بے بصیرت قوم
ایک صاحب پانی کےجہاز سے چین بغرض سیاحت جا رہے تھےراستے میں ایک دن جزیرہ سماٹرا کے ساحل پر ان کا جہاز لنگر انداز ہوا۔
ایک صاحب پانی کے جہاز سے چین بغرض سیاحت جا رہے تھے راستے میں ایک دن جزیرہ سماٹرا کے ساحل پر ان کا جہاز لنگر انداز ہوا۔ وہ اور چند دوسرے مسافر جہاز سے اترے ساحل سمندر پر آئے اور سستانے کے لیے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ایک نابینا شخص اپنے حبشی نوکر کی رہنمائی میں وہاں آ گیا۔ ایک شخص جو اس جزیرے کا رہنے والا تھا اس نے انھیں بتایا کہ یہ نابینا شخص اس لیے اندھا ہو گیا تھا کہ اس نے سورج کی طرف ایک مدت تک ٹکٹکی باندھ کے دیکھا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ سورج کے نور کی حقیقت کو سمجھ سکے اور اس نور کا مالک بن جائے۔ اس مقصد کے لیے اس نے طبعی علوم، طلسم و سحر اور تسخیر ارواح کے ذرایع تک استعمال کیے تا کہ کم از کم سورج کی ایک شعاع ہی کا مالک بن جائے اور اسے ایک شیشی میں بند کر لے۔ وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آخرکار بینائی ہی سے محروم ہو گیا اور کچھ اس کے دماغ میں خلل آ گیا۔
اب وہ کہنے لگا کہ سورج کی روشنی کا وجود ہی نہیں۔ اس نے چونکہ سورج کو ٹکٹکی باندھ کے بہت دیکھا تھا اور اس کے نور کے بارے میں بیحد غور و فکر کیا تھا، سو یہ بیچارا آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ عقل سے بھی محروم ہو گیا، یوں وہ آنکھوں کا ہی اندھا نہیں ہوا بلکہ عقل کا بھی اندھا ہو گیا وہ اس بات کو نہیں مانتا کہ اس کی آنکھیں روشنی سے محروم ہو گئیں بلکہ یہ کہتا ہے کہ سور ج کی روشنی موجود ہی نہیں۔ اس اندھے کے حبشی نوکر نے اندھے کو درخت کے سائے میں بٹھایا اور خود اس چراغ کی بتی کو ٹھیک کر نے لگا جو وہ ساتھ لایا تھا۔ اتنے میں اس اندھے مالک نے اپنے نو کر سے کہا کہ ابے پاگل اب تو یہ بات ثابت ہو گئی نا کہ دنیا میں بالکل روشنی نہیں ہے، حبشی نوکر نے کہا کیوں روشنی کیوں نہیں، آخر سورج کی روشنی نہیں ہے۔ اس اندھے نے کہا تو پھر وہی فضول باتیں کرنے لگا۔ ابے احمق مجھے بتا سور ج کیا ہے، نوکر نے کہا میں نہیں جانتا سورج کیا ہے، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ سورج نکلتے ہی میری مشقت شروع ہو جاتی ہے اور سورج ڈوبتا ہے تو میری مشقت و زحمت کا وقت ختم ہوتا ہے اور یہ میرا چوغڑا (چھوٹا سا چراغ) میری جھونپڑی کو روشن کرتا ہے اور سور ج کی تمام روشنی سے زیادہ میرے کام آتا ہے اسی اثنا میں ایک لنگڑا دیہاتی وہاں آ گیا۔
اس نے جونہی حبشی خادم کی باتیں سنی تو قہقہہ مار کر ہنسنے لگا، اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ سور ج کیا ہے، تو لو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ سو رج ایک آگ کا گولا ہے جو ہر روز صبح کو سمندر کے پانی سے نکلتا ہے اور پھر شام کو مغرب میں جزیرہ سماٹرا کے پہاڑوں کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ اگر تمہاری آنکھیں ہوتیں تو دوسرے سارے لوگوں کی طرح تم یہ بات جان لیتے ایک ماہی گیر نے جو سمندر کے کنارے مچھلیاں پکڑنے میں مشغول تھا اس لنگڑے دیہاتی سے کہا ''معلوم یہ ہوتا ہے کہ تم نے کبھی گائوں سے باہر قدم نہیں رکھا، اگر تم لنگڑے نہ ہوتے تو تم نے سارے جزیرہ سماٹرا کو دیکھا ہوتا، سارے جزیرے میں تم گھومے پھر ے ہوتے پھر تم جانتے کہ سور ج پہاڑ کے پیچھے نہیں چھپتا بلکہ صبح سمندر سے نکلتا ہے اور شام کو سمندر ہی میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک ہندو جو اس مجمعے میں تھا، ماہی گیر کی باتیں سن کربو لا کہ کوئی عقلمند تمہاری اس بات پر کیسے یقین کر سکتا ہے کہ سورج آگ کا ایک گو لا ہے جو ہر روز صبح پانی سے نکلتا ہے اور شام کو پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ تو سب جہالت کی باتیں ہیں۔
سورج تو ایک دیوتا ہے جو ہر روز سونے کی رتھ میں سوار ہو کر آسمان کی سیر کرتا ہے اور جب اسے گر ہن لگتا ہے تو اصل میں اژدھے اسے نگل جاتے ہیں پھر دریائے گنگا کے کنارے ہم ہندو جب دعا کرتے ہیں تو سورج دیوتا ان سانپوں کے منہ سے با ہر آتا ہے۔ ایک اور ہندوستانی ملاح جو اپنے جہاز کے ساتھ وہاں لنگر انداز تھا اس نے اپنے ہم وطن ہندو سے کہا کہ بھائی یہ تمہاری کم علمی اور کم عقلی ہے کہ تم سمجھتے ہو سورج صرف ہندوئوں کا دیوتا ہے اور دنیا کے دوسرے حصوں کے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، میں نے عربستان و افریقہ سے لے کر جاپان تک سفر کیا ہے سب جگہ سور ج نکلتا ہے اور روشنی اور گرمی بکھیرتا ہے۔ سورج تو جاپان سے طلوع ہوتا ہے اور جزیرہ انگلستان کے مغرب میں ڈوب جاتا ہے اس لیے جاپان کو سور ج کی سر زمین کہا جاتا ہے۔ وہاں ایک انگریز ملاح بھی تھا اس نے کہا کہ انگریزوں سے بہتر کوئی طلوع و غروب آفتاب کے مسئلہ سے آگا ہ نہیں۔ نہ سورج کہیں سے نکلتا ہے اور نہ کہیں ڈوبتا ہے بلکہ یہ تو کولھو کے بیل کی طرح ہمیشہ زمین کے گر د گھومتا رہتا ہے اور میری اس بات کا اس سے بہتر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ میں اس جہاز کے ساتھ ساری دنیا کا چکر لگا چکا ہوں جہاں میں گیا ہوں وہا ں سورج تھا۔
اس نے کہا کہ میں نے آپ سب کی باتیں سنیں لیکن افسوس آپ سب لوگ غلطی پر ہیں سورج کہیں نہیں گھومتا نہ کسی جزیرہ کے گر د نہ پہاڑ کے گرد نہ سمندر کے گرد، نہ زمین کے گرد بلکہ زمین خود سورج کے گر د گھومتی ہے اور زمین کے تمام ممالک جاپان سے لے کر امریکا، انگلستان، افریقہ، ایشیا اور چین تک غر ض دنیا کے سارے حصے سور ج کے سامنے سے گذرتے ہیں سو روشنی حاصل کرتے ہیں، سورج کا تعلق کسی پہاڑ یا سمندر یا ملک یا جزیرے سے نہیں بلکہ کرۂ زمین سے بھی نہیں۔ سورج تو ایک بہت بڑے عالم کا ایک مر کز ہے۔ سورج کے گرد بہت سے سیارے گھومتے ہیں جو زمین سے بھی بہت بڑے ہیں جیسے زحل، مریخ، وغیرہ۔ کپتان کی باتیں سن کر سب سننے والے حیرت میں آ گئے اور ہر ایک کو اپنی جہالت کا احساس ہو گیا۔ خدا اور مذہب کا مسئلہ بھی سورج کے مسئلہ کی طرح ہے، ہر مذہب والا یہ سمجھتا ہے کہ خدا صرف اس کا خدا ہے جس طرح جلدی بیماریاں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں لازم اور متعدی، اسی طرح دماغی بیماریوں کی بھی دو قسمیں ہیں لازم کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو غور و فکر کا اہل نہ سمجھے اور متعدی یہ کہ دوسروں کو بھی نہ سو چنے دے۔
ملائیت کا تعلق کسی خاص ملک یا مذہب سے نہیں بلکہ وہ ایک عالمگیر ذہنی کیفیت ہے ایک طرزعمل ہے جو عقلی دلیلوں سے نہیں بلکہ ڈرا دھمکا کر اپنے عقائد دوسرے سے منوانے کی کو شش کرتی ہے وہ سادہ لوح افراد کے دلوں میں خوف کا زہر گھو لتی ہے اور لوگوں کو اطاعت و بندگی پر مجبور کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ علماء اور فقہا نے سیکڑوں برس پہلے جو کچھ لکھ دیا ہے اس کو بے چوں و چرا قبول کر لو خواہ ان کی باتیں کتنی ہے خلاف عقل کیوں نہ ہوں۔ وہ عقل و فہم کا دروازہ بند کر دیتی ہے اور لوگوں کے ذہن و فراست پر قفل ڈال کر مذہبیت کے بہانے اپنے بدترین اغراض نفسانی پورا کرنے میں تامل نہیں کرتی۔ اسی ذہنی کیفیت یا بیماری کی وجہ سے ہمارے ملک میں جہل کی تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ اعتقادات نے عقل انسانی کو بے کار کر رکھا ہے۔
اس ذہنی بیماری میں مبتلا لوگ دوسرے انسانوں کے جسم اور ذہن دونوں کو انتہائی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، انسانیت کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ انسانیت وحشت اور درندگی کے بو جھ کے نیچے پڑی کراہ رہی ہے، کارل مارکس نے کہا تھا چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پر مبنی ہونا چاہیے و حشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے۔ قدامت پر ستی نجانے کتنی قوموں کو تباہ و برباد کر چکی ہے اور اب اس کا شکار ہم بنے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ترقی، خوشحالی، علم چاہتے ہیں تو ہمیں قدامت پرستی کی لعنت سے آزاد ہونا ہو گا۔ اپنے آپ کو احمق و جاہل نہیں بلکہ سمجھ دار انسان باور کر کے ہر بات علم و عقل کے مطابق سمجھنے کی کو شش کرنا ہو گی۔ پرستش اسلاف ترک کرنا ہو گی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو کہ جس طرح ہزاروں اندھی قومیں اب سے قبل تباہ ہو چکی ہیں اسی طرح ہم بھی تباہ ہو جائینگے۔ خدا صرف ہمارا نہیں بلکہ وہ سارے انسانوں کا خدا ہے اور وہ بے نیاز ہے۔