نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
’’مرے اردگرد آنسو‘ مرے آس پاس آہیں‘‘ اوپردیکھتا ہوں تو پہاڑ روتےنظر آتے ہیں، نیچے دیکھتا ہوں تو لرزتی زمین نظر آتی ہے۔
''مرے اردگرد آنسو' مرے آس پاس آہیں'' اوپر دیکھتا ہوں تو پہاڑ روتے نظر آتے ہیں، نیچے دیکھتا ہوں تو لرزتی زمین نظر آتی ہے۔ گلابوں کا شہر پشاور خون میں نہا گیا۔ عرصہ ہوا عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، خودکش بمبار درندے عبادت گاہوں میں داخل ہو کر خود کو اڑا دیتے ہیں، جہاں اللہ کے بندے اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے آتے ہیں، اپنے خالق کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ پھر اس پاک ذات سے اپنے لیے رحم و کرم مانگتے ہیں۔ اتنے اچھے، پاکیزہ اور پیارے ماحول میں جہاں سکون کی چند گھڑیاں دکھی انسانوں کو میسر آتی ہیں۔ یہ خودکش بمبار پاکیزہ ماحول اور سکون کی گھڑیوں کو اپنے مکروہ فعل سے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم جنداللہ ہیں۔ پتا نہیں ان کا اللہ کون ہے۔
ہمارے نبی پاک نے بڑا واضح فرمان جاری کیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل رہے گا۔ کوئی مسلمان کسی بھی عبادت گاہ سے کوئی بھی چیز اٹھا کر اپنی مسجد میں نہیں لائے گا۔ اگر کوئی عیسائی عورت اپنی مرضی و منشا کے ساتھ کسی مسلمان مرد سے شادی کرے تو اسے مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو گا کہ وہ اپنے گرجا گھر میں عبادت کے لیے جائے۔ اس کا مسلمان شوہر اس بارے میں کوئی روک ٹوک نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی غیر مذہب کسی مسلمان کا پڑوسی ہے تو اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی مسلمان پڑوسی کو حاصل ہوتے ہیں۔'' نبی پاک کے ان واضح اور دو ٹوک ارشادات کے بعد کون مسلمان ہو گا جو اپنے نبیؐ کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا۔ تو پھر یہ کون ہیں؟ جنہوں نے پشاور کے گرجے میں داخل ہو کر خود کو بموں سے اڑایا اور چار سو سے زیادہ انسانی جانیں لے لیں اور عبادت گاہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ یقینا یہ ظالم درندے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمہ گو نہیں ہیں۔ ان دہشت گردوں کا کوئی دین مذہب ایمان نہیں ہے۔ ان وحشیوں کا کوئی ملک نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی آئین قانون کو مانتے ہیں۔ ان کا مذہب ''دہشت'' ہے اور عمل تباہی و بربادی پھیلانا ہے۔
''دہشت'' کے ماننے والے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ آج کوئی ملک بھی ان سے محفوظ نظر نہیں آتا۔ یہی دہشتگرد گزشتہ پچیس تیس سال سے ہمارے پاکستان کو ناپاک ستان بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے ''آقا و مولا'' انھیں جدید ترین مہلک ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور ہتھیاروں کی ترسیل بلا روک ٹوک جاری و ساری رہتی ہے۔ ان کے آقا و مولا کے ہزاروں لمبے لمبے ہاتھ ہیں اور دو ہاتھوں والے انسان، ان ہزاروں لمبے ہاتھوں کے سامنے بے بس ہیں۔ دہشت کے پیروکاروں میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں۔ میرے ایک دوست نے پندرہ بیس سال پہلے کا واقعہ مجھے سنایا تھا۔ اسی کراچی شہر کا واقعہ۔ میرا دوست مغرب سے ذرا پہلے اپنے گھر کے دروازے پر دو ایک احباب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ قریب سے چند نوجوان گزرے۔ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اور ماؤزر تھے اور ان کا سرغنہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا ''نالی بھر لو...'' یعنی ہتھیار لوڈ کر لو۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت کے ماننے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ہتھیار لوڈ کر لو کہنا نہیں آتا اور ان کا سرغنہ نشے میں دھت، خون آنکھوں میں اترا ہوا، گریبان کھلا ہوا، لمبے لمبے میلے بال کاندھوں پر جھولتے ہوئے۔ میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے احباب سے کہا ''اللہ خیر کرے، پتہ نہیں کس تباہی و بربادی پر یہ جا رہے ہیں'' اور پھر میرے دوست نے بتایا تھا کہ پانچ یا دس منٹ بعد پورا علاقہ خوفناک فائرنگ سے گونج رہا تھا۔
مسجد، مندر، گوردوارے، گرجے، اب کچھ محفوظ نہیں۔ انسانی بستیاں، بلڈنگیں، بازار، بسیں، ریل گاڑیاں، سب برباد ہو چکے۔ کیا ہندوستان، کیا پاکستان، کیا افغانستان۔ دہشت کے ماننے والے ہر ملک میں موجود ہیں۔ اس ''عقیدے کے آقا مولا'' جدید ترین سائنسی ایجادات کے مالک ہیں۔ ساری دنیا کے بٹن ان کی دسترس میں ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کہیں بھی کسی بھی ملک کا نظام مفلوج کر دیتے ہیں۔ اب ہم جیسے عام لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ معاملہ مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ یا شیعہ سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث کا نہیں رہا ہے۔ دراصل ہم سب دہشت کے پیروکاروں کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ سمندر، پہاڑ، زمین، سب ''دہشت'' کے آقا و مولا کی انگلیوں کے اشاروں میں قید ہیں۔
چند سکوں کے عوض بک جانے والے دہشت کے پیروکار اور ان تک مہلک ہتھیاروں کا پہنچنا۔ ہندوستان، پاکستان خصوصاً ''ذرا سوچنا''۔ ہمارے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ہندوستان کے وزیر اعظم من موہن سنگھ۔ اقوام عالم کی انجمن اقوام متحدہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔ برسوں سے الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے کی بات ہو گی۔ دونوں ملکوں کو دہشت کے ماننے والوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دھماکے ہو رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام خط غربت سے کہیں نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بغیر علاج لوگ مر جاتے ہیں۔ جنگ کے نام پر غریبوں کا حق مارا جا رہا ہے۔ قوم کے بچے اسکولوں کی بجائے گلی کوچوں میں کوڑا چن رہے ہیں یا دہشتگردوں کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان مل کر ایسا حل نکالو کہ جنگ ملیا میٹ ہو جائے۔ دہشت کے پیروکاروں کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ امن و آشتی کے ساتھ اچھے ہمسائیوں کی طرح رہا جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ایک بار مجھے احساس ہونے لگا کہ ہمسائے کو جائیداد میں حقدار نہ بنا دیا جائے'' دیکھیے ہمسائے کا یہ مقام ہے اور ہمسایہ بس ہمسایہ ہوتا ہے۔ وہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، یہودی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
رہی بات مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ میں ذکر تو یہ انجمن 65 سال میں کچھ نہ کر سکی تو اب کیا کرے گی۔ جالبؔ نے بہت پہلے کہا تھا:
نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
اس انجمن میں نہ کر' عرض مدعا اے دل
تو ہندو پاک کو اپنے مسئلے خود ہی حل کرنے ہوں گے۔ میں قلم رکھتے رکھتے دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہوئے کہوں گا کہ یہ ڈیرے داری بند کر دو، کیونکہ:
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں پر امریکا کا ڈیرا ہے
ہمارے نبی پاک نے بڑا واضح فرمان جاری کیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل رہے گا۔ کوئی مسلمان کسی بھی عبادت گاہ سے کوئی بھی چیز اٹھا کر اپنی مسجد میں نہیں لائے گا۔ اگر کوئی عیسائی عورت اپنی مرضی و منشا کے ساتھ کسی مسلمان مرد سے شادی کرے تو اسے مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہو گا کہ وہ اپنے گرجا گھر میں عبادت کے لیے جائے۔ اس کا مسلمان شوہر اس بارے میں کوئی روک ٹوک نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی غیر مذہب کسی مسلمان کا پڑوسی ہے تو اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی مسلمان پڑوسی کو حاصل ہوتے ہیں۔'' نبی پاک کے ان واضح اور دو ٹوک ارشادات کے بعد کون مسلمان ہو گا جو اپنے نبیؐ کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا۔ تو پھر یہ کون ہیں؟ جنہوں نے پشاور کے گرجے میں داخل ہو کر خود کو بموں سے اڑایا اور چار سو سے زیادہ انسانی جانیں لے لیں اور عبادت گاہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ یقینا یہ ظالم درندے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمہ گو نہیں ہیں۔ ان دہشت گردوں کا کوئی دین مذہب ایمان نہیں ہے۔ ان وحشیوں کا کوئی ملک نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی آئین قانون کو مانتے ہیں۔ ان کا مذہب ''دہشت'' ہے اور عمل تباہی و بربادی پھیلانا ہے۔
''دہشت'' کے ماننے والے پوری دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ آج کوئی ملک بھی ان سے محفوظ نظر نہیں آتا۔ یہی دہشتگرد گزشتہ پچیس تیس سال سے ہمارے پاکستان کو ناپاک ستان بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے ''آقا و مولا'' انھیں جدید ترین مہلک ہتھیار فراہم کرتے ہیں اور ہتھیاروں کی ترسیل بلا روک ٹوک جاری و ساری رہتی ہے۔ ان کے آقا و مولا کے ہزاروں لمبے لمبے ہاتھ ہیں اور دو ہاتھوں والے انسان، ان ہزاروں لمبے ہاتھوں کے سامنے بے بس ہیں۔ دہشت کے پیروکاروں میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں۔ میرے ایک دوست نے پندرہ بیس سال پہلے کا واقعہ مجھے سنایا تھا۔ اسی کراچی شہر کا واقعہ۔ میرا دوست مغرب سے ذرا پہلے اپنے گھر کے دروازے پر دو ایک احباب کے ساتھ بیٹھا تھا کہ قریب سے چند نوجوان گزرے۔ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اور ماؤزر تھے اور ان کا سرغنہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا ''نالی بھر لو...'' یعنی ہتھیار لوڈ کر لو۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دہشت کے ماننے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں ہتھیار لوڈ کر لو کہنا نہیں آتا اور ان کا سرغنہ نشے میں دھت، خون آنکھوں میں اترا ہوا، گریبان کھلا ہوا، لمبے لمبے میلے بال کاندھوں پر جھولتے ہوئے۔ میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے احباب سے کہا ''اللہ خیر کرے، پتہ نہیں کس تباہی و بربادی پر یہ جا رہے ہیں'' اور پھر میرے دوست نے بتایا تھا کہ پانچ یا دس منٹ بعد پورا علاقہ خوفناک فائرنگ سے گونج رہا تھا۔
مسجد، مندر، گوردوارے، گرجے، اب کچھ محفوظ نہیں۔ انسانی بستیاں، بلڈنگیں، بازار، بسیں، ریل گاڑیاں، سب برباد ہو چکے۔ کیا ہندوستان، کیا پاکستان، کیا افغانستان۔ دہشت کے ماننے والے ہر ملک میں موجود ہیں۔ اس ''عقیدے کے آقا مولا'' جدید ترین سائنسی ایجادات کے مالک ہیں۔ ساری دنیا کے بٹن ان کی دسترس میں ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں کہیں بھی کسی بھی ملک کا نظام مفلوج کر دیتے ہیں۔ اب ہم جیسے عام لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ معاملہ مسلمان، ہندو، عیسائی، سکھ یا شیعہ سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث کا نہیں رہا ہے۔ دراصل ہم سب دہشت کے پیروکاروں کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ سمندر، پہاڑ، زمین، سب ''دہشت'' کے آقا و مولا کی انگلیوں کے اشاروں میں قید ہیں۔
چند سکوں کے عوض بک جانے والے دہشت کے پیروکار اور ان تک مہلک ہتھیاروں کا پہنچنا۔ ہندوستان، پاکستان خصوصاً ''ذرا سوچنا''۔ ہمارے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ہندوستان کے وزیر اعظم من موہن سنگھ۔ اقوام عالم کی انجمن اقوام متحدہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔ برسوں سے الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے کی بات ہو گی۔ دونوں ملکوں کو دہشت کے ماننے والوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دھماکے ہو رہے ہیں، چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام خط غربت سے کہیں نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بغیر علاج لوگ مر جاتے ہیں۔ جنگ کے نام پر غریبوں کا حق مارا جا رہا ہے۔ قوم کے بچے اسکولوں کی بجائے گلی کوچوں میں کوڑا چن رہے ہیں یا دہشتگردوں کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان مل کر ایسا حل نکالو کہ جنگ ملیا میٹ ہو جائے۔ دہشت کے پیروکاروں کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ امن و آشتی کے ساتھ اچھے ہمسائیوں کی طرح رہا جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ایک بار مجھے احساس ہونے لگا کہ ہمسائے کو جائیداد میں حقدار نہ بنا دیا جائے'' دیکھیے ہمسائے کا یہ مقام ہے اور ہمسایہ بس ہمسایہ ہوتا ہے۔ وہاں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، یہودی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
رہی بات مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ میں ذکر تو یہ انجمن 65 سال میں کچھ نہ کر سکی تو اب کیا کرے گی۔ جالبؔ نے بہت پہلے کہا تھا:
نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل
اس انجمن میں نہ کر' عرض مدعا اے دل
تو ہندو پاک کو اپنے مسئلے خود ہی حل کرنے ہوں گے۔ میں قلم رکھتے رکھتے دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہوئے کہوں گا کہ یہ ڈیرے داری بند کر دو، کیونکہ:
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
لیکن ان دونوں ملکوں پر امریکا کا ڈیرا ہے