روٹی یا گلدستہ
اس حکومت کے قیام کے بعد صرف ایک سال میں ایک لاکھ لوگ بیروزگار اور16 فیصد کی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
جیب میں اگر دس روپے ہوں تو انسان پہلے روٹی خریدے گا نہ کہ گلدستہ۔ اسی لیے عظیم انقلابی شاعر بلھے شاہ کہتا ہے کہ '' پانچ فرائض کے علاوہ ایک اور فرض ہے اور وہ ہے روٹی کا۔
اگر یہ چھٹا فرض پورا نہیں ہوتا تو سارے فرائض بیکار ہیں'' آج اسی روٹی کے لیے لوگ لڑ پڑتے ہیں ، مزدوری کرتے ہیں، بازار میں اپنے آپکو سستے داموں میں بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں ، جب چوراہے پر سو مزدور اپنی قوت محنت کو سستے داموں میں بیچنے کو تیار ہوں اور خریدار کو صرف دو مزدوروں کی ضرورت ہو تو ہر ایک کم سے کم میں خود کو بیچنا چاہے گا۔
یہی سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی نظام ہے۔ مزدوروں کو مزدوری کم دے کر سرمایہ دار ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتا ہے اور اسی دنیا میں لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار لوگ مر جاتے ہیں جب کہ 10ارب کی آبادی کو کھلانے کے لیے غذا موجود ہوتی ہے اسی لیے صرف 12 سرمایہ دار دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، اگر پینٹا گون صرف ایک سال اسلحے کی پیداوار نہ کرے تو آئندہ 5سال تک اس دنیا میں کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ پاکستان کی معیشت غیر پیداواری اخراجات پر زیادہ صرف ہوتی ہے اور پیداواری اخراجات پر کم۔ ہمارے ملک میں ہماری معیشت ہر سال تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
پی ٹی آئی کی نئی حکومت نے صرف ایک سال میں 16بلین کی برآمدکی ہے۔ مہنگائی میں 16فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، ڈالر 160 روپے کا ہو چکا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں 10ارب روپے ڈوب گئے۔ اگست 2019 تک ترسیلات زر میں 34.84 کروڑ ڈالرکی کمی ہوئی۔
رواں مالی سال کے 2ماہ میں سیمنٹ کی مقامی کھپت میں کمی ہوئی۔ صنعتی پیداواری صلاحیت 55.96 ملین ٹن ہو گئی ہے جب کہ کھپت 46.8 ملین ٹن ہے۔ جولائی اور اگست میں کاروں کی فروخت میں 41.3 فیصد کی کمی ہوئی ہے چونکہ ہمارے ہاں زرعی پیداوار پر کم اور غیر پیدا واری اخراجات (اسلحہ کی پیداوار) زیادہ کی جاتی ہے۔
اسی لیے ہم اسلحہ کی پیداوار میں دنیا کے 10سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہیں جب کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں آخری نمبر پہ ہیں۔ جیسا کہ امریکا کے پاس جنگی طیارے 13398، روس کے پاس 4078، چین کے پاس 3178، بھارت کے پاس 2082 اور پاکستان کے پاس 2810 جب کہ لائبیریا کے پاس ایک بھی نہیں۔ اگر ہم ان جنگی جہازوں کی تیاری اور خریداری کو روک کر دالیں، چاول، گندم ، دودھ، چائے، آلو، پیاز ،کنولا، مکئی، سویا بین ، ڈیری، پولٹری کی پیداوار پر توجہ دیں تو ان کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔ پاکستان 70 سے 90 ملین ٹن گنے کی پیداوار کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملک بھر میں 90 شوگر ملزگنے سے چینی بنا رہی ہیں۔
ملوں سے بھاری مقدار میں 'راب' گنے کا شیرا نکلتا ہے جس سے ایتھانول تیارکیا جا تا ہے جو بطور ایندھن حکومت اگر توجہ دے تو بھاری مقدار میں ہم صنعتی الکوحل سے ماحول دوست بائیو ایندھن تیارکر سکتے ہیں۔ ہم چینی، گوشت، پھل، گندم ، چاول ، سبزیاں وغیرہ برآمد کرتے ہیں جب کہ اشیاء خورو نوش کی قیمتیں پاکستان میں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایسے بر آمدات سے عوام کو کیا فائدہ کہ لوگ بھوکے مریں اور آپ ہمارے منہ سے نوالہ چھین کر برآمد کریں۔ ابھی دس روز قبل حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ دس اشیاء خوردنی کی قیمتیں کم کی جا رہی ہیں جن میں دالیں ( مونگ ، مسور، چنا، ماش ، لوبیہ، آٹا ،گھی ، چینی اور چاول مگر بازار میں ان اشیاء خوردنی کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں۔
چکی کا آٹا 5کلوکی بوری والا، 250 روپے کا تھا اب 270کا دستیاب ہے، تیل فی کلو 230 کا تھا ا ب 235 کا ہو گیا ہے، چینی رمضان میں 55 تا 60 روپے ملتی تھی اب 78 اور 85 روپے فی کلو، چائے کی قیمت میں فی کلو سو روپے کا اضافہ ہوا ہے، چاول کی قیمت میں 10 سے 20 رو پے فی کلو اضافہ ہوا ہے، بلوبینڈ مارجرین 15 روپے والا 30 اور 40 روپے والا 60 روپے کا ہو گیا ہے، دودھ 97 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 110 روپے فی لیٹر کراچی میں فروخت ہو رہا ہے، سبزیاں 80 سے 160 روپے فی کلو بک رہی ہیں جب کہ دوسری جا نب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ 17500 روپے ہو گی۔
80 فیصد مزدوروں کو 8 سے 12 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کرواتا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے توحکم جاری کر دیا ہے اب اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو یہ کام نچلے اداروں کا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ اسمبلی ممبر کی تنخواہ 84 ہزار تھی اب یہ ایک لاکھ 84 ہزار ہوگئی ہے۔ اس کی منظوری میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ، سب نے ہاں میں ہاتھ اٹھایا۔ان کی منظور شدہ تنخواہ بہ آسانی ادا کی جاتی ہے مگر مزدوروں کی منظور شدہ تنخواہیںکیوں ادا نہیں کی جاتیں؟اس لیے کہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی نمائندہ ادارہ ہوتا ہے وہ کیونکرعوام کی بھلا ئی کے لیے اس پر عمل درآمد کروائے گی۔
اس حکومت کے قیام کے بعد صرف ایک سال میں ایک لاکھ لوگ بیروزگار اور16 فیصد کی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ اعداد وشمار میرے یا کسی ادارے کی نہیں بلکہ حکومت کے اپنے اعداد وشمارہیں۔ جب لوگ بیروزگار ہونگے تو جینے یا مرنے کے لیے ڈاکے، چوری، خودکشی، عصمت فروشی، منشیات نوشی یا گدا گری کرینگے۔
ابھی حال ہی میں جنوبی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک بولیویا نے اعلان کیا ہے کہ 2020ء میں غذا میں خودکفیل ہو جائے گا اور اشیائے خورونوش باہر سے نہیں منگوانی پڑیگی۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ میزائل ۔ وہاں کی حکومت نے زمین کے چھوٹے چھوٹے رقبے بنا کر کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جس سے نہ صرف غذائی خود کفالت ہوئی بلکہ ماحولیات بہتر ہو گئے، ملک سرسبز و شاداب ہو گیا۔ بہت سی مہلک بیماریاں ناپید ہو گئیں اور آکسیجن میں بھی اضافہ ہوا۔ یہاں فوج اور اسلحے کی پیداوار نہ ہو نے کے برابر ہے جب کہ وسائل ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ ہم بھی غذائی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ غیر پیداواری اخراجات کو روک کر عوام کو سستی اشیاء مہیا کریں ۔
اگر یہ چھٹا فرض پورا نہیں ہوتا تو سارے فرائض بیکار ہیں'' آج اسی روٹی کے لیے لوگ لڑ پڑتے ہیں ، مزدوری کرتے ہیں، بازار میں اپنے آپکو سستے داموں میں بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں ، جب چوراہے پر سو مزدور اپنی قوت محنت کو سستے داموں میں بیچنے کو تیار ہوں اور خریدار کو صرف دو مزدوروں کی ضرورت ہو تو ہر ایک کم سے کم میں خود کو بیچنا چاہے گا۔
یہی سرمایہ داری، جاگیرداری اور سامراجی نظام ہے۔ مزدوروں کو مزدوری کم دے کر سرمایہ دار ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتا ہے اور اسی دنیا میں لوگ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار لوگ مر جاتے ہیں جب کہ 10ارب کی آبادی کو کھلانے کے لیے غذا موجود ہوتی ہے اسی لیے صرف 12 سرمایہ دار دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، اگر پینٹا گون صرف ایک سال اسلحے کی پیداوار نہ کرے تو آئندہ 5سال تک اس دنیا میں کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ پاکستان کی معیشت غیر پیداواری اخراجات پر زیادہ صرف ہوتی ہے اور پیداواری اخراجات پر کم۔ ہمارے ملک میں ہماری معیشت ہر سال تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
پی ٹی آئی کی نئی حکومت نے صرف ایک سال میں 16بلین کی برآمدکی ہے۔ مہنگائی میں 16فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے، ڈالر 160 روپے کا ہو چکا ہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں 10ارب روپے ڈوب گئے۔ اگست 2019 تک ترسیلات زر میں 34.84 کروڑ ڈالرکی کمی ہوئی۔
رواں مالی سال کے 2ماہ میں سیمنٹ کی مقامی کھپت میں کمی ہوئی۔ صنعتی پیداواری صلاحیت 55.96 ملین ٹن ہو گئی ہے جب کہ کھپت 46.8 ملین ٹن ہے۔ جولائی اور اگست میں کاروں کی فروخت میں 41.3 فیصد کی کمی ہوئی ہے چونکہ ہمارے ہاں زرعی پیداوار پر کم اور غیر پیدا واری اخراجات (اسلحہ کی پیداوار) زیادہ کی جاتی ہے۔
اسی لیے ہم اسلحہ کی پیداوار میں دنیا کے 10سرفہرست ملکوں میں سے ایک ہیں جب کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں آخری نمبر پہ ہیں۔ جیسا کہ امریکا کے پاس جنگی طیارے 13398، روس کے پاس 4078، چین کے پاس 3178، بھارت کے پاس 2082 اور پاکستان کے پاس 2810 جب کہ لائبیریا کے پاس ایک بھی نہیں۔ اگر ہم ان جنگی جہازوں کی تیاری اور خریداری کو روک کر دالیں، چاول، گندم ، دودھ، چائے، آلو، پیاز ،کنولا، مکئی، سویا بین ، ڈیری، پولٹری کی پیداوار پر توجہ دیں تو ان کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔ پاکستان 70 سے 90 ملین ٹن گنے کی پیداوار کے ساتھ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ملک بھر میں 90 شوگر ملزگنے سے چینی بنا رہی ہیں۔
ملوں سے بھاری مقدار میں 'راب' گنے کا شیرا نکلتا ہے جس سے ایتھانول تیارکیا جا تا ہے جو بطور ایندھن حکومت اگر توجہ دے تو بھاری مقدار میں ہم صنعتی الکوحل سے ماحول دوست بائیو ایندھن تیارکر سکتے ہیں۔ ہم چینی، گوشت، پھل، گندم ، چاول ، سبزیاں وغیرہ برآمد کرتے ہیں جب کہ اشیاء خورو نوش کی قیمتیں پاکستان میں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایسے بر آمدات سے عوام کو کیا فائدہ کہ لوگ بھوکے مریں اور آپ ہمارے منہ سے نوالہ چھین کر برآمد کریں۔ ابھی دس روز قبل حکومت پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ دس اشیاء خوردنی کی قیمتیں کم کی جا رہی ہیں جن میں دالیں ( مونگ ، مسور، چنا، ماش ، لوبیہ، آٹا ،گھی ، چینی اور چاول مگر بازار میں ان اشیاء خوردنی کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں۔
چکی کا آٹا 5کلوکی بوری والا، 250 روپے کا تھا اب 270کا دستیاب ہے، تیل فی کلو 230 کا تھا ا ب 235 کا ہو گیا ہے، چینی رمضان میں 55 تا 60 روپے ملتی تھی اب 78 اور 85 روپے فی کلو، چائے کی قیمت میں فی کلو سو روپے کا اضافہ ہوا ہے، چاول کی قیمت میں 10 سے 20 رو پے فی کلو اضافہ ہوا ہے، بلوبینڈ مارجرین 15 روپے والا 30 اور 40 روپے والا 60 روپے کا ہو گیا ہے، دودھ 97 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 110 روپے فی لیٹر کراچی میں فروخت ہو رہا ہے، سبزیاں 80 سے 160 روپے فی کلو بک رہی ہیں جب کہ دوسری جا نب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی تنخواہ 17500 روپے ہو گی۔
80 فیصد مزدوروں کو 8 سے 12 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے، اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کرواتا۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے توحکم جاری کر دیا ہے اب اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو یہ کام نچلے اداروں کا ہے۔ اب ذرا سوچیں کہ اسمبلی ممبر کی تنخواہ 84 ہزار تھی اب یہ ایک لاکھ 84 ہزار ہوگئی ہے۔ اس کی منظوری میں کوئی اختلاف نہیں ہوا ، سب نے ہاں میں ہاتھ اٹھایا۔ان کی منظور شدہ تنخواہ بہ آسانی ادا کی جاتی ہے مگر مزدوروں کی منظور شدہ تنخواہیںکیوں ادا نہیں کی جاتیں؟اس لیے کہ ریاست صاحب جائیداد طبقات کی نمائندہ ادارہ ہوتا ہے وہ کیونکرعوام کی بھلا ئی کے لیے اس پر عمل درآمد کروائے گی۔
اس حکومت کے قیام کے بعد صرف ایک سال میں ایک لاکھ لوگ بیروزگار اور16 فیصد کی مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ یہ اعداد وشمار میرے یا کسی ادارے کی نہیں بلکہ حکومت کے اپنے اعداد وشمارہیں۔ جب لوگ بیروزگار ہونگے تو جینے یا مرنے کے لیے ڈاکے، چوری، خودکشی، عصمت فروشی، منشیات نوشی یا گدا گری کرینگے۔
ابھی حال ہی میں جنوبی امریکا کا ایک چھوٹا سا ملک بولیویا نے اعلان کیا ہے کہ 2020ء میں غذا میں خودکفیل ہو جائے گا اور اشیائے خورونوش باہر سے نہیں منگوانی پڑیگی۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ میزائل ۔ وہاں کی حکومت نے زمین کے چھوٹے چھوٹے رقبے بنا کر کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جس سے نہ صرف غذائی خود کفالت ہوئی بلکہ ماحولیات بہتر ہو گئے، ملک سرسبز و شاداب ہو گیا۔ بہت سی مہلک بیماریاں ناپید ہو گئیں اور آکسیجن میں بھی اضافہ ہوا۔ یہاں فوج اور اسلحے کی پیداوار نہ ہو نے کے برابر ہے جب کہ وسائل ہم سے بہت ہی کم ہیں۔ ہم بھی غذائی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ غیر پیداواری اخراجات کو روک کر عوام کو سستی اشیاء مہیا کریں ۔