سانحہ بلدیہ کیس میں فیکٹری مالکان کے سنسنی خیز انکشافات

فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو شناخت کرلیا

فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو شناخت کرلیا فوٹو:فائل

KARACHI:
سانحہ بلدیہ کیس میں فیکٹری مالکان نے مرکزی ملزمان رحمان بھولا اور زبیر چریا کو شناخت کرلیا ہے جب کہ سنسنی خیز انکشافات بھی کیے ہیں۔

کراچی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔ دبئی میں پاکستان سفارت خانے سے فیکٹری مالک ارشد بھائیلہ کا اسکائپ کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے رحمان بھولا، زبیر چریا، رؤف صدیقی سمیت دیگر ملزمان کو شناخت کرلیا تاہم دو ملزمان کو شناخت نہیں کیا۔

ارشد بھائیلہ نے سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ منصور نے 2004 میں فیکٹری جوائنٹ کی اور اسی سال ایم کیو ایم کا بھتہ بھی شروع ہوگیا، ایم کیو ایم سے معاملات منصور نے طے کرائے تھے، ایم کیو ایم کو 15 سے 25 لاکھ روپے بھتہ جاتا تھا، منصورنے کہا اگر کراچی میں کام کرنا ہے تو ایم کیو ایم سے بنا کر رکھنی ہوگی، پھر حماد صدیقی کے کہنے پر2012 میں 25 کروڑ روپے مانگے گئے ، میں نے منصور سے کہا کہ ایک کروڑ روپے دے کر معاملات طے کرلو، رحمان بھولا نے کہا کہ یا تو 25 کروڑ دیں یا پھر پارٹنر شپ کریں۔

ارشد بھائیلہ نے بتایا کہ 11 ستمبر 2012 کی شام کو فیکٹری سے نکل رہا تھا کہ اکاؤنٹنٹ نے بتایا کہ آگ لگ گئی ہے، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد فائر بریگیڈ پہنچی لیکن ان کے پاس پانی نہیں تھا اور آلات بھی نہیں تھے، میں نے فائر بریگیڈ والوں کو اپنے ہائیڈرنٹ سے پانی کی پیش کش کی جسے انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنا کام کرنے دو۔

بیان میں کہا کہ ہم تین سال تک متاثرین کو راشن دیتے رہے اور مالی امداد بھی کی، کمیشن بنا تو ہم نے فرانسک کی ڈیمانڈ کی جسے مسترد کردیا گیا، اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی نے ہمارے ہی خلاف مقدمہ درج کروایا، ہم نے اپنے کیس کے لئے نعمت اللہ رندھاوا ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کی تھیں جو چند تاریخوں پر پیش ہوئے پھر انہیں بھی قتل کردیا گیا۔

ارشد بھائیلہ نے بیان دیا کہ جون 2013 میں ہمارے انکل کو سائٹ ایریا سے اغواء کرلیا گیا، سی پی ایل سی کے سابق چیف احمد چنائے نے ہمیں اغواء کاروں سے معاملات طے کرنے کا کہا، ہمارے انکل کو بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد رہا گیا۔


بیان کے مطابق 13 ستمبر کو گورنر عشرت العباد نے احمد چنائے کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ ہم گورنر ہاؤس میں خود کو پولیس کے حوالے کردیں، گورنر نے کہا کہ اگر ہم ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کو معاوضہ دیں تو تمام چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی، معاملہ ٹھنڈا کرنا ہے تو ہر مرنے والے کے اہلخانہ کے لیئے 5 لاکھ روپے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر جمع کرادیں۔

ارشد بھائیلہ نے بتایا کہ سابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ نے جیل میں ملاقات کی اور کہا کہ مجھے وکیل کرلیں میں معاملہ ٹھنڈا کروادوں گا، ہم جب ضمانت پر رہا ہوئے تو ایم کیو ایم کی جانب سے ہم پر سخت دباؤ ڈالا گیا، ہم نے ایم کیو ایم کے ذریعے معاملات طے کرنے کا فیصلہ کیا اور ملزم علی قادری کے اکاؤنٹ میں پانچ کروڑ 98 لاکھ روپے جمع کرائے۔

بیان کے مطابق 2005ء میں فیکٹری ملازم منصور نے زبیر عرف چریا کو فیکٹری نے فینشنگ ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کیا، زبیر چریا بلدیہ سیکٹر انچارج اصغر بیگ کے چھوٹے بھائی کا گہرا دوست تھا، جنرل منیجر منصور نے ایم کیو ایم کو 15 لاکھ روپے ماہانہ دینے پر رضا مند کیا، آتشزدگی کے بعد ایم کیو ایم سیکٹر انچارج اعجاز بیگ کو بھتہ دیا، 2012ء میں شاہد بھائلہ، منصور کے آفس میں سیکٹر انچارج اصغر بیگ سے ملا، اصغر بیگ نے کہا اب ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینا پڑے گا۔

ارشد بھائیلہ نے کہا کہ 12 جولائی 2012ء کو اصغر بیگ کی جگہ رحمان بھولا کو بلدیہ کا سیکٹر انچارج لگایا گیا، ایک دن ہم فیکٹری سے نکل رہے تو رحمان بھولا نے روکا اور دھمکی دی کہ بھتے کے لیے حماد صدیقی سے رابطہ کرو، ہم فیکٹری جانے والے روٹ اور گاڑیاں بھی مسلسل تبدیل کر رہے تھے، فیکٹری میں آگ لگی تو اس وقت کے چیف سی پی ایل سی احمد چنائے نے رشتہ دار کے ذریعے پیغام بھیجا، فیکٹری میں مزید رکنا مناسب نہیں ہے تو ہم رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے۔

بیان کے مطابق ہمارے جانے کے بعد ایم کیو ایم کارکنوں نے فیکٹری کا کنٹرول سنبھال لیا اور کسی کو اندر نہیں جانے دیا، 24 گھنٹوں میں ہمارے نام ای سی ایل میں شامل کردیے گئے، کاشف کا خیال تھا کہ زبیر چریا بھی فیکٹری کو آگ لگانے میں ملوث ہے، ہمارے خلاف مقدمہ درج ہوا اور ہمیں ولن اور اصلی ملزم کے طور پر پیش کیا گیا، ہم نے لاڑکانہ سے ضمانت حاصل کی اور پولیس کی تفتیش میں شامل ہوئے۔

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع فیکٹری علی انٹر پرائزز کو بھتہ نہ ملنے پر آگ لگادی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہاں موجود 260 مزدور زندہ جل گئے تھے۔

Load Next Story