شجر کاری منصوبہ بندی کی ضرورت
شجر کاری شہر کی خوبصورتی کا بھی سبب بنے گی اور ماحول میں بھی بہتری آئے گی
تبدیلی سرکار چاہے کچھ کر پائے یا نہ کرپائے، لیکن اس ملک میں سبزے کی سونامی لانے کی کوشش ضرور کررہی ہے۔ کراچی کے اکثر علاقوں میں درخت لگائے جارہے ہیں۔ خوش قسمتی سے کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں کی وجہ سے ان درختوں کی افزائش کی شرح بھی کافی امید افزا رہی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ بھی اپنے علاقوں میں شجرکاری کرتی نظر آرہی ہے۔ لیکن کچھ گزارشات اس سلسلے میں کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں ہمیشہ کی طرح شجر کاری بھی ہر سال موسم برسات میں کی جاتی ہے۔ جس میں مختلف ادارے اپنی اپنی حدود میں شجر کاری کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہماری روایت رہی ہے کہ کوئی بھی محکمہ کسی دوسرے محکمے سے کوئی تعاون یا صلاح مشوره کرنا گناہ سمجھتا ہے۔ ایسا ہی اس بار بھی نظر آرہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی حکومتی مشینری کا حصہ ہوتے تھے۔ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے اس فیلڈ کے ایکسپرٹ لوگوں سے مشوره ضرور کرلیا کرتے تھے۔ ابتدا میں جب ایکسپرٹس سے کراچی میں شجرکاری کے بارے میں رائے لی گئی تھی تو انہوں نے کراچی کےلیے اس کے مزاج اور موسمی حالات کے پیش نظر نیم، جنگل جلیبی اور املتاس کے درختوں کی سفارش کی تھی۔ ان کی سفارش کی روشنی میں یہ درخت پورے کراچی میں لگائے گئے تھے۔ آج بھی اس دور کی کچھ نشانیاں املتاس کے درخت ایوان صدر اور جنگل جلیبی کا ایک درخت پی اے ایف بیس کے سامنے لگا ہوا نظر آتا ہے۔
لیکن جیسے جیسے ہمارے ملک میں نااہلی بڑھتی گئی اور جمہوریت آتی گئی، ویسے ویسے درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ اپنی اپنی پسند کے درخت دوبارہ لگانے کی روایت چل نکلی۔
اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب کراچی کے ہر روڈ کے کنارے صرف سفیدے کے درخت لگادیے گئے تھے۔ پوری شارع فیصل کے کنارے اور دیگر سڑکوں کے کنارے یہی درخت لگے ہوئے تھے۔ لیکن پھر متحدہ کی لوکل گورنمنٹ میں یہ تمام درخت کاٹ کر ان کی جگہ آسٹریلیا سے درآمد کیا ہوا پودا لگادیا گیا، جو کہ انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے۔ کچھ لوگوں نے پوچھنے کی کوشش بھی کی تھی کہ کاٹے جانے والے سفیدے کے درختوں کی لکڑی کہاں چلی گئی؟ کیونکہ اس لکڑی سے ماچس بنائی جاتی ہے، اور وہ کافی قیمت پر بکتی ہے۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔
نیا لگایا جانے والا درخت اب نحوست کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے متعلق ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ وہ زمیں کا پانی انتہائی تیزی سے پی جاتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح اس کی وجہ سے اور گرگئی ہے۔
اب اس درخت کو کاٹ کر نئے درخت لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ بعض علاقوں سے تو یہ درخت کاٹ بھی دیے گئے ہیں۔ کیا کوئی ان درختوں کو لگانے والوں سے پوچھ سکتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے یہ درخت پورے شہر میں کیوں لگا دیے گئے تھے؟ متحدہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ایک بار جماعت کو بھی اس شہر کی میئرشپ مل گئی تھی۔ ان کی اپنی ہی پسند ہے۔ ان کے خیال میں شاید کھجور کا درخت کوئی متبرک درخت ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اندروں سندھ سے کھجور کے پورے تناور درخت اکھاڑ کر کراچی میں لگانے کی روایت ڈالی۔ شارع فیصل کے دونوں طرف ان کے لگائے ہوئے کھجور کے درخت آج بھی موجود ہیں۔
سنا تو یہ ہے کہ ایک درخت تقریباً پچاس ہزار کا اندروں سندھ سے خریدا جاتا ہے۔ پھر اس پر یہاں تک ٹرالر پر لانے کا لاکھوں روپے کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرالر پر صرف آٹھ دس درخت ہی آتے ہیں۔ ان کھجور کے درختوں کی افزائش کی شرح دس فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی اگر دس درخت لگائے جاتے ہیں تو ایک ہی بچ پاتا ہے۔
انہی تمام تجربات کی وجہ سے آج کراچی کی سب سے خوبصورت سڑک شارع فیصل پر دونوں اطراف لگے ہوئے درختوں میں کوئی ترتیب نظر نہیں آتی۔ مختلف اقسام کے درخت ایک دوسرے کے آگے پیچھے جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں کھجور کے درخت دوسرے درختوں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں کھجور کے پیچھے سے کچھ اور درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ بے ہنگم ہریالی خوبصورتی کے بجائے بدصورتی کا باعث بن رہی ہے۔
اب جو نئی شجرکاری کی جارہی ہے وہ بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہورہی ہے۔ کنٹونمنٹ اپنی پسند کے درخت لگا رہی ہے۔ بلدیہ اپنے پسند کے درخت لگارہی ہے۔ ان درختوں کو لگانے کےلیے جگہ جگہ سے فٹ پاتھوں کو بری طرح توڑا جارہا ہے۔ یہ چیز الگ شہر کی صورت بگاڑ رہی ہے۔
آج کچھ الگ ہی نسل کے درخت کراچی میں لگائے جارہے ہیں، جن کے نام بھی شاید کراچی کے عوام کو معلوم نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ عرصے کے بعد کوئی ایکسپرٹ یہ بیان کرے کہ یہ تمام درخت نہ صرف ماحول کےلیے خراب ہیں بلکہ زیر زمین پانی بھی ان ہی کی وجہ سے کم ہورہا ہے۔ کچھ ایسا ہی اسلام آباد میں پہلے ہی ہوچکا ہے۔ باہر سے درامد کیے ہوئے درختوں کی وجہ سے ہر موسم بہار میں پورے اسلام آباد میں الرجی کی وبا پھیل جاتی ہے۔
کیا ہم اتنے نااہل ہوچکے ہیں کہ ایک شجر کاری کے پلان پر بھی متفق نہیں ہوسکتے؟ کیا کوئی ایسا پلان نہیں ترتیب دیا جاسکتا جس کے تحت ہر سڑک اور ہر علاقے کےلیے پہلے سے ہی کوئی درخت مختص کردیا جائے، جس کے علاوہ کوئی دوسرا درخت نہ لگایا جائے۔ درخت کتنے فاصلے پر لگانے ہیں، کس ترتیب سے لگانے ہیں؟ یہ سب اگر پہلے سے ہی ایک پلان کے تحت ہورہا ہو تو شجر کاری شہر کی خوبصورتی کا بھی سبب بنے گی اور ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔ ورنہ تو ہم اسی طرح اپنے شہروں میں جنگل اگاتے رہیں گے، اور کچھ عرصے کے بعد اسے کاٹتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمارے ملک میں ہمیشہ کی طرح شجر کاری بھی ہر سال موسم برسات میں کی جاتی ہے۔ جس میں مختلف ادارے اپنی اپنی حدود میں شجر کاری کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہماری روایت رہی ہے کہ کوئی بھی محکمہ کسی دوسرے محکمے سے کوئی تعاون یا صلاح مشوره کرنا گناہ سمجھتا ہے۔ ایسا ہی اس بار بھی نظر آرہا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی حکومتی مشینری کا حصہ ہوتے تھے۔ وہ کوئی کام کرنے سے پہلے اس فیلڈ کے ایکسپرٹ لوگوں سے مشوره ضرور کرلیا کرتے تھے۔ ابتدا میں جب ایکسپرٹس سے کراچی میں شجرکاری کے بارے میں رائے لی گئی تھی تو انہوں نے کراچی کےلیے اس کے مزاج اور موسمی حالات کے پیش نظر نیم، جنگل جلیبی اور املتاس کے درختوں کی سفارش کی تھی۔ ان کی سفارش کی روشنی میں یہ درخت پورے کراچی میں لگائے گئے تھے۔ آج بھی اس دور کی کچھ نشانیاں املتاس کے درخت ایوان صدر اور جنگل جلیبی کا ایک درخت پی اے ایف بیس کے سامنے لگا ہوا نظر آتا ہے۔
لیکن جیسے جیسے ہمارے ملک میں نااہلی بڑھتی گئی اور جمہوریت آتی گئی، ویسے ویسے درختوں کی کٹائی اور ان کی جگہ اپنی اپنی پسند کے درخت دوبارہ لگانے کی روایت چل نکلی۔
اکثر لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب کراچی کے ہر روڈ کے کنارے صرف سفیدے کے درخت لگادیے گئے تھے۔ پوری شارع فیصل کے کنارے اور دیگر سڑکوں کے کنارے یہی درخت لگے ہوئے تھے۔ لیکن پھر متحدہ کی لوکل گورنمنٹ میں یہ تمام درخت کاٹ کر ان کی جگہ آسٹریلیا سے درآمد کیا ہوا پودا لگادیا گیا، جو کہ انتہائی تیزی سے بڑھتا ہے۔ کچھ لوگوں نے پوچھنے کی کوشش بھی کی تھی کہ کاٹے جانے والے سفیدے کے درختوں کی لکڑی کہاں چلی گئی؟ کیونکہ اس لکڑی سے ماچس بنائی جاتی ہے، اور وہ کافی قیمت پر بکتی ہے۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔
نیا لگایا جانے والا درخت اب نحوست کی علامت بن چکا ہے۔ اس کے متعلق ایکسپرٹس کا خیال ہے کہ وہ زمیں کا پانی انتہائی تیزی سے پی جاتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح اس کی وجہ سے اور گرگئی ہے۔
اب اس درخت کو کاٹ کر نئے درخت لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ بعض علاقوں سے تو یہ درخت کاٹ بھی دیے گئے ہیں۔ کیا کوئی ان درختوں کو لگانے والوں سے پوچھ سکتا ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے یہ درخت پورے شہر میں کیوں لگا دیے گئے تھے؟ متحدہ کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ایک بار جماعت کو بھی اس شہر کی میئرشپ مل گئی تھی۔ ان کی اپنی ہی پسند ہے۔ ان کے خیال میں شاید کھجور کا درخت کوئی متبرک درخت ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اندروں سندھ سے کھجور کے پورے تناور درخت اکھاڑ کر کراچی میں لگانے کی روایت ڈالی۔ شارع فیصل کے دونوں طرف ان کے لگائے ہوئے کھجور کے درخت آج بھی موجود ہیں۔
سنا تو یہ ہے کہ ایک درخت تقریباً پچاس ہزار کا اندروں سندھ سے خریدا جاتا ہے۔ پھر اس پر یہاں تک ٹرالر پر لانے کا لاکھوں روپے کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔ ایک ٹرالر پر صرف آٹھ دس درخت ہی آتے ہیں۔ ان کھجور کے درختوں کی افزائش کی شرح دس فیصد سے بھی کم ہے۔ یعنی اگر دس درخت لگائے جاتے ہیں تو ایک ہی بچ پاتا ہے۔
انہی تمام تجربات کی وجہ سے آج کراچی کی سب سے خوبصورت سڑک شارع فیصل پر دونوں اطراف لگے ہوئے درختوں میں کوئی ترتیب نظر نہیں آتی۔ مختلف اقسام کے درخت ایک دوسرے کے آگے پیچھے جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں کھجور کے درخت دوسرے درختوں کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں، کہیں کھجور کے پیچھے سے کچھ اور درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ بے ہنگم ہریالی خوبصورتی کے بجائے بدصورتی کا باعث بن رہی ہے۔
اب جو نئی شجرکاری کی جارہی ہے وہ بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہورہی ہے۔ کنٹونمنٹ اپنی پسند کے درخت لگا رہی ہے۔ بلدیہ اپنے پسند کے درخت لگارہی ہے۔ ان درختوں کو لگانے کےلیے جگہ جگہ سے فٹ پاتھوں کو بری طرح توڑا جارہا ہے۔ یہ چیز الگ شہر کی صورت بگاڑ رہی ہے۔
آج کچھ الگ ہی نسل کے درخت کراچی میں لگائے جارہے ہیں، جن کے نام بھی شاید کراچی کے عوام کو معلوم نہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ عرصے کے بعد کوئی ایکسپرٹ یہ بیان کرے کہ یہ تمام درخت نہ صرف ماحول کےلیے خراب ہیں بلکہ زیر زمین پانی بھی ان ہی کی وجہ سے کم ہورہا ہے۔ کچھ ایسا ہی اسلام آباد میں پہلے ہی ہوچکا ہے۔ باہر سے درامد کیے ہوئے درختوں کی وجہ سے ہر موسم بہار میں پورے اسلام آباد میں الرجی کی وبا پھیل جاتی ہے۔
کیا ہم اتنے نااہل ہوچکے ہیں کہ ایک شجر کاری کے پلان پر بھی متفق نہیں ہوسکتے؟ کیا کوئی ایسا پلان نہیں ترتیب دیا جاسکتا جس کے تحت ہر سڑک اور ہر علاقے کےلیے پہلے سے ہی کوئی درخت مختص کردیا جائے، جس کے علاوہ کوئی دوسرا درخت نہ لگایا جائے۔ درخت کتنے فاصلے پر لگانے ہیں، کس ترتیب سے لگانے ہیں؟ یہ سب اگر پہلے سے ہی ایک پلان کے تحت ہورہا ہو تو شجر کاری شہر کی خوبصورتی کا بھی سبب بنے گی اور ماحول میں بھی بہتری آئے گی۔ ورنہ تو ہم اسی طرح اپنے شہروں میں جنگل اگاتے رہیں گے، اور کچھ عرصے کے بعد اسے کاٹتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔