مشکل حالات میں امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ نہ ڈالیں کیونکہ اس عمل سے متاثرہ خاندانوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔

مزاحمتی تنظیموں کو حکومت کی اس اپیل پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ بلوچستان اسمبلی کے رواں اجلاس میں بھی زلزلے سے پیدا شدہ صورتحال پر گرما گرم بحث ہوئی۔ اپوزیشن ارکان نے زلزلہ متاثرین کے لئے اپنی جانب سے ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری نے اپنی3 ماہ اور رکن اسمبلی میر عاصم کردگیلو نے ایک ماہ کی تنخواہ متاثرین کیلئے عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔

بی۔آر۔ پی کے سربراہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے بھی بین الاقوامی اداروں سے امداد کی اپیل کی ہے ۔ بلوچستان سوئٹرزلینڈ اور یورپی ممالک میں امدادی کیمپ و مہم شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ شہر میں مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے کیمپ لگائے ہیں۔

سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور آبزرویشن دی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں حکومت بلوچستان نے سپریم کورٹ میں اس حوالے سے اپنا جواب داخل کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی کابینہ مکمل نہیں ہے اس لئے وہ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تاریخ نہیں دے سکتی۔ سپریم کورٹ نے حکومت بلوچستان کی اس معذوری کو مسترد کردیا ہے عدالت عالیہ کا کہنا ہے کہ کابینہ عدالت نے تشکیل نہیں دینی اتحادی حکومت جس نے بنائی ہے وہ ہی کابینہ بنائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں