کرائے ضرور لیجیے مگر۔۔۔۔

عام آدمی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلیےرکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتا ہے اور ’’کرائے‘‘بھی دیتا ہے۔


Syed Asadullah October 01, 2013

عام آدمی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے رکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتا ہے جس کے لیے وہ ''کرائے'' بھی دیتا ہے۔ مفت سفر کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن کرائے ادا کرنے کے باوجود وہ سفری سہولیات سے مستفید نہیں ہوتا بلکہ سفر کے دوران تکلیفیں ہی اٹھاتا ہے۔ یعنی پیسہ بھی خرچ کرے اور تکلیف بھی اٹھائے۔ ایسے میں بھلا عوام کو ریلیف دینے کے وعدے جھوٹے ہونے کے علاوہ الٹا عوام سے مختلف مدات میں پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ عوام ویسے ہی مہنگائی، بیروزگاری، غربت کی چکیوں میں پِس رہے ہیں، اوپر سے حکومتیں غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کے کندھوں پر مختلف ذرایع سے بوجھ ڈالے جا رہی ہے۔ نہیں ان کو سروکار عوام کی خستہ حالی سے۔ انھیں تو اپنی جیبیں بھرنا ہے، چاہے جائز طریقے سے ہو کہ ناجائز طریقے سے۔ کون سمجھائے انھیں کہ جناب آپ نے عوام کی خدمت کے لیے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ کسی طرح سے بھی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔

بس خالی خزانے کو بھرنا مقصود ہے۔ اسی لیے تو موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو ٹیکس زدہ بجٹ دیا اور پھر نعرہ لگا دیا کہ ''خزانہ خالی'' ہے۔ کام کریں تو کیسے کریں۔ کیا خوب انداز اپنایا گیا، اپنے اقتدار کے آغاز کے لیے۔ تا کہ اگر آگے چل کر حکومتی حکمت عملی میں اتار چڑھاؤ آئیں تو یہ کہنے کا جواز مل جائے گا کہ ہم نے ابتدا ہی میں عوام کو آگاہ کر دیا تھا کہ ''خزانہ خالی'' ہے، اس لیے تو ہم نے خزانہ بھرنے کے لیے کشکول اٹھاکر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، اس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ اگر ایسا نہ کرتے تو بے چاری عوام کو چارہ گر کہاں سے بناتے۔ ہمیں تو عوام کی خدمت کرنا ہے۔ چاہے خزانہ خالی ہو کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑے۔ ہم نے الیکشن مہم کے دوران ہی اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے چند وعدے کیے تھے جن کو پورا کرنا بھی تو ضروری ہے۔ واقعی عقل حیران ہے کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی عوام کے دکھوں کو سمجھا اور ان کے تدارک کے لیے وقتی اور فوری اقدامات کیے۔

اتنا سب راز کھول دینے کے بعد آپ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ عوام کو ریلیف دینا ترجیح نہیں بلکہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادنا، مہنگائی کو فروغ دینا، غربت میں اضافے کا سبب بننا، یہ ان کی ترجیحات ہیں۔ کر لو جو کرنا ہو۔ تو بھلا وہ اپنی اس نازک پوزیشن میں رکشوں، ٹیکسیوں، بسوں یا ویگنوں کے کرایوں کی طرف کیسے توجہ مبذول کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کر دیا تو پھر پٹرولیم مصنوعات پہلے کم کرنا ہوں گی۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کیوں خواہ مخواہ تشویش میں مبتلا ہو۔ ان کی گردن پر پہلے ہی آئی ایم ایف نے جوا رکھ دیا ہے۔ اب ان کی حیثیت کولہو کے بیل کی ہو گئی ہے۔ خاموشی سے آئی ایم ایف کے رکھوالے کی نگرانی میں کولہو کا بیل بنے رہو۔ دیکھا نہیں رکھوالا بھی خالی ہاتھ نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھی موٹا سا ڈنڈا تھما دیا گیا ہے کہ کولہو کے بیل نے کچھ اڑی کی تو زور سے ٹھکائی لگا دینا۔ پرواہ کیے بغیر کیونکہ ہم جو تمہاری کارکردگی پر اپنے سیٹلائٹ کے ذریعے نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اب تو صورت حال ہی بگڑ گئی۔ ہم تو رو رہے تھے کرایوں کا رونا لیکن وہاں تو کئی ایسی شرائط بھی ملیں کہ شرمندگی سے سر جھکائے واپس آ گئے۔ اب تو ایک تازہ تازہ شرط جو آئی ایم ایف نے تھمائی ہے وہ یہ ہے کہ ''بجلی اور مہنگی کرو''۔ ارے صاحب! بجلی تو پہلے ہی اتنی مہنگی ہے کہ عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ ہم اب بجلی مزید مہنگی نہیں کر سکتے کیونکہ عوام توانائی کے بحران کو پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ اب مزید آپ کیا چاہتے ہیں کیا عوام کو پھر ماضی کے پتھروں کے دور میں دھکیل دیں۔ وہی تیل کے چراغ جلانے اور وہی گوبر کے اوپلوں کی آگ سے کھانا پکائیں اور رکشہ، ٹیکسی، بسوں یا ویگنوں کے بجائے بیل گاڑیوں کے ذریعے سفر کرنے پر آمادہ کر دیں۔ نہیں نہیں! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ عوام کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے آپ کے مجوزہ تباہ کن شرائط پر عمل نہیں کر سکتے۔ ''اچھا اگر تم یہ نہیں کر سکتے ہو تو پھر سن لو منظور شدہ قرضے کی قسط نہیں ملے گی۔ بلکہ پچھلے قرض کی واجب الادا ہونے والی قسط فوراً جمع کراؤ۔ جاؤ گے کہاں بچ کے۔ خبردار! کسی قسم کی چالاکی نہ دکھانا۔ یہ آئی ایم ایف ہی کا ادارہ ہے کہ تمہاری معیشت کو سہارا دیا ہے۔''

ارے جناب! آپ کے قرضے کی اقساط دینے کے بعد ہمارے پاس بچ ہی کیا جاتا ہے، جو عوام کو ریلیف دیں۔ بڑی مشکل میں پھنسی ہے عوام کی ڈولتی کشتی، ساحل پر لگے تو کیسے لگے؟ تو بھائی رکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں والو! تم ہی سوچو تم کرایہ لے کر بھی نہ میٹر سے چلاؤ گے، نہ مناسب دام لو گے تو عوام کا حشر کیا ہو گا۔ عوام تو پہلے ہی پٹرولیم کے نرخ میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پریشان تھے کہ اب سی این جی بھی وبال جان بن گئی۔ کبھی ہفتے میں تین دن تو کبھی ہر ایک دن بعد ناغہ کا سسٹم جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس کا خمیازہ بھی صرف رکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں والوں کو ہی نہیں بھگتنا پڑ رہا بلکہ عوام بھی اپنی نجی سواریوں کے لیے پٹرول، گیس کے بحرانوں سے دوچار ہیں۔ شکوہ کریں تو کس سے کریں۔ کون ہماری اور رکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں والوں کی داد رسی کرے گا۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کوئی امید بر نہیں آتی۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ کس سے انصاف طلب کریں، کسے منصف بنائیں۔ صحیح ہے تمہارا کہنا کہ عدالت عظمیٰ عوامی مسائل کا نوٹس لے رہی ہے بلکہ ''سوموٹو ایکشن'' بھی لے رہی ہے۔ مگر وہ نوٹس لے کر عملدرآمد کی ہدایت ہی دے سکتی ہے۔ حکومتی معاملات میں عمل دخل تو نہیں کر سکتی۔

ابھی گزشتہ دنوں ہی بلوچستان کے شہر آواران میں شدید زلزلہ آیا۔ اب بھی وقت ہے، سدھار لو اپنے آپ کو، خدا نخواستہ اگر ان قدرتی آفات کا سلسلہ چل پڑا تو نہ تم ہو گے نہ ہم ہوں گے۔ علمائے کرام بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ اس گمبھیر صورت حال کا سبب ہماری ہی نیتوں اور اعمال میں کھوٹ پیدا ہونے کی وجہ سے ہے۔ تمام بدعنوانیوں، کرپشن، رشوت ستانی اور دیگر جرائم کی بیخ کنی پر توجہ دو تا کہ عوام کو ریلیف ملے اور ملک کے موجودہ حالات تبدیل ہونے کے آثار نظر آئیں۔ تمام رکشہ ٹیکسی والوں کو میٹر نصب کر کے اس کے مطابق کرائے وصول کرنے کے احکامات جاری کرو، بسوں والوں کو ٹکٹ دینے کا پابند بناؤ۔ مگر یہ محض زبانی کلامی کی حد تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ حقیقی معنوں میں عمل درآمد کرایا جائے۔ حالات میں تبدیلی محسوس ہونی چاہیے تب ہی عوام کو اطمینان و سکون ملے گا۔ محض زبانی دعوے کارگر نہ ہوں گے۔ آخر میں پھر رکشہ، ٹیکسی، بسوں اور ویگنوں والوں سے یہی کہوں گا کہ خدارا! اپنے رکشے اور ٹیکسیوں میں میٹر لگوا لو، بس والے ٹکٹ چھپوا لیں، ویگن والے بھی باقاعدہ ٹکٹ جاری کریں۔ مقررہ کرائے وصول کریں، آئے دن کرائے نہ بڑھائیں۔ عوام کو مشکلوں میں نہ ڈالیں بلکہ عوام کو ان کی ضروریات زندگی کی سہولتیں با آسانی مہیا کریں۔ کیونکہ عوام خوشحال ہوں گے تو ملک بھی خوشحال ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں